جو لوگ اُس زمانے میں شعبہ صحافت سے وابستہ تھے اور سیاست جن کی بیٹ تھی وہ اچھے سے جانتے ہیں کہ اُس زمانے میں جنرل ضیاء الحق اور اُس کی فوج میں جہادی ذہنیت کے افسران اور آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک و کشمیر ڈیسک کے افسران و فیلڈ افسران سب کے درمیان اس بات پہ اتفاق تھا کہ جینیوا مذاکرات کو پاکستان اُس وقت تک معاہدے کی شکل اختیار نہ کرنے دے جب تک ان کو یہ اختیار نہ مل جائے کہ مابعد سوویت افواج افغانستان پہ کس کا کنٹرول ہو-
گورباچوف جب سوویت یونین کے صدر بنے اور کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کے جنرل سیکرٹری بن کر پولٹ بیورو سے 1985ء میں افغانستان سے سوویت افواج کے انخلاء کی منظوری لے لی تو انہوں نے امریکی ریگن انتطامیہ کے ساتھ مل کر پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن معاہدے کی طرف قدم بڑھانے کا فیصلہ کیا جس پہ افغانستان میں پی ڈی پی کی حکومت نے صدر افغانستان ڈاکٹر نجیب کی قیادت میں اتفاق کرلیا- اس معاہدے کے لیے افغان حکومت کو ایک طرف افغان باغی گروپوں سے امن مذاکرات کرکے قومی عبوری حکومت کا قیام کرنا تھا تو دوسری جانب پاکستان سے عدم مداخلت اور مکمل امن کے قیام کا معاہدہ کرنا تھا- دوسری طرف امریکی بلاک کو نام نہاد مجاہدین کو اسلحہ اور پیسے کی سپلائی کو مکمل بند کرنا تھا- پاکستان میں جنرل ضیاء الحق اور اس کے حواری اور امریکی انتظامیہ میں موجود عقابی لابی اُس مرحلے پہ افغان مجاہدین کو اسلحے کی سپلائی اور پیسے کی فراہمی بند کرنے کو تیار نہ تھی اور اس نے اس مرحلے پہ گوربا چوف اور سوویت یونین سے دغا کیا- اور ریگن انتظامیہ نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر خطے میں مستقل امن کی پہلی راہ کھوٹی کردی جس کی قیمت بعد ازاں پوری دنیا نے چُکائی –
امریکن سی آئی اے، پینٹاگان کے عقاب امریکی بلاک میں امن پسند سیاسی قوتوں کے برخلاف افغان جنگ کو طول دیکر سوویت یونین کی افواج کو کچھ عرصے مزید افغانستان میں الجھا کر سوویت یونین کو توڑدینے کی اسکیم پہ عمل پیرا تھے – اور جنرل ضیاء الحق اور اس کا ٹولہ امریکن سی آئی اے و پینٹاگان کی اس سوچ اور منصوبے سے فائدہ اٹھاکر افغانستان کو جہادی بیس کیمپ بنانے کے چکر میں تھا-
ضیاء الحقیت افغانستان میں جمہوریت پسند قومی اتفاق رائے سے بننے والی عبوری حکومت کا قیام تو ہرگز نہیں چاہتی تھی وہ تو افغانستان پہ اپنا باج گزار جہادی مسلط کرنا چاہتی تھی جس میں کسی افغان نیشنلسٹ، کمیونسٹ، سیکولر اور جہادی پولیٹکل اسلام مخالف سیاسی قوت کو زندہ نہ چھوڑا جائے – جنرل ضیاء الحق افغانستان کو ایک بڑے جہادی بنیاد پرست کیمپ میں بدلنے کا خواہش مند تھا اور وہاں سے وہ وسط ایشیا کی سوویت ریاستوں، مڈل ایسٹ، شمالی افریقہ، جنوبی ایشیا و مشرق بعید میں جہادیوں کے لشکر بھیجنے کے خواب دیکھ رہا تھا اور وہ اسلامی بنیاد پرستانہ دہشت گردی کے زریعے سے مسلم دنیا خلیفہ بننا چاہتا تھا- وہ افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا اور پاکستان کی ڈیپ سٹیٹ کا دائرہ افغانستان سے آگے وسط ایشیا تک لیجانا چاہتا تھا-
وہ امریکی بلاک سے پاکستان میں اپنے اقتدار کو مزید طول دینے کے لیے درکار حمایت چاہتا تھا-
اُس کے اس جنون، مالیخولیا سے اب خود اُس کے سیاسی اتحادی خدشات کا شکار تھے-
پاکستان کی فوج میں اپنی باری کے منتظر جرنیل بھی جنرل ضیاء الحق کے صدر اور آرمی چیف دونوں عہدے اپنے پاس رکھنے اور آرمی ہاؤس سے اپنا اقتدار قائم رکھنے پہ نالاں تھے –
اس معاملے پہ مسلم لیگ فنکشنل کے پیر پگاڑا نے اپنے مرید جونیجو کا ہاتھ تھاما اور جونیجو کی کابینہ نے ایک اجلاس میں طویل بحث و مباحثے کے بعد افغان ایشو پہ سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کا راستا تلاش کرلیا- جونیجو نے “کُل جماعتی کانفرنس” بلانے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کی خاص بات جونیجو کابینہ کی طرف سے پی پی پی کی شریک چییرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کو اُس اے پی سی میں شرکت کی دعوت تھی – بے نظیر بھٹو نے اس موقعہ پہ جونیجو کو نراش نہیں کیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے سیاسی داؤ کھیلا اور اے پی سی میں اپنی شمولیت کو جنرل ضیاءالحق کی اُس اے پی سی میں شمولیت نہ کرنے سے مشروط کردیا- جنرل ضیاء الحق کی عدم شمولیت کی شرط کو جونیجو اور اُن کی کابینہ نے مان لیا-
محترمہ شہید بے نظیر بھٹو نے تو اس اے پی سی میں غلام مصطفیٰ جتوئی کی سمولیت پہ اعتراض کیا تھا- یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ بے نظیر بھٹو جنرل ضیاء الحق اور اس کے دیگر ساتھی جرنیلوں اور اتحادی نام نہاد سیاسی قوتوں کو ہر صورت طاقت کے کھیل میں باہر کرنا چاہتی تھیں –
جونیجو چاہتا تھا کہ پاکستان امریکی بلاک اور سوویت بلاک دونوں کی رائے کا احترام کرتے ہوئے افغانستان میں قومی عبوری سیاسی حکومت کے قیام کو ممکن بنائے جس میں افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈر اور نسلی ثقافتی گروہوں کی نمائندگی موجود ہو- اور سوویت بلاک و امریکی بلاک افغانستان کی تعمیر ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی ازسر نو تعمیر شروع ہوسکے – جونیجو نے زین نورانی کو نائب وزیر خارجہ اور افغانستان پہ اپنے مشیر کے طور پہ معاون رکھا- اے پی سی میں جو فیصلے ہوئے اُن کی روشنی میں جینیوا مذاکرات کے دوران موقف اپنانے اور اُسی کے مطابق معایدے پہ دستخط کرنے کا ٹاسک زین نورانی کے سپرد ہوا لیکن جنرل ضیاء الحق نے زین نورانی کو ڈرایا دھمکایا کہ اگر اُس وہاں جاکر اُس کی سوچ کے برعکس کسی معاہدے پہ دستخط کیے تو پاکستان میں “عوام (عوام سے اُس کی مراد پاکستان کے مذھبی جنونی ملاں اور اور اُن کے پیروکار تھے) اَس کی لنچنگ /بلوائی ھجومی تشدد کے زریعے سڑکوں پہ گھسیٹ کر مار دیں گے-زین نورانی اس دھمکی سے اس قدر ڈرے کہ انھوں نے طبعیت کی خرابی کا بہانہ کیا اور بنا دستخط کیے پاکستان واپس آگئے – معاہدہ ہونے میں تاخیر ہوتی چلی گئی، جنرل ضیاء نے افغان مجاہدین کے گروپوں کو جنیوا مذاکراتی عمل کا حصہ نہ بننے دیا اور افغانستان میں خانہ جنگی چلتی رہی –
جو معاہدہ 1985ء میں ہوجانا چاہیے تھا وہ 14 اپریل 1988ء میں ہوا جس کے فریق پاکستان اور افغانستان تھے، ضامن سوویت یونین اور امریکہ تھے – یہ معاہدہ جونیجو نے کیا – اور جنرل ضیاء الحق اس معاہدے کے بھی خلاف تھے – ضیاء کی مرضی و منشا کے خلاف جونیجو نے جب وزیر نوابزادہ یعقوب علی خان کو جینیوا میں افغان امن معاہدے پہ دستخط کرنے اور اسکی توثیق کرادی تو جنرل ضیاء الحق نے جونیجو سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا اور سانحہ اوجھڑی کیمپ کی انکوائری کے لیے جونیجو کی جانب سے کمیشن کے قیام نے اس فیصلے پہ مئی 1988ء میں عمل درامد کرادیا اور جونیجو حکومت کو جنرل ضیاء نے آٹھویں ترمیم کے زریعے حاصل اسمبلیاں توڑدینے کے اختیار کی چھری سے زبح کردیا-
اس موقعہ پہ جنرل ضیاء الحق نے جونیجو اور اس کی حامی سیاسی قوتوں کو تنہا کرنے کے لیے سیاسی بگاڑ اور مداخلت کا منصوبہ شروع کیا- جونیجو کا سب سے پہلے ساتھ پنجاب میں چیف منسٹر نواز شریف اور اُن کے حامی تاجر، صنعتکار سیاست دانوں اور اُن کے جونئیر شراکت دار بنی زمیندار سیاسی اشرافیہ نے چھوڑا اور ضیاء الحق کا کیمپ جوائن کرلیا-
محترمہ بے نظیر بھٹو نے ضیاء الحق کے کیمپ میں اس سیاسی انتشار اور عالمی سطح پہ عالمی قوتوں سے جنرل ضیاء الحق کے یارانے کمزور ہونے کا مکمل سیاسی فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا تھا-
جنرل ضیاء الحق اور اس کے حواری اس بات سے اچھے سے واقف تھے کہ اس مرتبہ جنرل ضیاء ملک میں اگر الیکشن کراتا ہے تو عالمی اور اندرونی دباؤ کے تحت اس کے لیے جماعتی بنیادوں پہ الیکشن سے انکار بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوگا- اگر غیر جماعتی انتخابات بھی کرائے گئے تب بھی پی پی پی ہی نہیں بلکہ ایم آر ڈی میں شامل اکثر جماعتیں میدان خالی چھوڑنے والی نہیں تھیں-
پاکسان میں جنرل ضیاء الحق کو خود فوج کے اندر سے بھی دباؤ کا سامنا تھا – یورپ اور امریکہ میں جمہوریت پسند لابیاں پی پی پی کے موقف کی حمایت کررہی تھیں اور پاکستان میں مکمل جمہوریت کی بحالی کے لیے دباؤ میں اضافہ ہورہا تھا-
بے نظیر بھٹو کو مکمل یقین تھا کہ وہ جنرل ضیاء کو ملک میں انتخابات پہ مجبور کردیں گی یا اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کو خود اقتدار سے الگ ہونے پہ مجبور ہونا پڑے گا-
پاکستان میں اس زمانے میں پی پی پی کی عوام میں مقبولیت آسمان کو چھو رہی تھی اور ضیاء الحق غیر. مقبولیت کی نچلی ترین حدوں کو چھو رہا تھا-
اُس نے پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص اینٹی بھٹو کیمپ جس میں ملاں، جاگیردار، صنعتکار، سرمایہ دار اور کرپشن سے دولت کے انبار لگانے والی سیاسی ٹھیکے دار شہری سیاسی اشرافیہ شامل تھی کے اندر یہ خوف پیدا کرنا شروع کردیا کہ پی پی پی اور بی بی برسراقتدار آکر اُن سے بھٹو کی پھانسی کا انتقام لیں گی –
دوسری جانب پریس میں یہ پروپیگنڈا زور و شور سے کیا کہ پی پی پی اور بے نظیر بھٹو جنرل ضیاء الحق سے ڈیل کرچکی ہے اور وہ جنرل ضیاء الحق کو صدر برقرار رکھتے ہوئے اقتدار میں آنے کو تیار ہےاور اس معاہدے میں ضامن امریکہ اور برطانیہ ہیں – حالانکہ 1988ء کے آتے آتے ریگن انتظامیہ سوویت یونین کو ایول ایمپائر کہنا چھوڑ چکی تھی اور افغانستان سے اُس کی دلچسپی قریب قریب ختم ہوچکی تھی – افغان جنگ کی مد میں آنے والی امریکی امداد بھی بند ہوچکی تھی-
محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس زمانے میں عالمی سطح پہ ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک کرلیا تھا- وہ ضیاء الحق کی افغان جہاد سے جڑی ڈیپ سٹیٹ اور تزویراتی گہرائی کی پالیسی کی سب دے بڑی جمہوری ناقد بن کر ابھری تھیں – وہ بھارت سمیت ہمسایہ ممالک سے پرامن اور باہمی تعاون پہ مبنی تعلقات کی حمایت کررہی تھیں – جنوبی ایشیا میں وہ واحد جمہوری سیاست دان تھیں جو سافٹ باڈرز، علاقائی تجارتی بلاکس کے قیام کی حامی تھیں – یہ تصورات جنرل ضیاء اور اُن کے حامی اسٹبلشمنٹ ٹولے اور ان کے بچے جمہورے لاڈلے نواز شریف کے کی نابالغ سیاسی بصیرت میں آنے کے نہیں تھے اور اُس جہادی نیٹ ورک و ایمپائر کی تعمیر سے جڑے ضیاء الحقی منصوبے اور اس سے جڑے ضیاء الحقی کیمپ کے مفادات کے بھی بالکل خلاف تھے –
اُس زمانے میں پاکستان میں نام نہاد سخت گیر بایاں بازو، پاکستان کی ضیاء الحقی دور میں پروان چڑھی لبرل اور مذھبی رائٹ درمیانہ طبقے کی چیٹرنگ کلاس کی اربن پرتیں بھی بے نظیر بھٹو کی ترقی پسند سوشل ڈیموکریٹ سیاسی و معاشی لائن پہ مبنی سیاست پہ دائیں، بائیں اور لبرل اطراف سے حملے کررہی تھیں –
بے نظیر بھٹو کو اسٹبلشمنٹ میں ضیاء الحقی کیمپ کی شدید دشمنی کا سامنا تھا تو اردو پریس کی پروپیگنڈا مشینری اور سرمایہ داروں اور وردی بے وردی لبرل بابوشاہی کے حامی نام نہاد لبرل انگریزی پریس کی بھی شدید مخالفت کا سامنا تھا-
پی پی پی کا حامی میڈیا انتہائی کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا- محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس محاذ پہ پاکستان کی جس اشراف سول سوسائٹی کے لبرل افراد اور گروپوں پہ اعتماد کیا اور اُن کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی اُسی اشراف لبرل سوسائٹی کے طاقتور پروپیگنڈا حلقوں نے بے نظیر بھٹو کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی – اور آنے والے وقت میں وہ ضیاء الحقیت کے سب سے بڑے ایجنٹ اور مبلغ ثابت ہوئے اور انہوں نے بی بی شہید اور پی پی پی سے یہ دشمنی لبرل ازم کے نقاب پہن کر نکالی – ان اشراف لبرل نے انگریزی پریس میں یہاں تک کیا کہ پی پی پی اور اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو “جہاد افغانستان ہروجیکٹ” کا بانی بناکر پیش کیا-پاکستان میں اسلامی بنیاد پرستی کے پھیلاؤ کا زمہ دار بھی زوالفقار علی بھٹوکو ٹھہرایا-
جنرل ضیاء الحق جب اگست 1988ء میں ایک طیارے حادثے میں ہلاک ہوگیا تو اس کی باقیات نے اس کے افغان جہاد پروجیکٹ اور اس کے دور میں شروع کیے جانے والے جہاد کشمیر پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کرلیا- اسحاق خان کے ساتھ مل کر پی پی پی کو الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اور سب سے بڑھ کر اُسے پنجاب میں اقتدار سے محروم کرنے کے لیے منصوبہ بندی مکمل کی اور آئی جے آئی بنوایا- سندھ کے شہری علاقوں میں ضیاء الحق کی تیار کردہ لسانی جماعت ایم کیو ایم کی تشکیل کے عمل کو آگے بڑھایا- پی پی پی اور بے نظیر بھٹو خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی، دفاعی پالیسی اور عدالتی اصلاحات کے میدان میں جو تبدیلیاں کرنا چاہتی تھی اُن کے راستے میں ہمالیہ جیسی روکاوٹیں کھڑی کردیں –
ضیاء الحق کی باقیات جو فوج، بے وردی نوکر شاہی، عدالتی اسٹبلشمنٹ میں طاقتور عنصر کے طور پہ موجود تھیں جس کے پاس ایک بہت بڑا طاقتور جہادی مدرسوں اور تنظیموں کا نیٹ ورک تھا اُس نے پی پی پی اور اس کی عوامی سیاست کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کا جو مشن تھا اس باقیات نے اس پہ عمل درآمد کرنا جاری رکھا- اُسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس سے ملک کتنا پیچھے جائے گا اور جو مواقع پوسٹ کولڈ وار دور میں ہونے والی تبدیلیوں سے بے نظیر بھٹو کی آگے کی طرف دیکھنے کی سیاست کو بروئے کار لانے سے ملنے تھے اُن میں سے بیشتر ضایع ہوگئے-
1988ء سے 1990ء اور پھر 1993ء سے 1996ء دو ادوار حکومت میں بے نظیر بھٹو نے مختلف شعبہ جات میں جو اقدامات اٹھائے اُن کی مثال ملنا مشکل ہے کیونکہ آگے کی طرف جانے والے یہ اقدامات بدترین حالات میں کی جانے والی حکومتوں میں اٹھائے گئے تھے –
اس دوران ضیاء الحقی ورثہ ایوان صدر، آرمی ہاؤس، ایوان عدالت، آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر، بے وردی نوکر شاہی میں عدم تعاون سے بغاوت تک پہ آمادہ عناصر کے گٹھ جوڑ نے پنجاب میں نواز شریف کی ریاست کے تمام اداروں میں الگ سلطنت اور معاندانہ مشینری کو پیوست کرنے اور پھر وزرات عظمیٰ پہ قبضے کی راہ ہموار کرنے میں زبردست تعاون فراہم کرنے میں لگادیے – اور پھر نواز شریف کی اپنی کھڑی کردہ اسٹبلشمنٹ کے اندر اسٹبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو کو ایک بار پھر پاکستان سے جلاوطن ہونے پہ مجبور کردیا-
اس دوران بنیاد پرست مولوی ہوں یا عسکریت پسند جہادی نیٹ ورک اسامہ بن لادن جیسے گلوبل جہادی نیٹ ورک چلانے والے سب کے سب بے نظیر بھٹو کی جان لینے کے درپے رہے-
بے نظیر بھٹو کا نواز شریف سیاسی میدان میں مقابلہ نہ کرپائے تو انہوں نے پنجاب میں اُن کے حامی اور تنظیم کو اکھاڑنے کے لیے ہر ایک طاقت کا حربہ آزمایا – اور پاکستان کے پریس کے کیا رائٹ کیا لبرل اور کیا لیفٹ سبھی اشراف کرداروں کو اس نے لالچ سے اپنا باج گزار بنالیا-
نواز شریف کی اسٹبلشمنٹ کے اندر قائم اسٹبلشمنٹ نے صرف پی پی پی اور شہید بی بی کی سیاست کے راستے میں روڑے نہیں اٹکائے بلکہ ایک وقت وہ بھی آیا جب اسٹبلشمنٹ کے اندر اسٹبلشمنٹ بنانے والے نواز شریف اپنے محسنوں کو ڈسنا شروع کردیا – ( جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں