ڈائری ۔۔مدثر اقبال عمیر

اس کی دی ہوئی ڈائری کے تمام ورق خالی پڑے ہیں۔میں نے ایک لفظ بھی ان پر نہیں لکھا۔ کتنا عرصہ گزر گیا لیکن گہرے بھورے رنگ کے کور والی اس ڈائری میں اب بھی اس کی خوشبو قید ہے۔میرے ذہن میں قید اس کی یادوں کی طرح ۔

اس ڈائری کی قیمت بمشکل سو دو سو ہوگی لیکن اس دن وہ ڈائری میرے لیے ہفت اقلیم کی سلطنت سے بڑھ کر تھی ۔اس لئے کہ یہ سلطنت اس کے ہاتھوں سے ملی تھی ۔ مہنگا تحفہ دینا اس کے بس میں تھا نہ میری اوقات مہنگے تحفے والی تھی ۔

الوداعی تحفوں کی بھی الگ زبان ہوتی ہے۔ایسی زبان جس میں الفاظ سے زیادہ جذبات نمایاں ہوتے ہیں ۔یہ تحفہ نہیں ہوتا ،دینے والوں کے ساتھ گزرے وقت کی ایک مجسم تصویر ہوتی ہے ۔

وہ ڈائری بھی ایک الوداعی تحفہ تھی ۔جو اس نے جاتے جاتے مجھے خاکی لفافے میں ملفوف کرکے دی تھی ۔ جب لفافہ چاک کیا تو اسے بچھڑے گھنٹوں بیت چکے تھے ۔جاتے وقت کی الوداعی مسکراہٹ کا اثر پوری طرح قائم تھا اور کمرے میں صرف اس کی یادیں رقصاں تھیں ۔
یادوں کا رقص بھی دھیرے دھیرے اپنی چاپ بڑھاتا ہے اور پھر آپ کو ارد گرد سے بے نیاز کر دیتا ہے ۔
اسی بے نیازی کے عالم میں مَیں نے وہ ڈائری کھولی تھی ۔پہلے صفحے پہ اس کی شکستہ لکھائی میں لکھا تھا۔

“ایک وعدہ کرو!
مجھے بھولو گے نہیں ۔”

بچھڑنے والے نے جاتے جاتے کتنی بڑی شرط عائد کردی ۔
اس پوری ڈائری میں صرف یہی ایک جملہ تھا۔
اور آج نو سال گزر گئے اس ڈائری میں صرف یہی ایک جملہ ہے۔

اس ڈائری میں اس کے ہاتھوں کا لمس اب بھی اسی طرح نمایاں ہے۔اس کے ساتھ بیتے وقت کا اک اک لمحہ قید ہے،ڈائری کے اوراق میں بھی اور میرے ذہن میں بھی ۔

اس ڈائری کا بھورا کور،کور میں جڑ اپیانو کا بال پوائنٹ ، سفید صفحے اور پہلے صفحے پہ اس کا مجھ سے لیا گیا وعدہ،یہ ساری چیزیں اپنی اصلی حالت میں اسی طرح برقرار ہیں جیسے آج سے نوسال پہلے تھیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن وہ مجھے بھول چکا ہے ۔

Facebook Comments

Mudassir Iqbal Umair
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہوں۔تحریر اور صاحبان تحریر سے محبت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply