مایوسی گناہ ہے، مگر کیا ہم گھبرا لیں؟۔۔سید عمران علی شاہ

سیاست اور انسانی زندگی کا آپس میں گہرا ربط اور وابستگی ہے، اب یہ سیاست انسان کو اپنے رشتوں کویکجا کرنے کی خاطر ہو یا پھر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کے لیے رشتوں کی بلی چڑھانے کی غرض سے ہو، سیاست کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے،ملک پاکستان کو معرض وجود میں آئے 74 سال سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے،برصغیر کی غیر منصفانہ تقسیم میں نومولود پاکستان نے لاکھوں مسائل کے انبار کا سامنا کیا، روز اوّل سے ہی ارض وطن کو وسائل کی شدید قلت، مالی مشکلات جیسے اہم ترین چیلنجز سے سابقہ رہا، وقت کے ساتھ ساتھ ان چیلنجز میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا، مگر پھر بھی جتنا ممکن ہو سکا سست روی سے ہی سہی ترقی کی منازل بھی طے ہوئیں۔
پاکستان مسلم دنیا میں پہلی ایٹمی طاقت بن کر ابھرا،  پاکستان کے سیاسی نظام میں اوائل میں دو سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری رہی،اس دوران بہت سی سیاسی پارٹیاں وجود میں آئیں، مگر ان کو ان دونوں پارٹیوں کی اجارہ داری کو توڑنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں ایک اہم سیاسی پارٹی بن کر اُبھری،پاکستان تحریک انصاف نے عوام کو حقیقی تبدیلی کا خواب دکھایا،پاکستان تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور میں ان کی سابقہ حکومتوں کی کرپشن کو بنیاد بنا کر ڈی چوک اسلام آباد 126 دن کا طویل ترین سیاسی دھرنا دیا، اس دھرنے کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے قائدین نے، الیکٹیبلز کی سیاست کو بد ترین تنقید کا نشانہ بنایا۔

اسی دھرنے میں تقریر کے دوران عمران خان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اگر بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو سمجھ لیں کہ ملک میں کرپشن ہو رہی ہے، اگر روپے کی قدر میں کمی ہو اور ڈالر کے ریٹ میں اضافہ ہو تو سمجھ لیں کہ ملک میں کرپشن ہورہی ہے، طبقاتی نظام نے ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرکے رکھ دیں ہیں۔
تحریک انصاف کے کرپشن فری پاکستان اور تبدیلی کے بیانیے اور بے تحاشا سیاسی جدوجہد کر کے عوام الناس میں اپنی جگہ بنا لی،اور آخر کار 2018 کے جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف نے وفاق، پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں اپنی حکومت بنا لی۔سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت ہونے کی وجہ سے ان کی حکومت کا قیام عمل  میں آیا، اور بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے اتحاد کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی ہی حمایتی حکومت قائم ہوئی۔

اس جنرل الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف اپنے ہی بیانیے کے بر عکس اپنی پارٹی میں الیکٹیبلز کو اکٹھا کرکے ان کو پارٹی ٹکٹ جاری کیے جو کہ ان کا پہلا باضابطہ یو ٹرن ثابت ہوا، پنجاب میں حکومت کے قیام کی غرض سے جو جہانگیر خان ترین کے جہاز نے کردار ادا کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، دھرنے کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ملک سے وی آئی پی کلچر کی شدید مخالفت کرتی دکھائی دی مگر جب اپنا دور حکومت آیا تو وزیراعظم نے اپنے دفتر جانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال کرکے عوام کو فرطِ حیرت میں ڈال دیا،اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے بجائے وی وی آئی پی کلچر کا آغاز کردیا۔

موجودہ حکومت کی کابینہ وزراء اور مشیروں کی تعداد گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے،یہ ہے تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران کورونا وائرس جیسی موذی وباء نے ملکی معیشت اور دیگر حالات کو بہت متاثر کیا،مگر حکومت نے بہت جامع حکمت عملی اپناتے ہوئے این سی او سی کا قیام کیا اور اس وباء کا بھرپور مقابلہ کیا اور پوری دنیا میں ایک بہترین مثال قائم کی ، اس وباء کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے موجودہ حکومت کی کارکردگی پر بہت گہرے اثرات بھی مرتب ہوئے،مگر اس وباء نے تو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر اسے بدترین متاثر کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ونگ بہت مؤثر کام کرتا ہے سو ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سب اچھا کی رپورٹ دکھائی جاتی رہی ہے، اور اگر خدانخواستہ کوئی عام آدمی حکومت پر تنقید کردے تو نہ صرف ان کے کارکن اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں بلکہ تمام اخلاقی اقدار کو بالائے تاک رکھ کر ایسی بیہودہ زبان کا استعمال کیا جاتا ہے کہ، دوسرے کے اوسان خطاء ہوجائیں،
موجودہ دور حکومت سے عام آدمی نے جتنی بھی امیدیں وابستہ کی تھیں وہ دھیرے دھیرے دم توڑنے لگیں،روزمرہ کی اشیائے خورد نوش عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں،آٹا، چینی، گیس، بجلی اور تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کی تو کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے،پاکستانی روپے کی قدر تاریخ بدترین حد تک گر گئی ہے، ڈالر اچھلتا کودتا 174 روپے پر جا پہنچا۔

یہ تمام تر حالات مایوس کن ہیں، مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ بات حکومتی وزراء اور مشیران کے غیر سنجیدہ اور تکلیف دہ رویہ ہے، ان کے بیانات جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں،ایک وفاقی وزیر میڈیا پر بیان داغتے ہیں، کہ عوام چینی کے دس دانے کم استعمال کرے، تین کے بجائے دو روٹیاں کھا کر گزارا کرے، یعنی کے سب کی سب قربانیاں عام آدمی ہی دے اور اپنی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہونے کے در پے ہو، جب کہ صاحب اقتدار جیسی چاہیں عیاشی کریں۔

انیل مسرت گورنر سٹیٹ بنک پاکستان نے اپنی یو کے پر دورہ کے دوران بذات خود ہی پاکستانی روپے پر جس قسم کا تبصرہ کیا ہے اس اندازہ لگایا جا سکتا ہے ہے کہ حکومت کی معاشی ترقی کو لے کر کیا ترجیحات ہیں،اس دور حکومت میں ادویات کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے وہ نہایت تشویشناک ہے، شوگر، بلڈ پریشر کی دواؤں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں،جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بابت جو اقدام کیا گیا ہے وہ آدھے تیتر آدھے بٹیر کے مصداق ہے اس اہم ترین معاملے میں بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ،جنوبی پنجاب کی سڑکیں تباہ حال ہیں، صحت و تعلیم کی صورتحال دگرگوں ہوچکی ہے،جتنے منصوبے جنوبی پنجاب میں آنے تھے ان میں اکثر سائیں بزدار کے اپنے حلقے میں ٹرانسفر ہوچکے ہیں تو عثمان بزدار اور شہباز شریف کی سیاست میں کیا فرق رہ گیا عثمان بزدار کو تونسہ اور شہباز شریف کو لاہور پنجاب لگتا تھا۔

اس دور حکومت سے قبل ملک میں واضح طور پر تین معاشی طبقات موجود تھے،امیر، متوسط اور غریب طبقہ، مگر اب تو سفید پوشوں کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں بھی مشکل ہورہی ہے،کیا یہی وہ معاشی بہتری کا منصوبہ تھا حکومت کا،وزیراعظم اپنی تقاریر میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے، لیکن کوئی بھی ایک ایسا منصوبہ سامنے نہیں آیا کہ جس سامنے رکھ کر عوام گھبراہٹ کا شکار ہونے سے بچ سکے،احساس ایمرجنسی ایک اچھا اقدام ہے جس سے غریب اور نادار طبقے کی معاونت ہوری ہے، لیکن اگر حالات ایسے ہی رہے تو شاید چند بڑے اور حکمران گھرانوں کو چھوڑ، باقی ساری عوام احساس ایمرجنسی کے بینفشریز نہ بن جائیں،ہم مایوس نہیں ہیں کیونکہ مایوسی کفر ہے، مگر  گھبرا ضرور گئے ہیں۔
حکومت کو ان غیر معمولی حالات کا ادراک کرتے ہوئے، ملک کے تمام شہریوں کو ہر طرح کا ریلیف فراہم کرنے کے لیے نہایت سنجیدہ اقدامات اٹھانے پڑیں گے، اب فاقوں سے تنگ آ کر بات خودکشیوں تک آن پہنچی ہے،حکومت کے لیے اس وقت اہم ترین حل طلب مسائل شدید ترین مہنگائی، بیروزگاری اور غیر یقینی معاشی معاملات ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف پر عوام نے بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کو امید کی کرن دکھا کر اقتدار حاصل کیا، تو اگر اب جنگی بنیادوں پر عوام کو درپیش مسائل کا حل نہ کیا گیا تو پھر آنے والے جنرل الیکشنز میں تحریک انصاف کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امید کی جارہی ہے کہ اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پچھلی حکومتوں کی کرپشن کا راگ الاپنے کے بجائے عملی اقدام کرکے مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر مسائل کا شکار عوام کے بہترین مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹھوس اقدامات کرے گی۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply