بہت سے لوگ شکوہ کناں ہیں کہ حکومت بلکہ حکومتیں عوام کے روزگار و ترقی و خوشحالی کے لئے کیوں کچھ نہیں کرتیں، تربیتی ورکشاپس، کورسز کیوں نہیں کراتیں وغیرہ وغیرہ ۔ تو عرض ہے شکوے جتنے بھی کرلیں بے اثر رہتے ہیں ۔ حکومت کے کچھ ادارے کچھ اچھا بُرا تھوڑا بہت کام کرتے ہیں جو ساری آبادی کے لئے کافی نہیں تو بجائے شکوہ کرنے کے کیوں نہ خود کوشش ہی کر لی جائے۔
بے تحاشا لوگ دن رات کام کر رہے ہیں ۔ فیس بک اور معاشرے کے مختلف پلیٹ فارم بہت کام کر رہے ہیں۔ کئی تربیتی ورکشاپس ہو چکی ہیں ۔۔۔ کئی لوگ کام کر رہے ہیں جن میں محترم Muhammad Amjad Saqib ان کی تنظیم اخوت، محترم Ibn e Fazil صاحب اور ان کے فیس بک گروپ خوشحال پاکستان کا کام بہت نمایاں ہے ۔ حکومتوں کی طرف دیکھتے رہنا اور درست ہی سہی لیکن شکوے شکایتیں کرتے رہنے سے ہی حالات نہیں بدلیں گے ۔
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے ، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔
جنہیں کام کرنا ہوتا ہے وہ کر گزرتے ہیں باقی میری طرح بیٹھے باتیں بناتے رہ جاتے ہیں۔ کسی شاعر نے یہ بات بڑی خوبصورتی سے بیان کی ہے؛
اج دی رات وی ایویں لنگھی
اکھیاں چھم چھم وسدیاں رہیاں
عشق ندی دا ڈونگھا پانی
غوطے کھاندیاں، تردیاں رہیاں
یار ملن دی تانگھ جنہاں نوں
کچے گھڑے تے وی ٹھل جاون
جان پیاری جنہاں کیتی
بیٹھیاں ہوکے بھردیاں رہیاں

اردو مفہوم:-
آج کی رات بھی یار کے عشق میں، اس کی یاد میں روتے دھوتے گزر گئی کہ عشق کا دریا بہت گہرا ہے لیکن جن کو یار سے ملنے کی تانگھ (شدید خواہش) ہو وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر کچے گھڑے پر بھی دریا کی تلاطم خیز موجوں میں کود کر امر ہو جاتا (اشارہ ہے سوہنی کی طرف جو مہنیوال سے ملنے کی خاطر کچے گھڑے پر ہی دریا پار کرنے کے لئے دریا میں اتر گئی تھی)۔ دوسری طرف جن کو جان پیاری ہوتی ہے وہ عمر بھر بیٹھے آہیں بھرتے رہتے ہیں (ناکام عاشق جیسے شاعری شروع کر دیتے)۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں