• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • کتھا چار جنموں کی” سے ایک اقتباس- سطروں کی تراش کے بارے میں(1)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کتھا چار جنموں کی” سے ایک اقتباس- سطروں کی تراش کے بارے میں(1)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

چونکہ میں ان دنوں اردو کی آزاد نظم میں طبع آزمائی کر رہا تھا اور ن۔م۔راشد، میرا جی کے علاوہ دیگر اردو شعرا کا بغور مطالعہ کر رہا تھا۔ ڈاکٹر زور ؔ کے توسط سے جامعہ عثمانیہ کے کتب خانے سے مجھے کتابیں مل سکتی تھیں، اس لیے میں نے اس موضوع پر اپنے نوٹس سے ایک پوری ڈائری بھر دی۔
ایک خاص موضوع جس پر میں نے عرق ریزی کی حد تک کام کیا ، وہ اردو میں صنف غزل کے منفی اثرات کی وجہ سے آزاد نظم (یعنی بلینک ورس۔۔فری ورس نہیں ، جسے آج کل نثری نظم کہا جاتا ہے ) میں رن ، آن سطروں سے لا تعلقی کا رویّہ تھا۔ طوالت یا اختصار کی بِنا پر سطور کی قطع برید بہت پرانی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ تصدق حسین خالدؔ سے چل کر میرا ؔ جی اور ن۔م۔راشدؔ تک پہنچ چکنے کے بعد تک، (بلکہ مجید امجدؔ اور اخترؔ الایمان تک) شیوہ یہ رہا کہ اگر ایک سطر بہت طویل ہو گئی ہے اور صفحے کی چوڑائی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ شاعر اس کو قطع کیے بغیر لکھ سکے، تو رن۔آن لائنز کے قاعدے کواس شرط پر بروئے کار لایا جائے کہ باقی کا متن پیوستہ سطر کے وسط سے شروع کیا جائے۔ ایک مثال دے کر اپنی بات واضح کرتا ہوں۔

اے سمندر! پیکرِ شب، جسم، آوازیں
رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو
پتھروں پر سے گزرتے، رقص کی خاطر
اذاں دیتے گئے۔
(ن۔م۔راشد: ’’اے سمندر‘‘)
یہ بحر ِرمل (فاعلاتن) کی تکرار ہے۔ غور فرمایئے: اے سمندر (فاعلاتن)، پیکر شب (فاعلاتن)، جسم آوا (فاعلاتن)۔۔۔۔(یہاں اب ’’زیں‘‘ کو رن۔آن کر کے پیوستہ سطر کے ’’رگوں میں‘‘ سے ملا دیا گیا ہے)یعنی ۔۔زیں رگوں میں (فاعلاتن)، دوڑتا پھر (فاعلاتن)، تا لہو (فاعلن) ۔۔گویا سطر کی برید اس لیے کی گئی کہ چھہ (۶) فاعلاتن کے بعد ’فاعلن‘ کا اختتامیہ آیا ہے،( جو کہ غزل کا وزن عام طور پر نہیں ہے)۔ لیکن راشد نے یہ تمیز روا رکھی ہے کہ اگررن۔آن لاین کا چلن ضروری ہو گیا ہے تو گذشتہ سے پیوستہ سطر کو بیچ میں سے شروع کیاجائے۔

اسی طرح : پتھروں پر (فاعلاتن)، سے گذرتے (فاعلاتن) رقص کی خا (فاعلاتن) ۔۔۔اب یہاں ’’طر‘‘ ، جو ’’خاطر‘‘ کا اختتامیہ ہے ، پیوسطہ سطر کے پہلے لفظ سے منسلک ہونا ضروری ہو گیا ہے، اس لیے دوسرا ٹکڑا سطر کے عین درمیان میں سے شروع کیا گیا۔ تر اذاں دے (فاعلاتن)، تے گئے (فاعلن)۔

ان شعرا نے رمل کے علاوہ ہزج (مفاعلین کی تکرار)، رجز (مستفعلن کی تکرار)، متدارک (فاعلن کی تکرار)، متدارک سالم (فعلن کی تکرار)، متقارب سالم (فعولن کی تکرار)، متقارب مقبوض (فعول فعلن) اور کامل (فاعلن کی تکرار) ۔۔۔یعنی لگ بھگ سبھی مروج بحور میں یہ چلن اختیار کیا۔

راقم الحروف نے 1960ء کے لگ بھگ اس سے انحراف کیا تھا اور حیدر آباد میں قیام کے دوران تک لگ بھگ پچاس نظموں میں نثری جملے کی منطقی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے (سبھی متعلقات فعل کو ان کی صحیح جگہ پر مستعدی سے کھڑا رکھتے ہوئے)، رن آن لائنز کو اس طور سے برید کیا تھا کہ نفسِ مضمون گزشتہ  سطر سے تجاوز کرتا ہوا، ما بعد سطر کے وسط یا آخر تک، اور بسا اوقات، ما بعد سطر سے بھی منسلک ہونے والی اگلی سطر تک flux and flow کے ناتے سے بہتا چلا جائے۔ اب یاد آتا ہے کہ حیدر آباد کا دقیانوسی ماحول اوّل تو آزاد نظم کو قبول کرنے کے لیے ہی تیار نہیں تھا، اس پر رن آن لاین کی ’زیادتی‘؟ ظاہر ہے کہ محفلوں میں تو کم کم، مگر مشاعروں میں مجھے ہوُٹ بھی کیا گیا اور کوسا بھی گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابلِ  ذکر ہے کہ حیدر آباد کے قیام کے بیس برسوں کے بعد جب ایک پراجیکٹ کے تحت میری تحریر کردہ ایک سو نظموں کا مجموعہ ’’دست برگ‘‘ چھپا تو اس پر ایک ذاتی خط میں ڈاکٹر کالیداس گپتا رضاؔ نے لکھا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ فارسی عروض کی قربانی دیے بغیر، اردو میں بلینک ورس کے لیے ’رن آن لائنز ‘ کی یہ سہولیت ، وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت تھی، جسے آپ نے پورا کیا ہے۔ آنے والا مورخ جب اس کا لیکھا جوکھا کرے گا تو اردو کی آزاد نظم پر آپ کے اس احسان کو سراہا جائے گا۔‘‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کتاب کے ’’اختتامیہ‘‘ میں بھی یہ رائے ظاہر کی کہ اگر اس چلن پر اردو کی آزاد نظم چل سکی تو یہ قدم مستحن قرار پائے گا۔ ‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا نے پنے ایک مکتوب میں ایک نہایت دلچسپ انکشاف کیا۔ انہوں نے لکھا۔ ’’آپ کے کہنے پر میں نے ایک آدھ گھنٹہ اس بات پر صَرف کیا کہ 1970 ء سے پہلے کی اپنی نظموں کو نکال کر آٹھویں یا نویں دہائی یا اس کے بعد میں لکھی گئی نظموں کے مد مقابل رکھ کر دیکھا تو واقعی یہ معلوم ہوا کہ میں نے بھی کوئی شعوری فیصلہ کیے بغیر (یعنی کلیتاً لا شعوری طور پر) اپنی نئی نظموں میں رن آن لائنز کا چلن اپنا لیا تھا، لیکن یہ بات مجھے آپ کے استفسار کے بعد معلوم ہوئی اب میں خود سے پوچھ رہا ہوں۔ ستیہ پال آنند صاحب کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے یا نہیں؟‘‘ میرے دیگر نظم گو دوستوں میں احمد ندیم ؔ قاسمی،(مرحوم) ضیا ؔ جالندھری(مرحوم)، بلراج کوملؔ ، نصیراحمد ناؔ صر ، علی محمد فرشی ؔ اور کئی دیگر احباب نے بھی اس رویے پر مجھ سے اتفاق کیا اور اپنی نظموں میں اس چلن پر صاد کیا۔

ماہنامہ ’’صریر‘‘ کراچی میں شامل ہوئے میرے ایک مضمون پر ردِ  عمل کے طور پر ایک صاحب نے (نام بھول گیا ہوں، کیونکہ میں اپنی اس برس کی ڈائری سے یہاں نقل کر رہا ہوں) ماہنامہ ’’ صریر ‘‘کے ہی فروری 2004 کے شمارے میں ان نکتوں کی شیرازہ بندی اان الفاظ میں کی۔ ’’ان تفصیلات پر بحث کے لیے کچھ اہم نکات کو دہرا دینا مناسب ہے
۱- مروج عام بحور جو سالم ارکان پر مشتمل ہوں آزاد موشح (ان کا مطلب تھا ’’آزاد نظم‘‘)کی تخلیق کے لیے موزوں ہیں یا ایسی مزاحف بحریں جن کے دو ارکان کے درمیان تین متحرک حروف مل کی ایک یونٹ بنا دیں، بھی جائز و موزوں ہیں۔
۲- آزاد نظم کے مصرع کو سطر کہنا چاہیے
۳- آزاد نظم کا کوئی مصرع خود کفیل نہیں ہونا چاہیے۔ اور
۴- صوتی اعتبار سے ما قبل مصرع کا اگلے مصرع میں انضمام ضروری ہے۔ ‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

اس زمانے میں بھی اور آج بھی کئی بار خود سے یہ سوال پوچھنے کی جرات کرتا رہا ہوں کہ آج تک ، یعنی اکیسویں صدی کی ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی، اردو کا نظم گو شاعر غزل کی روایت کے اس مکروہ اثر سے کیوں آزاد نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی سطروں کی تراش خراش میں رن آن لائنز کے چلن کو روا رکھ سکے۔اور نظم کی’ سطر‘ کو سطر ہی سمجھے، ’ مصرع‘نہیں۔ ان دو باتوں کو الگ الگ پلڑوں میں رکھ کر بھی تولنے کا اہلیت مجھ میں ہے ۔
(الف) کیا مقفےٰ اور مسجع نظموں کی غنائیت اور نغمگی، حسن قافیہ کی سحر کاری اور بندش الفاظ نگینوں میں جڑی ہوئی شوکت و رعنائی اس صنف کو ’’آزاد نظم‘‘ یا ’’نظم معرا‘‘ سے ممتاز بناتی ہے؟
(ب) کیا غزل کے روایتی ’’فارمیٹ‘‘ سے مستعار اردو شاعروں کی یہ عادتِ ثانیہ کہ وہ نظم کی ’سطر‘ کو بھی ’مصرع‘ سمجھتے ہیں اور ایسا کرنے سے وہ نظم کی آزادی، یعنی اس کے مضمون اور اس کے شعری اظہار کی لسّانی اور اسلوبیاتی تازہ کاری کی قربانی نہیں دیتے؟ اور  ۔۔۔
جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply