چوتھی جنس۔۔۔۔قراۃ العین حیدر

وہ دوپہر سے ہی سر پکڑے روئے جا رہی تھی ابھی سرمد کے آنے میں خاصا وقت تھا۔ شاید اس کے آنے پر ہی معاملہ کچھ سلجھے۔۔۔۔ لیکن مسئلہ اس حد تک پریشان کن تھا کہ وہ ابھی سے خاصی ناامید تھی۔ ہونی کبھی نہیں ٹلتی ۔۔۔۔ یہ سارے دکھ،  مسائل ہم عورتوں کیلئے ہی کیوں ہیں؟  مردوں کو کیوں بری الزماں قرار دے دیا جاتا ہے؟  وہ سوچتی جارہی تھی اور روتی جارہی تھی۔ ابھی دن ہی کتنے ہوئے تھے اس کی شادی کو۔ تقریباً سات مہینے یعنی کہ کل ملا کے دو سو دس دن۔۔۔ اور ان دو سو دس دنوں میں وہ کوئی خوشخبری نہیں دے پائی تھی۔ اس کی ساس پہلے مہینے سے ہی کچھ اشاروں کنایوں میں پوچھتی رہی۔ دو مہینے کے بعد کھلم کھلا کہنے لگی کہ بھئی جلدی کرو۔ بھلا عورت ہے کہ اے ٹی ایم مشین کہ فٹ سے بچہ جَن دے۔ اب کوئی تین دن پہلے اسے اس ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھیں جن کے ہاتھ سے ان کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں پیدا ہوئے۔ چند ٹیسٹوں کی رپورٹ آنے کے بعد آج اس ڈاکٹر نے صاف کہہ دیا کہ فروہ بانجھ ہے اس کے بچہ کبھی نہیں ہوسکتا۔
اسے یقین نہ آیا ڈاکٹر نے جو کہا۔۔۔ اسے اپنی ممتا اور اپنے خالق پر بھروسہ تھا۔ اور اس بات پر یقین تھا کہ خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔ اماں نے پہلے اسے نخوت سے گھورا اور پھر منہ ہی منہ میں کوسنے دینے لگیں۔ یہ بانجھ میرے بیٹے کیلئے ہی رہ گئی تھی،  میرے بیٹے کی قسمت ہی خراب ہے،  پہلے ایک کو طلاق دی کہ وہ حرافہ تھی اور اب یہ بانجھ ہے، ہائے۔۔۔۔میرے بیٹے کی قسمت میں سکون کی زندگی اور اولاد کا سُکھ نہیں ہے۔ وہ بےدلی سے اٹھی اور بنا کسی کی طرف دیکھے کلینک سے باہر آگئی۔ گھر تک کا راستہ نجانے اس نے کس طرح طے کیا لیکن جب وہ اپنے کمرے میں آئی دروازہ بند کیا تو اس کا  ضبط  ٹوٹ گیا اور وہ بلک بلک کر روئی۔ اسے لگا جیسے اس کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی  گئی ہو۔ لیکن امید پہ دنیا قائم ہے وہ سرمد کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ لیکن اماں کے روئیے کو جتنا محسوس کرتی اتنی ہی مایوسی بڑھنے لگی۔
سرمد کے آنے سے پہلے ہی اماں نے پورا قضیہ فون کرکے اسے بتا دیا اور ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دے دیا کہ فروہ کو فوراً طلاق دے دی جائے۔ سرمد جو پہلے ہی اماں کے آئے دن کی پوچھ گچھ سے پکا ہوا تھا اس خبر پر مشتعل ہوگیا۔ اسے بھی یہ  یقین  تھا کہ ہو نہ ہو فروہ اور اس کے گھر والوں کو اس بات کا پہلے سے پتا تھا اسی لئے شادی کی اتنی جلدی کررہے تھے۔ گھر آکر دیکھا تو بالکل وہی ماحول  تھا جو وہ دفتر میں فرض کرکے بیٹھا ہوا تھا۔ دوپٹے سے بندھا ہوا ماں کا سر جو مسلسل کوسنے دینے سے دُکھ رہا تھا اور فروہ کی سوجی ہوئی خون آلود آنکھیں۔ وہ شدید ٹینشن میں تھا۔۔۔۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ وہ کمرے میں بھاری دل کے ساتھ داخل ہوا۔ فروہ نے اسے دیکھتے ہی منہ دیوار کی جانب پھیر لیا اور زور زور سے رونے لگی۔ “سرمد اس میں میرا کیا قصور ہے کہ میں بانجھ ہوں۔ میں خود سے تھوڑا ایسے بن گئی ہوں۔ میرا اعتبار کرو مجھے بھی آج یہ معلوم ہوا ہے۔” سرمد خاموشی سے بیٹھ گیا ایک زور دار آواز سے دروازہ کھلا اور اماں کمرے میں کوسنے دیتی ہوئی داخل ہوئی “نہیں پتا تھا تو بانجھ کیا میرے بیٹے کیلئے ہی رہ گئی تھی۔۔۔۔ تُو تو پہلے ہی منحوس تھی پہلے کھسم کھا گئی اب میرے بیٹے کی خوشیاں کھا گئی۔ وہ تو میں ہی اندھی تھی کہ رشتہ داری میں اس منحوس سے رشتہ جوڑ لیا۔ سرمد۔۔۔۔ اس کے گھر والوں سے کہو کہ آکر اسے لے جائیں”۔
شام کو اس کا چھوٹا بھائی آیا اور اسے لے گیا۔ بنا ماں باپ کے مائیکہ کوئی مائیکہ تھوڑی ہوتا ہے۔ کچھ دن بعد طلاق کے کاغذات بھی آگئے۔ وہ دوسروں پر ایک بوجھ بن گئی۔ کوئی پوچھ لیتا تو جواب دے دیتی۔ نہیں تو سارا دن اماں کے تخت پر چپ چاپ بیٹھی رہتی۔ کوئی روٹی دے دیتا تو کھا لیتی۔ سوچتی رہتی کہ پہلا شوہر شادی کے بعد روڈ ایکسیڈنٹ میں مرگیا تو میرا کیا قصور ہے؟  شادی کے دو مہینے بعد وہ اپنی نوکری پر دوبئی چلا گیا اور مر گیا مجھے کیا پتا کہ میں بانجھ ہوں کہ نہیں۔۔۔۔ میں جسمانی طور پر بانجھ ہوں لیکن میری ممتا تو بانجھ نہیں ہے۔ میں بھی اولاد کیلئے اسی طرح کی محبت کی گرمائش محسوس کرتی ہوں جو سب بچوں والی مائیں کرتی ہیں۔
دوپہر سے صحن میں بلی چکر لگا رہی تھی۔۔۔۔ وہ دردِ زہ میں مبتلا تھی۔ کتنے ہی ہفتوں سے وہ اس کو دیکھ رہی تھی۔ اس کو نوٹ کررہی تھی۔ آج اس کی کیفیت سے لگ رہا تھا کہ تکلیف میں ہے۔  صبح جاگی تو دیکھا کہ تخت کے نیچے تین بند آنکھوں والے بلی کے بچے لیٹے ہوئے ہیں۔ خوشی کے مارے اس کے آنسو بہنے لگے کہ گویا اس کے اپنے ہاں پیدائش ہوئی ہو۔ تخت پر بیٹھے بیٹھے رونے لگی کہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت تو یہ بلی ہے جس نے اپنے بچوں کو جنم دیا۔ اگلے چند دن وہ بلی کے بچوں کے ساتھ مصروف رہی ان کو وقتاً فوقتاً دودھ ڈالتی،  جگہ صاف کرتی،  محبت سے انہیں دیکھتی۔ اس کی اس محبت میں چھپی ہوئی اس کی زندگی کی حسرتیں تھیں، تشنگی تھی،  ادھورہ پن تھا۔
کچھ دن سے گھر میں چہل پہل تھی ۔۔۔۔ اس کی چھوٹی بہن وردہ کینیڈا سے آرہی تھی۔ وہ بھی بےچینی سے اس کا انتظار کررہی تھی۔ وردہ اس کی شادی پہ بھی نہیں آسکی تھی۔ یہ بہن بھائیوں کے رشتے کتنے عجیب ہیں کچھ بسلسلہ روزگار ملک سے باہر شفٹ ہوجاتے ہیں اور بہنیں بیاہ کر دور چلی جاتی ہیں ۔ انسان یاد کرتا رہتا ہے بہت سی باتیں بہت سے دکھ بانٹنا چاہتا ہے جو ممکن نہیں ہوتا۔ وردہ کی شادی سے پہلے دونوں بہنوں کی بہت دوستی تھی۔ پھر فروہ شادی کے دومہینے بعد ہی بیوہ ہوکر ماں باپ کے گھر آگئی تو سب سے زیادہ اس کی دلجوئی وردہ ہی کرتی تھی۔ پھر وردہ کی شادی ہوگئی تو وہ ہزاروں میل دور کینیڈا اپنے میاں کے ساتھ جابسی۔ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد وردہ دو مہینے کیلئے آئی تھی تب دونوں بہنوں نے بہت وقت ساتھ میں گزارا  اور دکھ سکھ سانجھے  کرتی رہیں۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ ماں کی وفات پر بھی پاکستان نہ آسکی اور ماں کی وفات کے چند مہینوں کے بعد فروہ کی شادی ہوگئی۔ اب وہ یہی سوچ کے خوش تھی کہ کچھ دن بہن کے ساتھ اچھے گزریں گے۔۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کا سکھ دکھ بانٹیں گی۔
وردہ آئی اور پھر فروہ کو اندازہ ہوا کہ جب انسان کی قسمت خراب ہو تو کوئی اپنا نہیں ہوتا۔ دکھ سکھ بانٹنا تو درکنار وردہ اسے بچوں کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتی تھی۔ اسے بہت بری طرح اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا۔ وہ نماز پڑھتے ہوئے اپنے پروردگار کے سامنے بلک اٹھی۔ “یااللہ!  اگر مرد نامرد ہو تو ہم عورتیں پھر بھی ساری زندگی اس کے ساتھ کاٹ دیتی ہیں۔۔۔۔۔ پھر بھی یہ بےاولادی کا طعنہ ہم عورتوں کو سننے کو ملتا ہے۔ اگر ہم عورتیں بانجھ ہوں تو ہمیں استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا جاتا ہے۔ نہ کوئی گھر نہ کوئی در۔۔۔۔ کوئی تو اولاد دے دیتا چاہے تیسری جنس ہی ہوتی لیکن میری اپنی اولاد تو ہوتی۔ میری ممتا کو تو چین آتا۔ چاہے میرا سابقہ شوہر اس اولاد کو اور مجھے قبول نہ کرتا لیکن میری اپنی پیٹ کی جنی اولاد تو ہوتی۔۔۔۔ جس کو گود میں اٹھانے سے کوئی منع نہ کرتا۔ جسے سینے سے لگانے سے ٹھنڈ پڑ جاتی۔ میرے مولیٰ!  مجھے تو نے اس قابل نہ سمجھا کہ میرے بھی پاؤں کے نیچے جنت ہوتی۔ میں تو ادھوری ہی رہی، نامکمل ۔۔۔۔ جس کے مرنے کے بعد کوئی دعا کیلئے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہے۔”
کچھ دنوں سے وہ کچھ سوچ رہی تھی اسے یاد آیا کہ ماں اپنی زندگی میں ایک یتیم خانے ایس او ایس ویلیج میں زکوٰۃ وغیرہ بھجواتی تھی اور وہاں کے ماحول اور حالات سے کچھ واقفیت بھی تھی۔ ایک دن اس نے اپنا مختصر سامان اٹھایا اور وہاں چلی گئی۔ وہاں کی ڈائریکٹر نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور پانچ بچوں پر مشتمل ایک گھر کی ماں کے طور پر اسے لگا دیا گیا۔ اس گھر میں داخل ہوتے ہی جب اس نے چند ماہ کی بچی کو سینے سے لگایا تو اس کی پیاسی ممتا کو سکون سا آگیا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ اپنی پہلی جنس سے نکل کے چوتھی جنس میں آگئی ہے وہ ماں ہے بس ماں جس کی کوئی جنس نہیں ہوتی۔ اس کیلئے ضروری نہیں ہے کہ وہ شادی  شدہ ہو، اولاد کو جنم دے۔ وہ صرف ماں ہوتی ہے جس کی روح کی پیاس صرف اس کی ممتا بجھاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply