ایملکار کیبرال۔۔۔ ہمایوں احتشام

فیدل کاسترو کہتے ہیں کہ “ایملکار کیبرال افریقہ کے زہین ترین ازہان میں سے ایک تھے۔ کیبرال نا صرف افریقہ بلکہ دنیا بھر کی ردِ استعمار قوتوں کے لئے آئیڈیل کی حیثیت رکھتے تھے۔” کیبرال بیشک اس خراجِ تحسین کے عین مستحق تھے۔

کیبرال 12 ستمبر 1924 کو بافتا، گنی بساو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کیپ وردے جزائر سے تعلق رکھتے تھے، جزائر کیپ وردے اس وقت پرتگیزی نوآبادیات گنی بساو کے زیر انتظام آتے تھے۔ والدین نے پیدائش کے وقت نام ایملکار لوپس دا کوستا کیبرال رکھا، اور بعد میں یہ فقط ایملکار کیبرال کے نام سے مشہور ہوئے۔

کیبرال کیپ وردے جزائر کے ایک جاگیردار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کیپ وردے سے حاصل کی، جبکہ اعلی تعلیم کے لئے لزبن، پرتگال چلے گئے، جہاں سے زرعی انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی۔ جن دنوں لزبن میں مقیم تھے، اس وقت پرتگال پر آمریت کا راج تھا۔ کیبرال کی ابتدائی سیاسی جدوجہد کا آغاز اسی آمریت مخالف سیاست سے ہوا۔

پرتگال میں قیام کے دران گرفتار ہوئے اور سات سال قید کی سزا ملی، جو بعد میں تخفیف کردی گئی اور دو سال ہوگئی۔ کیبرال دو سال قید میں رہے۔ اس کے بعد 1952 میں واپس گنی بساو آگئے اور اپنا زرعی انجینئرنگ کا کیرئیر شروع کیا۔ وطن واپسی پر انھوں نے نوآبادیاتی محکمہ جنگلات اور زرعی سول سروس میں نوکری شروع کردی۔ اپنے ملک گنی بساو اور کیپ وردے جو اس وقت پرتگیزی نوآبادیات تھے، کو گھومنے کا موقعہ سرکاری ملازمت کے دران ملا، اور تبھی ان کو نوآبادیاتی نظام کا عریاں چہرہ اپنی سفاکیت کے ساتھ نظر آیا۔ نوکری کے دران ہی انھوں نے گنی بساو میں لوگوں کو پرتگالی استعمار کے خلاف سیاسی طور پر متحرک کرنا شروع کردیا، جس کو بنیاد بنا کر ان کا تبادلہ لزبن، پرتگال کردیا گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ان کو انگولہ بھیج دیا گیا۔ جہاں انھوں نے اپنے دیرینہ دوست آگستینو نیتو کے ساتھ مل کر زور و شور سے عوامی تحرک پذیری کا آغاز کیا۔ بعد میں ایم پی ایل اے تشکیل دی گئی۔

پرتگال میں سات سالہ قیام نے ایملکار کیبرال پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ اس دور نے ان کو بہت زیادہ حساس اور درد دل رکھنے والا انسان بنا دیا۔ دوسرے افریقی راہنماوں کے برعکس وہ پرتگالی لوگوں سے نفرت نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ انھیں نوآبادیوں کے لوگوں سے متعلق ریاستی نظرِ نگرانی میں گمراہ کئے گئے لوگ سمجھتے تھے۔ کیبرال کے نزدیک برائی کی اصل جڑ پرتگیزی آمریت اور اس کا نوآبادیات میں جبر تھا۔ وہ پرتگیزی سالازاری آمریت کو پرتگیزی استعمار کا ماسٹر مائنڈ سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے انھوں نے لزبن میں قیام کے دران اس آمریت کے خلاف پرتگالی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر جدوجہد کی۔

1956 میں PAIGC تشکیل دی گئی، اس کی تشکیل سے پہلے ایملکار کیبرال نے 1955 میں بنڈونگ کانفرنس میں شرکت کی، جو استعمار مخالف اور تیسری دنیا کے پچھڑے ہوئے ممالک کی کانفرنس تھی۔ اسی کانفرنس کے توسط سے بعد میں غیر وابستہ و غیر جانبدار ممالک کی تنظیم وجود میں آئی۔ PAIGC کا پورا نام افریقی جماعت برائے حریتِ گنی بساو اور کیپ وردے رکھا گیا۔ ایملکار کیبرال افریقہ کی سب سے بڑی مزاحمتی جماعت پیپلز موومنٹ فار لیبریشن آف انگولہ (عوامی تحریک برائے آزادیِ انگولہ) کے بانی راہنماوں میں سے تھے۔ اس جماعت کی تشکیل میں ان کا کردار ڈاکٹر آگستنیو نیتو کے بین بین ہے۔ ڈاکٹر آگستنیو نیتو سے ان کی ملاقات لزبن میں ہوئی اور پھر یہ تعلق انقلابی دوستی میں تبدیل ہوگیا۔ اس وقت تک انگولہ بھی پرتگیزی نوآبادیات تھا۔

ایملکار کیبرال پاولو فیریرے سے خاصے متاثر تھے۔ اسی لئے فیریرے کی تعلیمات کا اثر ان کی جدوجہد کے انداز پر با آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ کیبرال ایک جانب جابر کو سمجھاتے بھی نظر آتے ہیں تو دوسری جانب اپنی قوم کو انسانی سطح پر لانے کی جدوجہد میں مگن بھی نظر آتے ہیں۔ کیبرال بارہا کہتے تھے کہ کسی گورے سے جو افریقیوں کے قتل عام میں ملوث نہیں، ہمارا کوئی جھگڑا نہیں۔ گنی بساو ہر اس شخص کا ہے جو اسے اپنا وطن مانتا ہے اور اس کو غلامی سے آزاد دیکھنا پسند کرتا ہے۔

1959 میں PAIGC نے شہروں سے اپنا کام دیہاتوں میں منتقل کرلیا اور 1963 میں ایملکار کیبرال نے پر امن جدوجہد کو خیر آباد کہتے ہوئے مسلح جدوجہد شروع کردی، جو افریقہ کی تاریخ میں عظیم ترین مسلح جدوجہدوں میں شمار کی جاتی ہے۔ مسلح جدوجہد کے لئے ٹریننگ سنٹر گھانا میں تشکیل دیے گئے، جن کی تخلیق میں کوامے نکرومہ کا قلیدی کردار تھا۔ ان تربیتی مراکز میں سوویت یونین، کیوبا اور گھانا کے عسکری ماہرین نے گنی بساو کے گوریلوں کو عسکری اور مسلح تربیت فراہم کی۔ افریقی جماعت اور پرتگیزی افواج کے تصادم کے دران انھوں نے بہت سا علاقہ پرتگیزی استعمار سے چھین لیا، جس کا صدر ایملکار کیبرال کو بنایا گیا۔ نئے آزاد شدہ خطے میں کیبرال نے کسانوں کو کاشتکاری کی نئی تیکنیکیں سکھائیں۔ جس سے نئے آزاد شدہ خطے کی زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ انھوں نے بازار تشکیل دیے، جن میں نوآبادیاتی انتظامیہ کے اسٹورز سے کم نرخوں پر اشیا دستیاب تھیں۔ ان بازاروں میں بارٹر نظام کے تحت خرید و فروخت ہوتی تھی۔ نئے آزاد شدہ خطے کی تعمیر و ترقی میں سوویت یونین اور سویڈن نے کافی زیادہ مالی اور اخلاقی امداد فراہم کی۔ افریقی جماعت نے نئے آزاد شدہ خطے میں اسپتال قائم کئے، جن کا معیار نوآبادیاتی اسپتالوں سے کہیں زیادہ بلند اور اچھا تھا۔ ان اصلاحات کی بناء پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایملکار کیبرال اور ان کی جماعت کی حامی بن گئی۔ افریقی جماعت گنی بساو اور کیپ وردے کی بلاشرکت غیرے سب سے مضبوط مسلح تنظیم بن کر ابھری۔

1972 میں ایملکار کیبرال عوامی اسمبلی بنانے کے لئے کوشاں تھے کہ 20 جنوری 1973 کو ایک کُو کے دران انوسنسیو کانی اور سو سے زائد سابقہ PAIGC اہلکاروں نے بغاوت کرکے کیبرال کو کوناکری کے مقام پر جان بحق کردیا۔

ان کی وفات کے بعد ان کے سوتیلے بھائی لوئس کیبرال نے ان کا پرچم اٹھایا اور پرتگیزی استعمار کو بدترین شکستوں سے ہم کنار کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

1974 میں پرتگال میں سالا زار آمریت کا انہدام ہوا اور کاری نیشن انقلاب نے سب سمندر پار پرتگیزی مقبوضات اور نوآبادیوں کو آزاد کردیا۔ اس طرح جمہوریہ گنی بساو اور جزائر کیپ وردے تخلیق ہوئی۔

 

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply