’’پاپی‘‘ (ڈاکٹر خالد سہیل اور مرزا یاسین بیگ کا مشترکہ ناول)….فیصل عظیم

یوں تو یہ دنیا تخلیق کار جوڑوں ہی کی مشترکہ کاوش سے آباد ہے مگر بات لفظی افزائشِ نسل کی ہو تو ایسے جوڑوں کی مثال ایسی عام بھی نہیں۔ اور پھر مشترکہ ناول تو ایسی غیرعام کاوشوں میں مزید اقلیت کی حیثیت رکھتا ہے، جیسے ڈاکٹر خالد سہیل اور مرزا یاسین بیگ صاحبان کی یہ ’’پاپی‘‘ تخلیق۔ بلکہ اس ناول ’’پاپی‘‘ کی تو ہیئت بھی عام نہیں۔ شاید اسی لیے حفظِ ماتقدّم کے طور پہ انھوں نے سرورق پر، اس کے نام کے نیچے (ولدیت سے اوپر) ’’خط کہانیاں ۔۔۔ آج کی سچّائیاں‘‘ لکھ دیا ہے تاکہ شک کرنے والے سماج میں اس پر ’’انگلیاں اٹھنے کے‘‘، ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ اور ’’یہ دونوں میں سے کس کا پاپ ہے‘‘ وغیرہ کے امکانات کم سے کم ہوں۔
ڈاکٹر خالد سہیل کی روایت شکنی سے ان کے سبھی چاہنے والے واقف ہیں مگر مَیں ان چاہنے والوں میں مرزا یاسین بیگ صاحب کا نام یوں شامل نہیں کر رہا کہ اس کتاب یعنی ’’پاپی‘‘ کی حد تک، یہ چاہت تک طرفہ نہیں دو طرفہ ہے، واقفیت، محبت اور تخلیقی عمل، تینوں لحاظ سے۔ ’’پاپی‘‘ ایسا ناول ہے جو خطوط بلکہ محبّت ناموں کی شکل میں دو ناول نگاروں نے مل کر لکھا ہے۔ یہ غیر روایتی ہیئت سہی مگر بالکل ناشنیدہ نہیں۔ ایسے تجربے بہادر لوگ کرتے ہیں اور یہ ایک کامیاب تجربہ ہے۔ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو ابتدا میں اس کے ناول ہونے سے انکار کی خواہش ہوئی مگر کہانی آگے بڑھی تو خیال آیا کہ اگر مارکیز کا ’’کرونیکل آف آ ڈیتھ فورٹولڈ‘‘ ناول ہو سکتا ہے تو یہ خط کہانی کیوں نہیں۔ اس کے بعد یہ ناول پڑھنے میں زیادہ لطف آیا جس میں ایک مرد عرفان قمر اور ایک عورت رضوانہ صدیقی کے درمیان خطوط کے تبادلے میں پوری کہانی بُنی گئی ہے۔ مرد کے خطوط ڈاکٹر خالد سہیل نے اور عورت کے خطوط مرزا یاسین بیگ نے لکھے ہیں۔
پیش لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب مرزا یاسین بیگ صاحب کی فکری اولاد ہے۔ چونکہ اس میں عورت کا کردار یاسین بیگ صاحب نے ادا کیا ہے، ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ ماں کی خواہش تھی۔ یعنی ناول کی کہانی کے برعکس، بنیادی خواہش مند یہاں رضوانہ صدّیقی (مرزا صاحب) تھی جس کی آرزو کی تکمیل عرفان قمر (ڈاکٹر صاحب) کے ہاتھوں ہوئی۔ لیکن ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ باقاعدہ تخلیقی صنف کے طور پہ خط نویسی اور اس کو کتابی شکل دینا ڈاکٹر خالد سہیل کی خاص پہچان ہے، سو اس فکری بچّے کی جسمانی ساخت کے لیے جینز اسے شاید ڈاکٹر صاحب کی طرف سے ہی ملی ہو۔ خلاصہ یہ کہ ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ زبردستی کی شادی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی اور بلاشبہ یہ انِھیں دو حضرات کا حصّہ ہے۔
اس سیدھی سی کہانی میں دراصل کئی کہانیاں ہیں۔ عورت کی کہانی جو کئی عورتوں کے حوالے سے بیان ہوئی ہے۔ اس کی نفسیات کے کئی پہلوؤں کو خوردبین سے دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔ مشرقی عورت، مغربی عورت اور مغرب میں بسنے یا نہ بس سکنے والی مشرقی عورت کے متحارب رویّے ہیں۔ رومان کی مختلف شکلیں اور ان کے مختلف معانی سے بحث ہے۔ عورت اور مرد کے لیے رومان کے معانی میں فرق اور ان کے تصوّرات کا بُعد ہے۔ بندشیں، رکاوٹیں، سماجی جبر، فطری جبر اور نسائی فطرت کے مختلف پہلو ہیں۔ مرد کی ہرجائیت یا اس کے بارے میں عام خیال کا رد اور تحلیلِ نفسی ہے۔ شہر آشوب، آگ اور خون کی ہولی کے دور کا خاکہ ہے۔ انسان کی اندرونی اور بیرونی کشمکش اور ازلی تلاش کی سمتیں اور بے سمتی ہے۔ ہجر، ہجرت اور نقل مکانی کی مختلف شکلیں اور ان مہاجروں کے مسائل، مشکلات، اچھائیاں اور برائیاں، وہ سب جو ہمارے اطراف روز ہورہا ہے، اسے خوب خوب سمیٹا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک کامیاب تصنیف ہے جو بہت سی زندگیوں، مزاجوں، ذہنیتوں، خاندانوں اور ان کی جدّوجہد کے ساتھ کامیابیوں اور ناکامیوں کا نقشہ بہت کامیابی سے کھینچتی ہے۔
اس خط کہانی کا مرکزی خیال ’’آج کی سچائیاں‘‘ اگر سرورق پہ نہ بھی لکھا ہو تو بھی صاف ظاہر ہے کہ اس کا سب سے بڑا محرّک یہی ہے۔ یعنی ’’اپنے سچ‘‘ کو صاف لفظوں میں لکھ ڈالنے اور اس کے ذریعے حالات، نظریات اور سیاسی و معاشرتی الجھنوں اور المیوں کو بیان کرنے کی خواہش۔ خطوط میں حالات اور فلسفے کا ذکر کرتے ہوئے بہت کچھ خاصی تفصیل سے لکھا گیا ہے، وہ بھی جس کا فکشن میں بین السطور رہنا بہتر شاید ہوتا ہے، مصلحت کے لیے نہیں، لطافت کے لیے۔ اس کہانی کا کینوس تین جہتی ہے۔ ایک، سیاسی گھٹن اور مشاہدات کو احاطۂ تحریر میں لانا اور کسی حد تک اپنے سیاسی نظریے کا ابلاغ۔ دو، یہ باور کرانا کہ خدا نہیں ہے۔ اور تین، ہیومنزم کا فلسفہ۔ یہاں میں نے ہیومنزم کو دانستہ انسان دوستی نہیں لکھا کہ ’’ازم‘‘ اکیلا نہیں آتا اور انسان دوستی کسی بھی نظریاتی بوجھ کو اٹھانے میں ہانپ سکتی ہے خواہ وہ ہیومنزم ہی کیوں نہ ہو۔ اب یہ تین محرّکات جو بظاہر اس ناول کے نظر آتے ہیں، ان پہ مختلف اطراف سے تعریف اور تنقید، اتفاق اور اختلاف کی گنجائش تو ہے مگر اس سے قطع نظر، میری ناچیز رائے میں فکشن کو کسی خاص نظریے کے پرچار یا اس کی مذمّت کے لیے وقف کرنے سے اس کا جمالیاتی پہلو متاثر ہوتا ہے۔ مصنف کسی کی سوچ کا پابند نہ ہوتا ہے، نہ ہونا چاہیے۔ اور کسی بھی خیال کو کہانی میں سمونا یا مرکزی خیال کی بنیاد اس پر رکھنا لکھاری (یا لکھاریوں) کا استحقاق ہے۔ سو یہاں مقصد موضوع پہ اعتراض نہیں ہے، نہ ہی قاری کا یہ منصب ہے۔ اور پھر کہانی کا پلاٹ یعنی مرکزی کردار رضوانہ کے حالات کی بنیاد بھی پرتشدّد سیاست کا ماحول ہے، تو کہانی بھی انھِیں واقعات کے گرد گھومے گی۔ البتہ اسلوب کی سطح پر جس انداز سے ان واقعات کو بیان کیا گیا ہے، وہ کہیں کہیں سیاسی گورکھ دھندے کی شکار عورت کے بیان سے زیادہ کسی سیاسی تجزیہ کار کا بیان محسوس ہوتا ہے۔ سو، جو کچھ کہانی میں ہے، اس سب کے ہوتے بھی، اور اظہار میں سیاسی اور فلسفیانہ نقطۂ نظر پہ سمجھوتہ کیے بغیر بھی، اگر سیاسی معاملات پہ تجزیے اور تبصرے کے انداز اور فلسفے یا نظریے کی، تبلیغ کی حد تک تفصیل سے گریز کیا جاتا تو ناول کی جمالیاتی گرفت شاید زیادہ مضبوط ہوتی۔
یاسین بیگ صاحب کہ اداکار بھی ہیں، اس ناول میں بھی انھوں نے یہ کام بخوبی کیا ہے۔ رضوانہ بن کر جو خط انھوں نے لکھے ہیں، ان میں جو ادائیں، گریز، نخرا، اور پھر وارفتگی، ملکیت، محبوبہ کا تحکّم اور جزئیات سے رضوانہ کا سلوک ہے، وہ بتاتا ہے کہ انھوں نے عورت کی نفسیات کو بہت اچھی طرح سمجھ کر یہ خط لکھے ہیں۔ یقیناً ناول میں ایسے کئی مقامات آتے ہیں جہاں مرد وہ سب شاید نہ لکھتا جو عورت ہی کا حصّہ ہے۔ انھوں نے کئی باتیں ایک عورت کے نامے کی طرح تفصیل سے بھی لکھی ہیں مگر کہیں کہیں زیادہ تفصیلات سے گریز بھی کیا ہے۔ ایسی تفصیلات عورتوں کے ناموں میں شاید عام ہوتی ہیں، چاہے مرد کو کتنی ہی غیر ضروری کیوں نہ لگیں۔ پھر بھی میں یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان کا کردار میں ڈوب کر لکھنا اس ناول کی کامیابی کا بڑا سبب ہے۔ یاسین صاحب سنجیدہ ڈرامے کے مکالمے لکھیں (اگر اب تک نہ لکھے ہوں) تو یقیناً ان میں بھی وہی فطری برجستگی ہوگی جو کردار کو چاہیے۔ ورنہ آج کل جو ڈرامے ’’بہت زیادہ‘‘ مقبول ہورہے ہیں، ان میں یہی چیز سب سے کم نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر خالد سہیل کے خط بہت غور سے پڑھنے اور دعوتِ فکر دینے والے ہیں اور بڑی عمر میں پختہ سوچ والے مرد کی دلی وارداتوں کو بڑی وارفتگی سے بیان کرتے ہیں۔ وہ مرد جو زندہ دل بھی ہے اور وابستگی کا اپنا تصوّر رکھتا ہے اور عمرِرفتہ کے کچھ نازک مہکتے لمحات کے سحر میں جوانی کی کچی عمر والی محبت کے مزے لینے سے بھی نہیں کتراتا بلکہ زندگی کے مزے کو ہر قید سے آزاد رہ کر محسوس کرسکتا ہے۔ پھر بھی ان خطوط کو پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط ڈاکٹر خالد سہیل نے ہی لکھے ہیں۔ ممکن ہے انھوں نے دانستہ خود کو اس میں شامل رکھا ہو اور پھر جو قاری ان سے ذاتی طور پہ واقف نہ ہو، اسے تو یہ محسوس بھی نہ ہوسکے گا۔ مگر مجھ جیسے نیازمندوں سے ان خطوں میں ڈاکٹر صاحب کے اسلوب اور زبان نے کوئی پردہ نہیں رکھا۔ مجھے توقع تھی بلکہ میری خواہش بھی تھی کہ عرفان قمر کے خطوط کسی عرفان قمر ہی کے خطوط ہوں لیکن شاید مصنف کی شعوری کوشش یا لاشعوری کاوش اس کے برعکس رہی۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے یہ خطوط خود سے باہر آکر، کردار میں ڈھل کر لکھنے کے بجائے کردار کو خود میں ڈھال کر لکھے ہیں یعنی عرفان قمر سے بحیثیت ڈاکٹر خالد سہیل لکھوائے ہیں۔
دو ایک چھوٹی چھوٹی باتیں اور۔ رضوانہ صدیقی نے ایک جگہ لکھا کہ بھائی نے ’’بتایا ہے کہ جلد ہی کوئی اسمارٹ فون آنے والا ہے، جس کے بعد اس کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ سے نجات مل جائے گی۔ فون کے اندر ہی کیمرہ بھی ہوگا‘‘۔ میرے خیال میں یہ جملے اس ناول کا ساتھ نہیں دے رہے۔ اس خط کے شاید 4 سے 6 مہینے میں رضوانہ کی امیگریشن ہوجاتی ہے اور اس نے کینیڈا آکر ایک سال بھی نہیں گزارا ہوتا جب ناول ختم ہوجاتا ہے اور اسی دوران اسمارٹ فون بھی آچکا ہوتا ہے۔ مگر پورے ناول میں اسمارٹ فون، فیس بک اور واٹس ایپ کے عام ہونے کے بعد کی فضا محسوس کی جاسکتی ہے۔ ایسی بہت سے باتیں ہیں جو فیس بک کے دورِ طفلی اور اسمارٹ فون سے پہلے کی معلوم نہیں ہوتیں۔ بہرحال یہ تو ہم آج کہ رہے ہیں، کل کا قاری یہ فرق نہیں جان سکے گا سو، جانے دیجیے۔ رضوانہ ہی نے ایک خط میں چائنیز کھانے، پِیٹزا اور پاستہ کے مشرف بہ پاکستانی ہونے کا ذکر بھی کیا ہے۔ سوچیے تو یہ باتیں تو باہر رہنے والے پاکستانی کیا کرتے ہیں، پاکستان میں رہنے والوں کو تو عموماً اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوتا اور زیادہ پرانی بات نہیں جب وہاں اس بارے میں بتاؤ بھی تو یہ ان دوستوں کے لیے یہ فارسی ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح عرفان قمر نے جو خط نمبر تین اور پانچ میں رضوانہ صدیقی سے یہ بات منوانے پہ اصرار کیا ہے کہ وہ، وہی رضوانہ ہے جس کی عرفان کو تلاش ہے۔ میرے خیال میں یہ مناسب یوں نہیں کہ خط نمبر دو کے آخر میں رضوانہ خود ہی پردہ اٹھا چکی ہے اور خط نمبر چارمیں تو بالکل کھل کر، سامنے آگئی ہے اور پرانے دوست سے مشترکہ ماضی کے حوالے سے سیدھی سیدھی باتیں بھی کررہی ہے۔ اس لیے خط نمبر تین اور پھر پانچ میں رضوانہ صدیقی کی تصدیق چاہنے یا نیم رضا مندی کے قیاس کی گنجائش ہے نہیں۔
آخری بات یہ کہ ناول کا اختتام بہت خوب اور فطری ہے جس پہ دونوں مصنفّین مبارک باد کے مستحق ہیں۔ آخر تک یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ کیا ہونے والا ہے اور یہ اس کہانی کی بڑی خوبی ہے کہ کہانی ختم ہونے کے بعد کتاب کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اور آخری خط کی آخری سطریں تو سب پر بھاری ہیں، کہ پڑھنے والا سوچتا ہی رہ جائے کہ آخر دونوں محبوبوں نے اپنے تعلق اور آخری ملاقات کو بالآخر کس طرح نبھایا ہوگا۔ سوچا تھا کہ کتاب پر میرے تاثرات ایک مختصر فیس بک کمنٹ میں سما جائیں گے مگر پتہ نہیں کس رو میں لکھتا چلا گیا۔ حالانکہ اتنی لمبی تحریریں پڑھنے کا وقت اب لوگوں کے پاس ہوتا نہیں ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل اور مرزا یاسین بیگ صاحبان کو دوبارہ اس کامیاب تجربے پہ مبارک باد اور اس خامہ فرسائی میں جہاں حد سے گزر گیا ہوں، وہاں معذرت۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply