آج جمہوریت کیوں بیمار ہے؟۔۔ظفر اللہ خان

میانمار میں سول ملٹری سمجھوتوں سے عبارت ہائبرڈ سیاسی نظام دھڑام سے گر چکا ہے۔ برطانیہ کے مؤقر جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کی سالانہ اسٹیٹ آف ڈیموکریسی رپورٹ برائے 2020ء نے بھی دنیا بھر میں جمہوریت کو بیمار قرار دیا ہے۔ پہلی بار اس رپورٹ میں دنیا کی مضبوط ترین جمہوریت امریکا اور سب سے بڑی جمہوریت انڈیا کو ’ناقص جمہوریت‘ کے قبیلہ میں شمار کیا گیا ہے۔ 21ویں صدی کے 21ویں سال میں جو تصاویر امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے سامنے آئیں وہ صدیوں علامت اور محاورہ بن کر جمہوری ڈسکورس اور طرزعمل کے زوال کی کہانی سناتی رہیں گی۔ انڈیا میں جمہوریت اور شہریت کے تصورات ہندوتوا کے سامنے عاجز نظر آتے ہیں۔

20ویں صدی کی آخری دہائی میں جب جمہوریت کی تیسری لہر چلی تو لبرل جمہوریت کی جیت کو ’’تاریخ کا معراج‘‘ کہا گیا۔ دیوار برلن گری، مشرقی یورپ کا آئرن کرٹن ٹوٹا، چین کے تھیان آن من اسکوائر میں ٹینکوں کے سامنے کھڑے تنہا مزاحمت کار کی تصویر جرأت کی کہانی بنی، تہذیبوں کے تصادم کی فکری بحث بھی برپا ہوئی، مشرق وسطی میں عرب بہار کی کوشش ہوئی، اس سارے عمل میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو آزادی کی ٹیکنالوجی کہا گیا۔ لیکن پھر ’’نان اسٹیٹ ایکٹر‘‘ آگئے۔ جمہوریت طاقت کے ذریعے مسلط کرنے کی بھی کوشش ہوئی۔ اس سارے سفر میں ریاستیں ایک طرف گلوبلائزیشن کی طرف بڑھیں تو دوسری جانب پاپولزم کی لہر میں اپنے اپنے ملک کو سب سے پہلے رکھنے کی سیاست ہوئی۔ برطانیہ میں بریگزٹ، امریکا میں ٹرمپ ازم، بھارت میں ہندوتوا اس کی مثالیں ہیں۔ انٹرنیٹ ایسی لبریشن ٹیکنالوجی کو وکی لیکس تک لے جانے والے جولین اسانج آج بھی کٹہرے میں ہیں اور ایڈورڈ سنوڈن جان بچاتا پھر رہا ہے اور فیک نیوز کا دور دورا ہے۔ یہ تمام پہلو ہمیں اشارے فراہم کرتے ہیں کہ جمہوریت کو اصل میں ریورس گئیر کس نے لگایا؟خیر جو بھی ہوا کرونا وائرس کے زمانے میں بھی آمرانہ رویوں کو خوب ہوا ملی اور لاک ڈاؤن اور ایمرجنسی کے ہتھیار آزادیوں کو محدود کرنے کے لیے استعمال ہوئے۔ لیکن آزادی انسان کے خمیر میں ہے۔ اسی زمانے میں ہم نے ’’سیاہ فام زندگیوں کی اہمیت‘‘ کی تحریک امریکا میں دیکھی، بھارت میں شہریت کے متانزعہ قوانین پر دھرنا اور اب کسانوں کی تحریک سامنے آئی۔ امریکا میں ٹرمپ کو جمہوری انداز میں نبھایا جا چکا ہے۔ تاہم اب بھی دیکھنا یہ ہے کہ جمہوریت اپنا کھویا ہوا مقام، اعتبار اور اظہار کیسے واپس لیتی ہے۔

دی اکانومسٹ کی جمہوریت کی صحت کے حوالے سے رپورٹ بتاتی ہے کہ اس وقت دنیا کے 165 ممالک اور 2 علاقوں میں سے فقط 23 ممالک ایسے ہیں جنہیں مکمل جمہوریت کہا جاسکتا ہے اور یہ دنیا کی آبادی کا فقط 8 فیصد ہیں، جبکہ 52 ممالک یعنی دنیا کی آبادی کا 41 فیصد ناقص جمہوریت، 35 ممالک ہائبرڈ نظام اور غالب اکثریت یعنی 57 ممالک آمرانہ نظام کے تحت چل رہے ہیں۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے شاید یہ اہم ہو کہ پاکستان کا شمار کہاں ہوتا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان ’’ہائبرڈ نظام‘‘ کے خاندان میں گنا گیا ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ دی اکانومسٹ اپنا انڈیکس پانچ اصولوں یعنی انتخابی عمل اور تکثیریت، حکومت کے کام کرنے کے انداز، سیاسی شمولیت اور سیاسی کلچر، اور شہری آزادیوں کی بنیاد پر وضع کردہ اشاریوں کی بنیاد پر تیار کرتا ہے اور ممالک کی رینکنگ کی جاتی ہے۔

دنیا بھر میں جمہوریت کو لاحق بیماریوں کی تشخصیص میں میانمار میں رونما ہونے والے واقعات بھی اہم مثال ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ زمانہ طالب علمی میں ہم نے تین خواتین کی بے مثال جمہوری جدوجہد دیکھی۔ فلپائن میں کوری زن اکینو کی ’’پیپلز پاور‘‘، برما کی آن سان سوچی کا زبردست آرٹیکل ’’خوف سے آزادی‘‘ اور پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی اور بے مثال جدوجہد۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو اقتدار میں آنے کے بعد جمہوری ممالک کی عالمی انجمن کا تصور بھی دیا تھا۔
کوری زن اکینو اور محترمہ بے نظیر بھٹو اب تاریخ کا حصہ ہیں لیکن 75 سالہ آنگ سان سوچی آج بھی سرگرم عمل ہیں۔ آنگ سان سوچی اپنے ملک میں مقبول ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نومبر 2020ء میں ہونے والے الیکشن جیتے لیکن ’’امن کی نوبل انعام یافتہ‘‘ آنگ سان سوچی نے ایک ایسے نظام کو قبول کیا تھا جس میں میانمار کے دونوں ایوانوں میں وہاں کی مسلح افواج کی باقاعدہ نشستیں ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموشی اور پھر 2019ء میں عالمی عدالت انصاف میں میں ایک ایسے مقدمہ کی وکالت جس میں انسانوں خون کے چھینٹے تھے نے ان کی عالمی ساکھ کو بری طرح متأثر کیا۔ کئی عالمی اداروں نے انہیں ان کی جدوجہد کی بنا پر دیے گئے ایوارڈ تک منسوخ کردیے۔ آنگ سان سوچی کو پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ایک ایوارڈ دیا تھا۔ اس پوری کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ جمہوری اقدار پر خاموشی اختیار کرکے سیاسی سمجھوتوں کا سفر کبھی منزلوں سے ہمکنار نہیں ہوتا۔

اب کیا کیا جائے؟ کیونکہ دنیا میں اچھی بری جمہوریت کے علاوہ جتنے بھی نظام ہیں ان پر جمہوریت سے بڑھ کر تنقید کی جاسکتی ہے۔ لہذا جمہوریت کو مزید جمہوری بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں جمہوریت کی تعلیم و تفہیم کے لیے سوک ایجوکیشن کی ضرورت ہے۔ انتخابی نظاموں میں اصلاحات بھی ضروری ہیں کہ جذباتی شعلہ بیانی اور دولت کی ریل پیل کی بجائے نظریات اور دانشمندانہ صلاحیتوں کی حامل قیادت سامنے آئے۔ جمہوریتوں کو اپنے طرز حکمرانی میں چیک اینڈ بیلنس کا طریق کار بھی بہتر کرنا ہوگا وگرنہ کرپشن اور بدانتظامی کی کہانیاں امیدوں کے چراغ گل کرتی رہیں گی۔ سب سے بڑھ کر عالمی جمہوری سالیڈیریٹی کا نظام اور سپورٹ سسٹم بھی مضبوط کرنا ہوگا۔

برسوں پہلے جب اقوام متحدہ نے 15 ستمبر کو جمہوریت کا عالمی دن قرار دیا تھا تو جمہوریت کو ’’گلوبل کامن‘‘ یعنی تہذیب کی مشترکہ میراث کہا گیاتھا اور یہ بھی اعتراف کیا گیا تھا کہ دنیا میں جمہوریت کا کوئی ایک ماڈل نہیں ہے بلکہ ہر ملک کی تہذیب، ثقلفت اور تاریخی سفر اس میں اپنے اپنے رنگ بھرتی ہے۔ تاہم اس کے چند بنیادی معیار عالمی ہیں اور میری نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہری، ان کی سوچ ان کی اپروچ، ان کی بہتری، خوشحالی، تحفظ، آزادیاں اور امن سب سے زیادہ مقدم ہیں۔ لہذا سارے نظام کی سعی اسی مقصد کا حصول ہو۔ نیز جمہوریت پر حقیقت پسندانہ بات کریں گے تو بات آگے بڑھے گی۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب بات کرنے کی آزادی ہوگی اور بات دوسروں تک پہنچانے کے میکنزم بھی دستیاب ہوں گے۔ وگرنہ فیک نیوز اور سچ کے قحط کے زمانے میں خاموشی کا راج رہے گا اور ریاست کے امور میں عوام کی دلچسپی کم ہوتی چلی جائے گی۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ جمہوریت کو لاحق بیماری کا حل مزید جمہوریت ہے، اسی سے اس کی خامیاں دور ہوں گی، ریاست پر عوام کا کنٹرول بہتر ہوگا اور منتخب حکومتیں عوام کی فلاح کے لیے کام کریں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تجزیات آن لائن

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply