شہر تمنا(1)۔۔شاہین کمال

جیسا کہ ان دنوں متوسط طبقے میں مروجہ دستور تھا، ڈگری یافتہ ہوتے ہی میری شادی طے کر دی گئی۔  80  کی دہائی تھی سو فرمانبرداری اور ادب آداب ابھی تک روایات کا حصہ تھے۔ آفتاب، بڑے ابا کے جگری دوست مشتاق احمد کے چھوٹے صاحبزادے، وہ داؤد  میڈیکل کالج سے نہ صرف سند یافتہ بلکہ پوزیشن ہولڈر بھی تھے۔ بڑے ابا آفتاب کے رکھ رکھاؤ اور اخلاق کے بڑے گرویدہ تھے۔ ابا جان کے لئے بڑے ابا کی رائے بھی حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ بظاہر اس رشتے میں کوئی قباحت بھی نہیں تھی۔ معاشرتی و معاشی طور پر دونوں خاندان ہم پلہ تھے۔ امی جان نے مجھ سے سرسری ذکر کیا اور میری رائے چاہی۔ میں نے خاندان کی تقریبات میں آفتاب کو دیکھا تھا، سنجیدہ سے لئے دیے  رہنے والے چھچھورپن بالکل نہیں تھا۔ لہذا میں نے وہی جواب دیا جس کی توقع ہر لڑکی سے کی جاتی ہے۔ یعنی “جو آپ لوگ مناسب سمجھیے”۔ قصہ مختصر پچاسی کے دسمبر میں شادی انجام پائی۔ حسب استطاعت جس حد تک خوش اسلوبی اور خوبصورتی سے شادی اور ولیمہ ممکن تھا کیا گیا۔ کوئی فضول تام جھام اور وقت کا  زیاں  نہیں تھا۔

آفتاب نے ہسپتال سے پندرہ دن کی چھٹی لی اور ہم دونوں آٹھ دن کے مختصر ہنی مون پر مری روانہ ہو گئے۔ وہ انمول اٹھ دن میری زندگی کی بیش بہا اور خوبصورت ترین یاد ہیں۔ وہ آٹھ دن آفتاب اور مجھے “ہم” بنا گئے۔ پھر کراچی پہنچتے ہی آفتاب اپنے ہسپتال اور میں کھیر پکائی کی رسم کے بعد گھر اور گھر والوں کو جاننے اور سمجھنے میں منہمک ہو گئی۔ میری سسرال وسعت قلب و ذہن کی حامل تھی ۔ پھر امی جان کی نصیحت بھی میرے پلو سے بندھی تھی کہ دونوں آنکھیں کھلی اور زبان بند رکھنی ہے۔ میری سسرال میں جوائنٹ فیملی سسٹم رائج تھا۔ میری دونوں جیٹھانیاں اور ان کے بچے سب اس تین منزلہ مکان میں آسودگی سے رہتے تھے۔ آفتاب چونکہ چھوٹے تھے اس لئے ہم گراؤنڈ فلور پر ابا اور امی کے ساتھ رہتے تھے۔ باورچی خانے سب کے علیحدہ تھے مگر رات کا کھانا سب مل کر نیچے والدین کے ساتھ کھاتے ۔ بچے زیادہ تر نیچے ہی رہتے تھے ویسے بھی ان دنوں نئی  نویلی د لہن سینٹر آف اٹریکشن تھی۔ مجھے اچھا نہیں لگا کہ میرے ہوتے ہوئے امی باورچی خانے میں جائیں سو میں نے مری سے واپس آتے ہی کچن سنبھال لیا۔ کام ہی کتنا تھا، کھانے ہی تو بنانے تھے بس۔ باقی کاموں کے لیے ماسی تھی اور ایک کل وقتی نو عمر ملازم بھی جو بازار سے سودا سلف لاتا اور گھر کی گاڑیاں صاف کرتا۔ اس خاندان میں ایڈجسٹ ہونے میں مجھے کوئی دشواری نہیں ہوئی اور اس کا کریڈٹ میری سسرال خاص کر میرے ساس اور سسر کے سر جاتا ہے۔ شفیق لوگ تھے۔ عزت اور احترام دینے والے۔ وہاں مجھے ہر طرح کا آرام اور آسائش حاصل تھی بس  ذرا آفتاب کی مصروفیت سے گلہ تھا، مگر آفتاب بھی مجبور تھے کہ ان دنوں وہ ہسپتال کے ساتھ ساتھ اپنی کلینک بھی سیٹ کر رہے تھے۔ ہم لوگوں کی رہائش نارتھ ناظم آباد میں تھی اور ان کی کلینک فیڈرل کیپٹل ایریا میں، الاعظم کے پل سے پہلے۔ انہوں نے بڑی لگن سے جدید کلینک بنائی تھی۔ میں پانچ سالوں میں   اوپر تلے دو بچوں باسط اور بسمہ کی ماں بن گئی ۔ زندگی سبک رفتاری سے رواں دواں تھی۔

نوے کی دہائی اپنے ساتھ بہت سارے مسائل لیکر آئی تھی۔ پڑوس میں عشرے سے چلتی افغانستان اور روس کی جنگ کے اثرات اب پاکستان کی معیشت اور معاشرت پر بہت نمایاں تھے۔ افغان پناہ گیر اپنے ساتھ اسلحہ اور نشہ دونوں کی ٹھرک اٹھا لائے تھے۔ نشے کی سہل دستیابی نے جہاں پاکستان کی نئی  نسل کو تباہ کیا وہیں اسلحے کی با افراط ترسیل نے لسانی گروپوں کے تعصب کو مہمیز کیا۔ قصبہ اور علی گڑھ (اورنگی) کے فسادات ابھی یادداشت میں تازہ ہی تھے کے نوے کے عشرے میں کراچی میں سندھی اور مہاجر کی تفریق بڑھتی چلی گئی اور کراچی ایک بار پھر آگ اور خون میں ڈوب گیا۔ انہی  فسادات میں شرپسندوں نے ہماری کلینک کو بھی جلا کر خاکستر کر دیا۔ وہ کلینک جو آفتاب کے خوابوں کی تعبیر اور محنتوں کا ثمر تھا۔ کلینک کیا جلا  کہ آفتاب کا دل ہی پاکستان سے اٹھ گیا۔
جانے کب آفتاب نے امریکہ کا لاٹری ویزہ اپلائی کیا تھا؟ گھر میں کسی کو بھی اس بارے میں علم نہیں تھا، حد یہ کہ میں بھی کچھ نہیں جانتی تھی۔ یہ بم تو اس وقت پھٹا جب امریکہ کا ویزہ آ گیا۔ اس فیصلے سے کوئی بھی خوش نہیں تھا خاص کر ابا اور امی۔ گھر کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے آفتاب گھر بھر کے لاڈلے تھے۔ امی کو تو بہت دھچکہ لگا، بلکہ پورا گھرانہ ہی ششدر تھا۔ میں بھی کالے کوسوں کے سفر کے حق میں نہیں تھی۔ میرا میکہ یہیں تھا پھر بھرا پرا پُرسکون سسرال تھا۔ ایک معیاری اور پُرآسائش زندگی چھوڑ کر پردیس میں در بدر ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ دونوں بھائیوں نے بہت سمجھایا مگر جانے کیا سر سمائی آفتاب کو کہ ان کی سوئی وہیں اٹک گئی۔ میرے سسر بہت جہان دیدہ شخص تھے۔ انہوں نے اس قصے کو ضد اور ٹسل بننے سے پہلے ہی حل کر دیا۔ ابا نے خوش دلی سے آفتاب کو امریکہ شفٹ ہونے کی اجازت دے دی۔ پھر کسی کے بھی اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ بس ایک امی تھیں جن کے آنسو نہ تھمتے تھے اور میں مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی شرمسار رہتی تھی۔

اب سب سے بڑا مسئلہ پیسوں کا تھا کہ ہمارے اکاؤنٹ میں بچت بہت کم تھی اور کلینک کے جلنے کی وجہ سے اس کی قیمت بھی بہت گر گئی تھی۔ اس آڑے وقت میں پھر ابا کام آئے اور انہوں نے اپنی جائیداد تینوں بیٹوں میں مساوی تقسیم کر دی۔ جو قیمت آفتاب کے حصے کی بنی اس رقم کو بڑے اور چھوٹے بھیا نے مل کر ادا کر دیا۔ اس طرح مقروض ہوئے بغیر یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا۔

نیویارک میں آفتاب نے اپنے دوست شمس العابدین سے بات کی اور ان کے مشورے سے رہائش کے لیے جیکسن ہائٹس(jackson heights) کا انتخاب ہوا۔ شمس بھائی بھی اسی علاقے میں رہتے تھے۔ ہمارے امریکہ پہنچنے سے پہلے ہی شمس بھائی ہمارے لیے کرائے کے فلیٹ کا انتظام کر چکے تھے۔ یہ ایک سکھ بھگتی سنگھ کا فلیٹ تھا بلڈنگ کی دوسری منزل پر اور ہمارے نیکسٹ ڈور نیبر بھی یہی بھگتی صاحب تھے۔

بانوے کی آتی بہار میں ہم چاروں land of opportunities کی طرف پرواز کر گئے، بھاری دل اور وسوسے کے ساتھ۔ آنے والے دنوں کا ہراس بھی تھا اور ایک نئی  دنیا کی تسخیر کی خوشی بھی۔ ائرپورٹ پر شمس بھائی استقبال کے لئے موجود تھے۔ وہ اپنے گھر لے گئے۔ شام تک انہیں کی طرف رہے اور عصر کے وقت وہ ہمیں ہمارے نئے ٹھکانے پر پہنچا گئے۔ نیو یارک ایک بالکل نئی اور مختلف دنیا تھی۔ وہاں ایک تیزی محسوس ہوتی تھی، مشینی زندگی جہاں منٹ اور سیکنڈ کا حساب رکھنا پڑتا ہے۔ گویا وقت کے ساتھ مقابلہ تھا۔ کسی ڈرامے میں ایک ڈائیلاگ ہوا کرتا تھا نا! “وقت کم ہے اور مقابلہ سخت”، بالکل عین یہی صورت حال۔ شروع میں مجھے کافی مشکل ہوئی کیونکہ سب کچھ خود کرنا پڑتا تھا، وہاں پاکستان والی عیاشیاں تو تھیں نہیں کہ ہر کام کے لئے نوکر موجود ہو، سو باورچن، دھوبن، ماسی جمعدارنی، مالن اور ڈرائیور سب کچھ خود ہی تھی۔ آل ان ون۔ شروع میں بچوں نے دادا، دادی اور اپنے کزنز کو بہت مس کیا مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ مینج ہوتا چلا گیا۔

پہلے دو سال معاشی طور پر بھی قدرے مشکل رہے کیونکہ اس وقت آفتاب اپنے میڈیکل کے امتحانات کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ پھر جیسے جیسے آفتاب امتحان پاس کرتے گئے حالات بہتر سے اچھے ہوتے چلے گئے۔ آفتاب کی خواہش تھی کہ اب ہم لوگ جیکسن ہائٹس کو خیر باد کہہ  دیں۔ مگر میرا یہاں دل لگ گیا تھا۔ اس جگہ سے ایک انسیت سی ہو گئی تھی۔ یہاں جگہ جگہ ساڑھی اور شلوار قمیص نظر آ جاتی تھی اور پنجابی ملی اردو اور بنگلہ بھی سنائی دے جاتی تھی۔ یہ ایک منی پاکستان یا زیادہ درست یہ ہو گا کہ منی امرت سر تھا۔ جیکسن ہائئٹس کی لال اینٹوں والی بلند و بالا بلڈنگ کا فلیٹ نمبر 207 اب محض ایک فلیٹ نہیں بلکہ میرا گھر بن چکا تھا۔ ابتداء کے کچھ ماہ تو بھگتی سنگھ اور ان کی بیگم دلجیت کور ہم لوگوں سے کچھ دور دور اور اجنبی سے رہے مگر بچوں نے جلد ہی یہ اجنبیت کی دیوار گرا دی۔ بھگتی سنگھ کے ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھے، دونوں شادی شدہ تھے مگر دونوں میں سے کوئی بھی فی الحال خاندان میں اضافے کے حق میں نہیں تھا ۔ فل وقت دونوں جوڑے اپنی پوری توانائی کے ساتھ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پیسہ بنانے کی مشین بنے ہوئے تھے۔ ماسی دلجیت میرے بچوں سے اس قدر محبت کرتیں تھیں کہ انہیں بچوں کا اسکول جانا بھی کھلتا تھا۔ دونوں میاں بیوی کا بس نہیں چلتا تھا کہ اسکول سے واپسی کے بعد بچے بس انہی کے پاس رہیں۔

جیکسن ہائٹس میں ہم لوگ پانچ سال رہے پھر آفتاب کی خواہش اور اصرار پر کوئینز منتقل ہوگئے۔ اس بیچ ہم لوگ دو چکر پاکستان کے لگا چکے تھے اور ایک دفعہ چھوٹے بھیا ابا اور امی کو لیکر تین ہفتوں کے لئے امریکہ آئے۔ اس وقت ہم لوگ کوئینز میں اپنے گھر شفٹ ہو چکے تھے۔ بہت عرصے بعد میرے گھر میرا کوئی اپنا آیا تھا میرے تو پاؤں ہی زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ بچے بھی دادا، دادی اور چچا کی کمپنی انجوائے کر رہے تھے۔ میں امی کو ماسی دلجیت سے بھی ملانے لے گئی  تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

زندگی بڑی مکمل اور خوبصورت تھی۔ آفتاب بہت خوش تھے کہ یہاں ذہانت اور محنت کی قدر ہے۔ پاکستان کی طرح گدھے گھوڑے سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکتے۔ آفتاب اپنے ہسپتال کے سب سے زیادہ مشہور اور مصروف ڈاکٹر تھے۔ سال میں ایک مہینے کی چھٹی پر ہم لوگ گھومنے پھرنے نکل جاتے تھے۔ ہم دونوں فیملی میں اضافے کے حق میں قطعی نہیں تھے۔ مگر انہونی ہو گئی ۔ گیارہ سال بعد میں پھر ماں بننے والی تھی۔ حیرانی زیادہ تھی پریشانی کم۔ بلکہ جو دل کی کہوں تو میں واقعی خوش تھی کہ اب بسمہ اور باسط گیارہ اور تیرہ سال کے ہو چکے تھے ان کی اپنی مصروفیات تھیں اور وہ دونوں مجھ پر زیادہ انحصار نہیں کرتے تھے۔ پریگننسی کی خبر نے مجھ میں ایک نئی  امنگ اور توانائی بھر دی تھی۔ گو آفتاب مذاق بنا رہے تھے کہ یہ تو بڑھاپے کی اولاد ہو گئی ۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، پریگننسی مشکل ضرور ہوتی مگر میں بہت بہت خوش تھی۔ امی کو خبر سنائی تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں اور ڈلیوری سے پہلے نیویارک پہنچنے کا وعدہ کر لیا۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply