پانی (4) ۔ صاف پانی/وہاراامباکر

شہروں میں رہنے والوں کے لئے صاف پانی ایک ایسی شے ہے جس پر ان کا بہت ہی زیادہ انحصار تو ہے لیکن اس کا ہونا کسی کے ذہن میں بھی نہیں آتا۔ دنیا کے بڑے شہروں میں لوگ اپنے کیبل ٹی وی اور موبائل فون کے ماہانہ بل کے لئے جتنی ادائیگی کرتے ہیں، اس کا چھوٹا حصہ پانی کے لئے۔
دنیا میں اسی فیصد آبادی پانی قدرتی طریقے سے نہیں بلکہ کسی امپروومنٹ کے ذریعے حاصل کرتی ہے۔ لیکن عالمی اوسط اس کے درمیان فرق چھپا جاتی ہے۔ کچھ ممالک، جیسا کہ جاپان، کینیڈا یا اسٹونیا، میں سو فیصد شہریوں کو صاف پانی تک رسائی ہے۔ جبکہ کئی دوسرے ممالک میں نصف سے بھی کم۔ اس حوالے سے بدترین ممالک میں ایتھیوپیا، صومالیہ، افغانستان، موزمبیق، پاپوا نیو گنی اور ایکویٹرل گینیا آتے ہیں۔ لیکن یہ شماریات بھی سب سے بڑا فرق چھپا جاتے ہیں، جو شہری اور دیہی علاقوں کے بیچ کا ہے۔ ایتھیوپیا کے شہری علاقوں میں اسی فیصد کے پاس پانی پہنچتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں دس فیصد کے پاس۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنجان آباد شہری آبادی انسانوں کے رہنے کا ماحول دوست طریقہ بھی ہے اور اس طرح قدرتی وسائل کو لوگوں تک پہنچانا ایفیشنٹ ہو جاتا ہے۔ گنجان آبادیوں میں پانی اور سیوریج کے پائپ بچھانا سستا ہے۔
دنیا کے بہت سے علاقوں میں سیوریج سسٹم کا ہونا ایک لگژری ہے۔ چالیس فیصد کے پاس ٹوائلٹ کی سہولت نہیں۔ اور اس وجہ سے پانی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں سے مرنے والوں کی تعداد انسانیت کا بڑا قاتل ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے جیمی بارٹرام لکھتے ہیں۔
“نکاسی آب اور پانی کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے متاثر ہونے والوں کی تعداد جنگوں اور دہشت کی کارروائیوں سے متاثر ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہیں لیکن یہ مسائل عوام اور سیاست میں ویسی توجہ حاصل نہیں کرتے۔ کیوں؟ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ اس تحریر جیسے آرٹیکل پڑھتے ہیں، ان کے لئے یہ سوچنا بھی ناقابلِ تصور ہے کہ روز لوگ کھیتوں میں، بالٹیوں میں، پبلک مقامات پر اور پلاسٹک بیگ میں رفع حاجت کرتے ہیں جیسا کہ دنیا کی اڑھائی ارب آبادی کر رہی ہے۔ یا پھر وہ ان ایک ارب لوگوں کی زندگی کا تصور نہیں کر پاتے جن کے پاس گھر کے قریب کوئی قابلِ اعتبار کنواں یا چشمہ تک نہیں”۔
اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق محفوظ اور صاف پانی تک ہر ایک کی رسائی تیس ارب ڈالر سالانہ کا خرچ ہے۔ لیکن غریب ترین ممالک میں پانی صاف کرنے کے پلانٹ اور پائپوں کا نیٹورک بنانا انتہائی مہنگا ہے۔ اور باہر سے آنے والی امداد عام طور پر اشرافیہ کے شہروں سے باہر نہیں جاتی۔ چھوٹے پیمانے پر پانی صاف کرنے کے مائیکروپراجیکٹ لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کرتے۔ ایک وقت میں ایک ارب ڈالر کا پراجیکٹ کرنا آسان ہے لیکن دس لاکھ جگہوں پر ایک ہزار ڈالر کے پراجیکٹ کرنا نہیں۔
غریب علاقوں تک صاف پانی کی رسائی ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کا کوئی اچھا حل کسی کے پاس نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کی آبادی میں اگلے چالیس سال میں پچاس فیصد مزید اضافہ ہو جانے کی توقع ہے۔ اور زیادہ اضافہ ترقی پذیر ممالک میں ہو گا اور زیادہ ان جگہوں پر ہو گا جہاں پانی کی پہلے ہی قلت ہے۔ اور بڑھتی معیشتوں کا یہ مطلب ہے کہ لوگ امیر تر ہو رہے ہیں۔ زیادہ گوشت کھائیں گے اور اس کے لئے خوراک کی فی کس پیداوار میں بھی مزید اضافہ ہو گا۔ یعنی اگلے چالیس سال میں زرعی پیداوار کو دگنا کرنا ہو گا۔ زیادہ صنعتیں اور اربوں نئی رہائش گاہیں۔۔۔۔ ان کے لئے میٹھا پانی تلاش کرنا اور اس کو صاف رکھنا تا کہ یہ ہمارے گُردوں اور ماحول کے درمیان ناختم ہونے والے چکروں میں پھنسا رہے ۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اس صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply