• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • طالبان ؛ یہاں پیو تو حرام وہاں پیو تو حلال۔۔خالد امین میانی

طالبان ؛ یہاں پیو تو حرام وہاں پیو تو حلال۔۔خالد امین میانی

یہ بات  ہر شک سے بالا تر ہے اور روزِ  روشن کی طرح عیاں ہے کہ طالبان سامراجی استحصالی و استعماری ٹول  ہے۔ یہ ریکارڈ کا حصہ ہے اور کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ طالبان کو نوے کی دہائی میں کس نے بنایا ، کس نے کابل پر مسلط کیا ، نو گیارہ کا بہانہ بناکر دوبارہ اسی کمپنی جس نے اس سامراجی ٹول کو مینوفیکچر کیا تھا دوبارہ گرادیا اور افغانستان میں ایک نہ  رکنے والی خونی جنگ شروع ہوگئی ۔ جس میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ۔ گھر ،   بازار  تباہ ہوگئے ۔ پورے  کے پورے شہر ملیامیٹ ہوگئے ۔

اس بات کو سمجھنے میں بھی کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ 2014  سے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی ۔کمپنی اور اسکے حلیفوں Allies نے واشنگٹن اور اپنے اپنے مقامی درالخلافہ سے اور طالبان کے سربراہان قطر میں کمپنی کی طرف سے عنایت شدہ luxurious دفتر سے اس خونی کھیل کا لائیو تماشا  دیکھ کر مزے لوٹا ۔ یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ2014  سے2021 کے  درمیانی ماہ تک کی  اس طویل جنگ میں طالبان بڑے اور اہم شہر تو دور کی بات چند پہاڑی علاقہ جات کے علاوہ کسی بھی آبادی ضلع پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ پھر اچانک کونسا الہ  دین کا چراغ یا سلیمانی انگوٹھی ہاتھ لگ گئی کہ ایک ماہ میں اور خاص طور پر ایک ہفتے میں انہوں نے سینکڑوں اضلاع پر قبضہ کیا اور پلک جھپکتے دارالحکومت کابل اور صدارتی ہاؤس   پر قبضہ کرلیا ۔ بے شک اس میں عقل والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں ۔

ایک اور دماغ چکرانے والی حقیقت  جو  طالبان کے قبضے اور انکے نارملائیزیشن میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور جس کا یہاں ذکر نہ  کرنا طالبان کی اس کرشماتی پیش رفت کے ساتھ نا انصافی ہوگی ۔ وہ یہ اس نئے منظر میں کمپنی اور اسکے حلیفوں کی طرف سے طالبان کو اچھے القابات میں پکارنا ، ان کو افغانستان کی عوام کا ایک نمائندہ گروہ کے طور پر پیش کرنا۔ یہاں تک کہ صدر بائڈن اس پراجیکٹ میں پیش پیش تھا ۔ بی بی سی ، وائس آف امریکہ ، سی این این سمیت بہت اہم بین الاقوامی اور مقامی خبر رساں اداروں نے طالبان کو نارملائز کرنا اور انکی افسانوی و معجزاتی حقیقت کو گلیمرائز کرنا اپنا مشن بنا لیا ۔ یاد رکھیے یہی ادارے ماضی میں طالبان کو لفظ دہشت گرد اور تخریب کار سے پکارتے تھے اور امریکہ کا طالبان پر ہر حملے کو  ” دہشتگردوں کے خلاف بڑی کامیابی! گزشتہ رات امریکہ نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنالیا جس کے نتیجے میں کئی بڑے دہشتگرد ہلاک اور متعدد زخمی”کی  ہیڈ لائنز کے ساتھ خبر چھپاتے تھے۔ وہ اب انہیں دہشت گرد کی بجائے ہیرو اور مقامی نمائندہ گروہ کے طور پر دکھانے لگے ۔

پچھلے چند ماہ میں تو لگتا تھا کہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ عالمی خبر رساں ادارے نہیں بلکہ طالبان کے ترجمان ادارے ہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ یہی وہ وقت تھا جب افغانستان سے اور پاکستان کے پشتون علاقوں سے فیسبک اور ٹویٹر پر unfollowBBC# ، #unfollowVOA ، اور BBCandVOAbehindterrorists# کے ہیش ٹیگز سے زبردست کمپین چلا اور لاکھوں لوگوں نے بی بی سی اور وائس آف امریکہ کو ان فالو کیا ۔

اب بات کرتے ہیں پاکستانی عوام کا طالبان اور انکی قابض حکومت کی حمایت کرنا اور کابل پر انکے کے قبضے پر جشن منانا ۔ کیا یہ اخلاقی طور پر جائز ہے یا نہیں؟ ویسے تو ہر کسی کا حق ہے کہ وہ اپنی عقل و فہم کے مطابق جسے چاہے آئیڈیل بنائے اور سپورٹ کرے۔ آئیں  یہاں اس موضوع پر خالی الذہن ہوکر ایک relative تبصرہ کرتے ہیں ۔ کچھ وقت کیلئے مان لیتے ہیں کہ سامراج کی طرف سے طالبان کی بنیاد ، سپورٹ اور اقتدار پر قابض کروانا جیسے سارے الزامات غلط ہیں ۔ مگر بلآ خر اس بات کی نفی کرنا ممکن نہیں کہ طالبان بندوق کے  زور پر قابض مسلح جتھہ ہے ۔ طالبان کو جتنا بھی گلیمرائز کیا جائے ، وہ جتنی بھی کوشش کرے کہ خود کو نارملائز کرنے واسطے ظاہری طور پر اپنے پُرتشدد نظریات سے منحرف ہو جائیں ۔ اس سب کے باوجود وہ ایک قابض مسلح جتھہ ہے۔ کیا ایسا متشدد اور راسخ العقیدہ مسلح جتھے  کو  کسی سماج پر قابض ہونا جائز ہوسکتا ہے جو بندوق کی زور پہ قابض ہونا تو جانتی ہے مگر بین الاقوامی سیاست ، بین الاقوامی امور ، خطے میں رواں پراکسیز اور حالات ، ڈپلومیسی ، سائینس اور ٹیکنالوجی کے بارے کچھ نہیں پتہ ۔ جو اکیسویں صدی کی جدید دنیا کے مقابلے ریاست کا نظم و نسق چلانا نہیں جانتا۔ جو قابص ہوکر اس سماج کے سینکڑوں سالوں پر محیط اصلی و تاریخی شناخت ، نام ، قومی جھنڈا ، قومی شناختی علامات اور باقی تمام قومی اساس جس کے ساتھ اس سماج کی رومانیت ہوتی ہے اور انکے جمالیاتی احساسات ہر فرد کے خون سرائیت کر چکی ہوتی ہے ، کو پاوں تلے روندے اور انکی جگہ اپنے ذاتی متبادل رائج کریں ۔

اگر جواب  ہاں ہے تو آئیں ذراہم اپنے ملک پاکستان پر نظر دوڑاتے ہیں تاکہ relative/comparative analysis کرکے آسانی سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہمارے ملک پاکستان میں کئی اسلامی مسلح جتھے موجود ہیں کچھ کو کالعدم قرار دیا گیا ہے اور کچھ غیر کالعدم ۔ جیسا کہ جیش محمد ، سپاہ صحابہ ، البدر ، الشمس ، انصار المجاہدین ، تحریک طالبان پاکستان ، لشکر جھنگوی ، لشکر طیبہ اور تحریک نفاذ شریعت وغیرہ ۔ میرے معزز پاکستانی بھائیو ! کیا آپ یہ پسند کرو گے کہ ان مسلح جھتوں میں سے کوئی جتھہ حکومت پاکستان و افواج پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کریں اور پنڈی اسلام آباد سمیت پورے ملک پر قابض ہوجائیں اور نام نہاد شریعت لاگو کرنے کی ٹھان لیں۔ یا پھر آپ چاہیں گے کہ دوسری مذہبی سیاسی جماعتیں جیسا کہ جمیعت علما  اسلام ، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک والے جن کے لاکھوں فین فالورز ہیں پاکستان میں ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور خدا نخواستہ ریاست کو شکست دینے پر سارے ادارے  تحلیل کریں پارلیمنٹ اور جی ایچ کیو پر قبضہ کریں ۔ پاکستان کا پرچم اتار دیں اسکی جگہ اپنی متعلقہ شرعی پرچم لہرا دیں ، پاکستان کا ترانہ سمیت ساری شناختی علامات کو منسوخ کرکے اپنے متبادل نصب کریں ۔ کیا آپ مولانا فضل الرحمٰن ، مولانا مسعود اظہر ، حافظ سعید ، لیاقت بلوچ ، لالا سراج الحق ، فرزند مولانا سمیع الحق مولانا حامد الحق ، فرزند خادم رضوی سعد رضوی ، مفتی نور ولی وغیرہ کو پاکستان کا سپریم لیڈر یا امیر المومنین تسلیم کرنے کو تیار ہیں؟

اگر  آپ کا جواب ہاں ہے ۔ پھر تو ٹھیک آپ کے ساتھ میں بھی طالبان کے  افغانستان پر قبضے  کو ویلکم کرتا ہوں تاکہ پورے خطہ میں بیک وقت شریعت آجائے اور اسلام کا بول بالا ہو جائے ۔ اگر آپ ایسا نہیں اور آپ کو یہ سب صرف پڑوسیوں کیلئے چاہتے ہیں تو یہ صریح منافقت ہے ، ظلم ہے ، بے حسی ہے اور نفاق ہے کیونکہ ایک تو اسلام کسی بھی سرحد سے بالاتر ہوکر پوری دنیا کیلئے ایک ہے دوسرا حدیث پاک کا مفہوم کہ مسلمان وہ ہو جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی دوسرے بھائی کیلئے پسند کرتا ہے ۔ دوسری حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر جسم کے  کسی ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم بے قرار رہتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا طالبان اگر حکومت کرنا چاہتے بھی ہیں تو ان کے جائز ہونے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اسلحہ پھینک دیں ، اپنا مسلح ملیشا تحلیل کردیں یا ریاست کے حوالے کریں اور عوامی رائے کو مقدم سمجھتے ہوئے جمہوریت اور ووٹ کو تسلیم کریں خود کو ایک non state actors مسلح جتھہ کی بجائے ایک غیر مسلح پُر امن سیاسی جماعت کے طور پر ریاست کے الیکشن کمیشن کے ساتھ خود کو رجسٹر کریں اور انتخابات کو اقتدار تک پہنچنے کا واحد ذریعہ تسلیم کریں۔ قومی پرچم ، قومی ترانہ ، قومی شناختی علامات اور باقی تمام تر قومی اساس کو بدلنے سے گریز کریں ۔ اگر نہیں تو وہ ناجائز ہیں ، جنگجوں ہیں ، ناقابل قبول ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply