داغ تو ۔۔ربیعہ سلیم مرزا

ماں بارہویں سال ہی ٹوکنے لگی تھی مگر راشدہ کو سمجھ دو سال بعد آئی ۔۔۔جب شفیع دکاندار کی نظر چہرے کی بجائے دو ہاتھ نیچے رکنے لگی تھی۔۔۔شفیع کی دوکان پہ ماہانہ کھاتہ چلتا تھا ۔۔مجبوری تھی دن میں ایک دوبار جانا پڑتا،
لیکن جب وہ گھورتا تو راشدہ کا سانس جیسےسینے میں ہی ٹھہرجاتا ۔سرسراہٹ کا احساس ہونےلگتا ۔کمر آپ ہی آپ خم کھا جاتی۔اس کی کمینی نظروں کے حصار میں دوپٹہ وہم بن جاتا ۔
صرف ایک وہ ہی نہیں تھا، شیخ سبزی والا، ملک دودھی ۔۔۔سبھی کے سامنے ۔۔۔
راہ چلتے۔۔۔سر خود بخود جھک جاتا، راستے میں کھڑے ہر نظر آنے والےکتے کو نظر انداز کر دیتی۔۔ماں معذور نہ ہوتی تو راشدہ اتنی مجبور نہ ہوتی ۔۔۔۔
۔قدرت بھی ایسی فیاض تھی کہ جوبن، جوانی سے پہلے اتر آیا تھا ۔ایسا سچ تھا جو اب جھکے بنا دکھائی دینے لگا تھا ،جسے چھپانے کیلئے وہ مزید جھکتی چلی گئی۔۔۔
گلی میں سہج سہج قدم رکھتی راشدہ کا دل ایویں ہی چور بنا رہتا ۔۔ چلتے ہوئے بانہیں لاشعوری طور پہ آگے بڑھ کر دھڑکتے دل کو دبائے رکھتیں ۔۔۔کہ دھڑکن دکھائی دینے لگتی تھی ۔ دوپٹہ سنورنے کی بجائےلپٹنےلگتا۔
شفیع سیانی عمر کا، بال بچوں والا تھا ۔ مگر تھا کسی حرامدے کی اولاد۔
راشدہ اکلوتی تھی ۔ابا کام پہ اور ماں سارا دن بیماری لئے چارپائی پہ ۔ابا کو کبھی نہ بتایا کہ شفیع دکاندار مجھے تنگ کرتا ہے۔
سوچ کر ڈر جاتی۔۔،ابا ماں کی دوائیاں بھگتے گا کہ لڑائیاں ؟۔ماں کی بھی بس زبان چلتی تھی سو سارا زور اسی پہ نکلتا ۔ چکی کے دوپاٹوں کے بیچ پستے راشدہ کے قد کے ساتھ “کُب”بھی بڑھنے لگا تھا۔خوش شکل تھی لیکن اس کی شکل کو دیکھ کر کوئی خوش نہیں تھا ۔ابا کے ساتھ سکول جاتی تو بھی ہر نگاہ چہرے سے نیچے ہی ٹھہر جاتی ۔۔۔ اپنے آپ سے زیادہ خوف تب آتا جب دور نزدیک سے آیا کوئی چاچا ماما بھی بھانجی میں مامتا ڈھونڈنے لگتا۔ راشدہ کا دوپٹہ اپنی ہی چار دیواری میں چادر بن جاتا ۔ ابا تو اسے نظر بھر دیکھتا بھی نہیں تھا، گھر میں ہوتے ہوئے ابے۔۔۔کو دس بار نگاہیں جھکا کر راشدہ کو نظر انداز کرنا پڑتا، ۔ لیکن باپ کی عمر سے بڑے شفیع کا چول پنا نہیں گیا ۔۔۔اتوار کا دن تھا کپڑے دھوتے اچانک سرف کم پڑ گیا۔ماں کو لالچ تھا کہ آج ہی سارے دھل جائیں ۔کل اس نے آدھا دن تو اسکول میں رہنا ہے ۔لہذا بار بار کہے جارہی تھی “جا سرف پھڑ لیا ،اور کپڑ خانہ نبیڑ ”
تین بار گلی میں جھانک کر دیکھا ۔
حوالداروں کے تھڑے پہ برف والے کا لڑکا مسلسل دو لڑکوں کے ساتھ موبائل پہ کچھ دیکھے جا رہا تھا ۔اس نے کئی بار بلاوجہ ٹکرانے، چھونے کی کوشش کی تھی ۔
ادھر ماں کمرے میں مسلسل بڑبڑائے جارہی تھی ۔
اس نے گلی میں جھانکا تو دور دکان پہ شفیع اکیلا نظر آیا ۔بھری دوپہر میں سبزی والا بھی شاید دکان میں مرا پڑا تھا ۔ماں کی چخ چخ سے تنگ آکر لڑکوں کو نظر انداز کرکے
ہمت کی، اور جلدی میں چادر نما تمبو لپیٹنے کی بجائے دوپٹہ لپیٹتے ہوئے باہر آ گئی ۔لیکن لڑکوں کے قریب پہنچتے ہی احساس ہوگیا۔۔۔، انہوں نے اسے آتے دیکھ لیا تھا ۔راشدہ سمجھ گئی کہ تینوں نے ایک لمحے میں اپنی اپنی بکواس سوچ لی ہے ۔اب اسے تیزی سے گذرنا ہوگا ۔پھر بھی سائیں سائیں کرتے کانوں سےاس نے ان کی ساری بکواس سنی ۔۔۔
تیز قدموں سےچلتےدکان تک پہنچتے پہنچتے اس کی سانس پھول گئی ۔۔۔
سانسوں کا جوار بھاٹا دیکھ کر شفیع کی سانس رک گئی ۔
“بیس بیس والے تین سرف،” اس نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا ۔
سرف کے ساشے کاؤنٹر کے اوپر جھنڈیوں کی طرح لٹک رہے تھے ۔۔۔۔
“خود ہی اتار لو۔۔شفیع نے بظاہر لاپرواہی سے کہا ۔
راشدہ دونوں ہاتھ اٹھا کے تین ساشے علیحدہ کرنے ہی لگی تھی تو اسے کی چیخ نکلتے رہ گئی ۔شفیع نے اس بری طرح دبایا جیسے بوٹی نوچ لی ہو ۔
راشدہ کا اٹھا ہوا دایاں ہاتھ پوری قوت سے شفیع کے منہ پہ پڑا ۔
اٹھتی جوانی کی چپیڑ ،ڈھلتی عمر کہاں سہہ پاتی ہے ۔
شفیع سائیڈ کاؤنٹر سمیت گلی میں جاگرا ۔
راشدہ ایک ثانئے کو اپنی ہی جرات پہ سن ہوکر رہ گئی ۔مگر اگلے لمحے چار برس کی ساری پیڑیں جاگ اٹھیں ۔
وہ دکان سے باہر نکل آئی ۔زمین سے اٹھتے شفیع کے منہ پہ دوتین بار پاؤں مارا ۔گلی سے گذرتے دو آدمی رک گئے ۔ انہیں معاملہ سمجھ نہیں آیا تو وہ لاتعلق سے کھڑے رہے ۔
کاؤنٹر اور شفیع کے گرنے کی آواز سے تینوں مشٹنڈے دوڑے آئے ۔لیکن بیچ میں نہیں آئے  راشدہ نے صرف آنکھ اٹھا کر دیکھا ۔ان کی چہروں پہ حرامزدگی کی جگہ سراسیمگی تھی۔راشدہ کے پاؤں تلے شفیع پھڑک رہا تھا ۔وہ چیخے چلائے بغیر منہ پہ پاؤں رکھے تنی کھڑی تھی ۔اس کا کب نکل چکا تھا۔دوپٹہ کہیں کا کہیں تھا ۔مگر اب سب کی نظریں پاؤں تلے پڑے شفیع پہ تھیں ۔
سبزی والا بھی نکل آیا “راشدہ پتر جانے دے میری دھی “دھی کے لفظ پہ راشدہ نے اسے بھی گھور کر دیکھا مگر کہا کچھ نہیں ۔
بس گردن اٹھا کر سب کو دیکھا۔شفیع کی بیوی اور حوالدارنی دارنی گھروں سے اکھٹی نکلیں ۔ راشدہ نے حوالدارنی کو دیکھتے ہی پاؤں ہٹالیا۔لیکن حوالدارنی جوتی اتار چکی تھی ۔آتے پہ اٹھتے ہوئے شفیع کےمنہ پہ دے ماری “راشدہ توں گھر جا ”
شفیع کی بیوی کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے؟
راشدہ پورے اعتماد سے گھر کی طرف چل دی ۔ عورتیں گھروں سے نکل کر دکان کی طرف جارہی تھیں ۔سرف کے دس بارہ ساشے بے خیالی میں راشدہ کے باٰئیں ہاتھ میں ساتھ آگئے ۔۔
” سرف لے آئی ہو “ماں نے دروازہ کھلنے کی آواز سن کر پوچھا ۔
“ہاں ماں سرف لے آئی ہوں ۔”راشدہ نے واشنگ مشین کا سوئچ لگاتے ہوئے کہا
“داغ اچھے ہوں یا برے دھونے عورتوں کو ہی پڑتے ہیں “۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply