نیا سال مبارک ہو۔۔عارف خٹک

رات کو گھڑی کی سوئیوں نے بارہ کے ہندسے پر جب ایک دوسرے کو گلے لگا کر زور سے چُوما۔تومیں بھی اُن پر سے نظریں ہٹا کر اُٹھا،اور اپنے پہلُو میں لیٹے وجُود کو آہستہ سے کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ اس نے نیند سے بھری آنکھیں کھول دیں۔میں نے فوراً کیک آگے کردیا،جس پر ننھی ننھی  کینڈلز لو دے  رہی تھیں۔اور اُن کی روشنی میں اُس کی ہیزل آئیز کا رنگ اور بھی مدھوش کئے جارہا تھا۔اُس نے دھیمی آواز میں پوچھا،یہ سب کیا ہے؟۔ میں محبت سے چُور لہجے میں ہنستے ہوئے بولا۔

نیا سال مبارک ہو۔
اُس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ کہنے لگی،کہ یہ چونچلے اب آپ کےساتھ اچھے نہیں لگتے۔ میرے دل پر جیسے گھونسا سا لگا،کہ میں نے کتنے پیار سے “Hobnob” سے نئے سال کا کیک بنوایا۔ اُس کیلئے سرخ پُھول لے کر آیا۔ اور آج اس موقع پر وہ میرے ساتھ نئے سال کی خوشیوں میں شریک نہیں ہوپارہی۔ میں نے آہستہ سے اپنا سر ہلایا خود ہی پُھونک مار کر موم بتیاں بُجھا دیں ۔ اور خود کو وش کرتے ہوئے زیرِلب بڑبڑایا،سال مبارک ہو۔ کیک لے جا کر واپس فریج میں رکھ دیا۔اور بوجھل قدموں سے واپس آکر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ وہ بدستور مُنہ دوسری طرف کئے کروٹ لےکر لیٹی ہوئی تھی۔ میں بوجھل دل سے سوچ رہا تھا کہ کتنی ناشکری عورت ہے۔ کم از کم آج کے دن تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔سوچتے سوچتے   میرا دماغ گھومنے لگا۔ توہین کا ایک احساس میری  رگ و پے میں سرائیت کرگیا۔ اور اگلے ہی لمحے میرا پورا وجود سنسنا اُٹھا۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھا۔ اور اس کے بازو پر اپنے پنجے گاڑ دئیے۔ وہ ہراساں ہوکر میری طرف دیکھنے لگی۔ میری آنکھوں سے گویا چنگاریاں سی نکل رہی تھیں۔ میں نے سرد لہجے میں اُس کو مخاطب کیا،کہ اگر آپ میرے ساتھ خوش نہیں ہو تو بلاشُبہ ہم اپنے راستے الگ کرسکتے ہیں۔ اُس کے سیب جیسے سُرخ گالوں پر آنسو بہنے لگے۔ میرا غصہ تھا،کہ کم ہی نہیں ہورہا تھا۔ میں نے پھر اُسے مُخاطب کیا۔ کہ مُجھے لگ رہا ہے کہ آپ کو میری قربت سے کوفت اور بیزاری محسوس ہونے لگی ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں آپ کی شکل پر کبھی تھوکوں گا بھی نہیں۔ وہ سر جُھکا کر مجھے سُن رہی تھی۔ مگر اس کی خاموشی میرے غصے کو مزید بڑھاوا دے رہی تھی۔ بالآخر میری مردانگی جواب دے گئی۔اور چٹاخ سے میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ جڑ دیا۔ وہ بستر پر گر گئی۔پھر تو مُجھ پر جیسے ایک جنون سا طاری ہونے لگا۔اور اس کے مختصر کپڑے پاگلوں کی طرح پھاڑتا چلا گیا۔ وہ کسمسا رہی تھی۔ مگر آج مجھے اس پر کوئی رحم نہیں آرہا تھا۔ میں نے اس کے جسم پر زور سے کاٹنا شروع کردیا۔ اور بالآخر اسے زیر کرلیا۔ مجھے نہیں معلوم میں کتنا وقت بیت گیا۔ مگر دسمبر کی شدید سردی میں میرا جسم پسینے سے شرابور ہوگیا۔ بالآخر ہانپتے ہوئے میں اُس کے برہنہ  وجود پر جیسے ڈھے سا گیا۔ وہ اپنے ہونٹ میرے کانوں کے قریب لاکر بولی “جانو نیا سال مُبارک ہو۔ مُجھے کیک نہیں آپ کا یہی وحشی پن چاہیے۔ پٹھان ہوکر شہری چونچلے آپ کو زیب نہیں دیتے۔ مجھ سے اظہار کرنا ہو تو ایسے ہی کیا کرو۔ میرے نسواری گل خان۔”
اور یہ بول کر زور سے مُجھے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply