کیا آپ کے پاس دماغ ہے؟۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

کتاب کے مطالعے کے دوران گاہے صفحہ پلٹتے وقت اچانک آپ کو احساس ہوتا ہے کہ پچھلے صفحے پر جو کچھ پڑھا تھا وہ تو یاد ہی نہیں رہا اور آپ کو مطالعے کے تسلسل کیلئے واپس پچھلے صفحے پر پلٹنا پڑتا ہے کیونکہ آپ کا ذہن دورانِ مطالعہ کسی ایسی سوچ میں گم ہوجاتا ہے جس کا آپ کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ذہن کیا سوچ رہا تھا ۔
اسی طرح دوستوں کی محفل میں آپ بیٹھے بیٹھے کہیں کھو سے جاتے ہیں، آپ کی توجہ واپس لانے کیلئے دوست آپ سے پوچھتے ہیں کہ
کن سوچوں میں گم ہیں ؟

اور آپ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا کیونکہ آپ خود نہیں جانتے ہوتے کہ آپ کن سوچوں میں ڈوب گئے تھے اور کیوں بھری محفل سے کنارہ کش ہوگئے تھے ؟

عام انسان یہی سوچتا ہے کہ اس کے پاس دماغ ہے، لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے، درحقیقت آپ کے پاس دماغ نہیں بلکہ آپ دماغ کے پاس ہیں، دماغ ہی اصل مالک ہے۔
دماغ کی سائنس میں ایک دلچسپ اصطلاح ہے، default mode network, دماغ کے کچھ حصے مل کر ایک نیٹ ورک ترتیب دیتے ہیں یہ نیٹ ورک اس وقت متحرک ہوتا ہے جب انسان کوئی کام نہیں کر رہا ہوتا، یا کسی اہم چیز پر فوکس نہیں کر رہا ہوتا، بظاہر فرد ذہنی طور پر مکمل طور پر حالتِ سکون میں ہوتا ہے لیکن اسی وقت ، اس پیسِیو مَوڈ ، میں دماغ کا ڈیفالٹ نیٹ ورک متحرک ہوجاتا ہے جو تخیل کا سرچشمہ ہے ، دوسرے الفاظ میں سوچنے کا حقیقی عمل تب ہی وقوع پذیر ہوتا ہے جب آپ سوچتے ہیں کہ آپ کچھ نہیں سوچ رہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں دماغ بے ترتیب سوچوں کو ترتیب میں لانا شروع کر دیتا ہے، یہ بے ترتیب سوچیں کیا ہیں؟

ہر وہ کام جس کا تعلق جسم سے نہیں بلکہ فہم و عقل سے ہے ، یہ کام پوری طرح سماجی تعلقات سے جڑا ہے، کتابی علم سے اس کا رشتہ ثانوی ہے، دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات، ان کے ساتھ تبادلۂ فکر و تجربہ ہی انسان کو عقلی طور پر آگے کی طرف دھکیلتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بڑی جنگوں کے بعد ہی تہذیبیں ارتقاء کی منازل طے کرتی آئی ہیں کہ مختلف اقوام یا نسلوں کے میل جول سے ہی فکر، تجربے اور فن کا باہمی تبادلہ ہو پایا۔

انسانی دماغ ڈیفالٹ موڈ میں ان انسانوں کے بارے سوچ رہا ہوتا ہے جن سے ہم نے کچھ سیکھا، سمجھا، جن کے ساتھ تعلقات میں کچھ کھویا، کچھ پایا، کچھ بویا اور کچھ کاٹا ، انہی سوچوں کی ترتیب نے ہی سماجی و سائنسی علوم کی بنیاد رکھی اور واقعہ یہ ہے کہ انسانوں کے مابین انہی تعلقات و بحث مباحثوں کے بعد ہی ذہن ان تمام سوچوں اور فکروں کو ایسی ترتیب میں لاتا ہے جس کی بدولت ایک فرد جینئیس بن کر سامنے آ سکتا ہے۔

اس تناسب سے انسانوں کی تین مختلف اقسام پائی جاتی ہیں، مفکر، تخلیق کار اور انتظامی صلاحیتیں رکھنے والے یعنی منتظمین، اور انسانوں کی انہی تین اقسام کے دماغ اپنا بہت سارا وقت ڈیفالٹ موڈ میں گزارتے ہیں کہ اس دوران سماجی فکر و تجربے اور باہمی تعلقات کو ترتیب دے کر نئی فکر، نئی دریافت یا نئی تخلیق سامنے لائی جاتی ہے۔

یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب انسانی دماغ زیادہ سے زیادہ انرجی کا استعمال کرتا ہے تاکہ فرد میں چھپی عقلی صلاحیتوں کو نکھار کر شعور کی سطح پر لے آئے، دماغ جو کہ وزن کے اعتبار سے انسانی جسم کا صرف دو فیصد ہے لیکن یہ جسم کی بیس فیصد سے زیادہ انرجی استعمال کرتا ہے، آپ نے کبھی غور کیا کہ جو افراد صبح سے شام تک کام میں غرق رہتے ہیں، شام کے بعد چاہے وہ جسمانی یا دماغی تھکاوٹ محسوس کریں مگر یہ تھکاوٹ خوشگوار اور قابلِ برداشت ہوتی ہے، لیکن ایسے افراد جو کسی قسم کا کام نہیں کرتے، جن کے دن رات فراغت میں گزرتے ہیں وہ بالکل نڈھال دکھائی دیتے ہیں اور دائمی تھکاوٹ سے ان کے چہرے مرجھائے رہتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے افراد کا دماغ زیادہ تر ڈیفالٹ موڈ میں رہتے ہوئے بے تحاشا  انرجی استعمال کرتا ہے اور یہ سب کچھ غیر شعوری طور پر ہو رہا ہوتا ہے جس کا فرد کو احساس تک نہیں ہوتا، گویا کہ اہم ترین کام تب ہی انجام پاتے ہیں جب آپ کوئی کام نہیں کر رہے ہوتے۔

اب ایسی صورت میں ہونا تو یہ چاہیے کہ ڈیفالٹ موڈ میں رہنے والے افراد ، یعنی بےروزگار اور اپنے وقت کا زیادہ حصہ فراغت میں گزارنے والے انسان نئی تخلیقات سامنے لائیں لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں پاتا، آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟

ارتقائی نکتۂ نگاہ سے انسانی شخصیت تین دائروں میں جکڑی ہوئی ہے، افزائشِ نسل، اقتدار کی وسعت اور دوسروں کو پسند آنے کی خواہش، یہاں یہ تیسری خصوصیت، یعنی دوسروں کو پسند آنے کی خواہش، اپنے اندر بہت گہرے معانی رکھتی ہے، سماجی مقام کی تمنا اور اس کا تعین بھی اسی سے منسلک ہے کہ ہر فرد کی تمام کوششوں کا کم از کم ایک تہائی حصہ دوسروں کو پسند آنے کی خواہش کا خاصہ ہے اور اسی کی انتہائی شکل نرگسیت کہلاتی ہے۔

خود پسندی کی یہ خواہش ارتقاء کے ذریعے انسان میں منتقل ہوئی، آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ بندروں کی مختلف اقسام بوقتِ فراغت ایک دوسرے کی جوئیں نکالنے یا ایک دوسرے کی پیٹھ کھجانے میں لگی ہوتی ہیں، یہ دراصل ایک بندر کا دوسرے بندر سے اپنی وفاداری کا اظہار ہے کہ میرے دل میں آپ کیلئے محبت اور تعظیم کے جذبات ہیں، وفاداری کے اس ثبوت کی عملی توجیح کے دوران بندر کے جسم میں اینڈرفین کی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے جو اس کی جسمانی، دماغی اور سماجی تشفی کا باعث بنتی ہے، تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے کہ بندر یاد رکھتا ہے کہ آج کتنے بندروں نے میری تعظیم اور محبت میں میری پیٹھ کھجائی یا میری جوئیں نکالیں، گویا کہ کتنے بندر میرے ساتھ وفاداری کا ثبوت دے چکے ہیں، اگلے دن اگر یہ تعداد کم ہو جائے تو بندر اضطراب کا شکار ہو سکتا ہے کہ سماج میں اس کی اہمیت گرتی جا رہی ہے، یہ رویہ ارتقائی سفر میں انسان میں منتقل ہوا اور جدید دور میں اس کی انتہائی شکل فرد کے سوشل میڈیا پر لائیکس اور کمنٹس کی تعداد سے موازنہ کرنا ہے، دوسرے الفاظ میں آپ کی پوسٹ کو لائیک کرنا بندروں کی زبان میں آپ کی پیٹھ کھجانے جیسا ہے اور اگر آپ کی پیٹھ کھجانے والے افراد کی تعداد کم تر ہو رہی ہوتو حیرانی کی بات نہیں کہ اینڈرفین کے کم ہونے سے آپ ڈپریشن کا شکار ہو جائیں ، ایسے میں فرد اگر شعوری طور پر کمزور ہے تو اس ڈپریشن سے نکلنے کیلئے کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے جیسا کہ ہم معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور یہی وہ خود پسندی کی خواہش ہے جو فرد کو ڈیفالٹ موڈ میں رہنے کے باوجود کسی بڑی تخلیق یا فکر کا موجب نہیں بننے دیتی، لاشعور کی سطح سے ابھرتے خیالات پر جب آپ سماجی دباؤ یا خود پسندی کے جذبے کے تحت باقاعدہ شرط عائد کر دیں گے کہ کوئی بھی فکر، دریافت یا تخلیق سامنے آئے تو اس کی بدولت میری پیٹھ کھجانے والوں کی تعداد میں ہر حال میں اضافہ ہونا چاہیے تو نتیجہ صفر رہے گا، اس کیلئے ضروری ہے کہ خود پسندی کے اس مرض سے چھٹکارا پایا جائے اور اس کا بہترین علاج اس ڈیفالٹ سسٹم میں بہتر سے بہترین مواد ڈالنا ہے جس کیلئے سب سے پہلی شرط موبائل ، کمپیوٹر اور ٹی وی سکرین کو کم سے کم وقت دینا ہے اور اس کی بجائے اچھی کتب کا مطالعہ اور کشادہ جبیں افراد کے ساتھ صحبت کو ترجیح دی جائے ، تاکہ ایک طرف یہ ڈیفالٹ سسٹم اچھے مواد کی بنیاد پر اچھے نتائج دے اور دوسری طرف فرد اپنے گرد موجود اعلیٰ  اذہان کو جانتے و مانتے ہوئے اپنی حقیقت سے روشناس رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply