وی آئی پی کلچر، کوویڈ ۱۹ کو پاکستان میں متعارف کروانے کا واحد ذریعہ بنالیکن پھر بھی پاکستانی اشرافیہ نے اس کلچر سے چھٹکارا پانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔
۲۰۲۰ کے اوائل میں کوویڈ ۱۹ پھیلنے کے بعد بیرون ملک خصوصاً چین میں زیرتعلیم طلبا کا ملک واپس آنا ممنوع تھا۔تب پاکستان میں صرف ۲مثبت کیسز کی نشاندہی کی گئی تھی اور ملک کے اندرکسی کے سفر کرنے یا خود کو گھر تک محدود رکھنے کی پابندی نہیں۔
پاکستانی اشرافیہ کے سیاسی دباؤ کے باعث ۲۶ فروری ۲۰۲۰ کو، دو ہمسایہ ممالک سے زائرین کو داخلے کی اجازت دے دی گئی۔
نتیجتاً ، ۲۵جون۲۰۲۰ تک یہ وبائی مرض اس قدر پھیلا کہ ۱۹۲۹۷۰ مثبت کیسز کے ساتھ ۳۹۰۳ اموات ہوئیں۔ اور ایک ایک دن میں تقریباً ۱۴۸ اموات، ۴۰۰۰ تک مثبت کیسز سامنے آنے لگے۔
جہاں اتنے لوگ اس وبائی مرض کی لپیٹ میں آ چکے ہیں ، جلد یا بدیر اور بھی لاکھوں پاکستانی اس کا شکار ہوں گے لیکن ستم یہ ہے کہ ہمارے ہاں رائج ایلیٹ کلچر کی وجہ سے کسی کو بھی اس وبا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔
پاکستانی اشرافیہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے اور ریاستی ادارے بھی یا تو ان کی حمایت میں پیش پیش ہوتے ہیں یا پھر ان کی حرکات پر ویسے ہی آنکھیں موند لیتے ہیں۔یہ اور اس جیسے وی آئی پی کلچر کی عکاسی کرتے واقعات کا ہمارے ہاں ایک تسلسل دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستانی سڑکیں اور گلیاں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے اس جیسے ہزاروں واقعات کی چشم دید گواہ ہیں۔
“تینوں نہیں پتا میں کون آں” (تمھیں نہیں پتا میں کون ہوں) اس جملے کا استعمال کرتے ہوئے اشرافیہ کے اہلخانہ ، رشتہ دار ، دوست احباب، یہاں تک کہ دوستوں کے دوست اپنی طاقت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ بیوروکریٹس سے لے کر سیاستدانوں تک اور ریاستی نمائندگی کے تینوں ستونوں کی اشرافیہ اس کلچر سے لطف اندوز ہوتی ہے۔
اس مسئلے کی شدت صرف ان لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ماہرین تعلیم کو معاشرے دانشور گردانتے ہوئے سماجی تبدیلی کے کارگزار سمجھا جاتا ہے وہ بھی اس کلچر پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ لوگوں کو اس کلچر پر ذکر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے لیکن اگر کوئی بدقسمتی سے تذکرہ کر بیٹھے تو اس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر اسکو اس تذکرے کی قیمت اپنی جان گنوا کر ادا کرنا پڑتی ہے۔
ہمارے ہاں وی آئی پی سٹیٹس کی چپ استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی ، ملک کے کسی بھی ادارے کے قوانین کی بلا دھڑک خلاف ورزی کر سکتا ہے۔
سرکاری دفاتر و اداروں ، سڑکوں پر عوام کی توہین و تذلیل کی جاتی ہے۔ دراصل یہ وی آئی پی کلچر ہماری دیسی ثقافت میں اس قدر گھس رہا ہے کہ انسانی اقدار کی حیثیت ثانوی ہوتی جارہی ہے۔
بیوروکریٹس ، سکیورٹی اہلکار ، سیاستدان، حتی کہ پرائیویٹ افراد سبز نمبر پلیٹ کا استعمال کرتے ہوئے وی آئی پی سٹیٹس کے مزے لیتے ہیں حقیقتاً یہ لوگ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ باقی عوام کمتر ہیں اور وہ کسی خاص مٹی سے بنی کوئی اعلیٰ مخلوق ہیں۔
یہ کلچر نوآبادیاتی وراثت ہے جو کہ برٹش ماسٹرز نے برصغیر پاک و ہند میں داخل ہونے کے بعد ہماری روایت اور قدر کے نظام میں منتقل کی ہے تبھی ایسے لوگ جو طاقت، وسائل یا اعلیٰ درجے کی حیثیت رکھتے ہیں انہیں وی آئی پی کلچر سے مستفید ہونے کا حق وراثت میں ملا ہے۔
اب وقت آچکا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، ۱۹۷۳ کے آئین مطابق سب کو مساوی حقوق دینے کا فیصلہ کرے۔
*کوئی شخص بھی قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے.
*مذہب، نسل، مسلک، ذات پات اور شناخت سے قطع نظر ہوکر برابر عزت اور سماجی رتبہ دیا جانا چاہیے۔
*نوآبادیاتی میراث(وی آئی پی) کی تمام علامتوں کو ختم کرتے ہوئے
۱:گاڑیوں کے لیے سبز، سرخ، نیلے رنگ کی نمبر پلیٹوں پر پابندی عائد کی جائے
۲:منتخب کردہ نمائندے یا بیوروکریٹس جو عوامی پیسوں سے تعمیر شدہ ترقیاتی منصوبوں پر نمبر پلیٹس لگاتے ہیں مانع کیا جائے یا پھر وہ متعلقہ منصوبے کی قیمت ادا کر کے نمبر پلیٹ لگوائیں۔
*ریاستی اداروں یا دفاتر میں اگر کوئی بھی برتری کا دعوی کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔
*وی آئی پی پروٹوکول ایک عام آدمی اور ٹیکس دہندہ کی توہین کا ذریعہ ہے لہذا اس پر پابندی عائد ہونی چاہیے ۔
ہم چاہے جتنی مرضی مغربی ممالک اور مثالی اسلامی ریاست کی مثالیں دے لیں لیکن شائد ہی کوئی ایسا ہو جو اس وی آئی پی کلچر کی لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے عمل کرے۔ وی آئی پی کلچر کو ختم کرنا موجودہ حکومت کے ایجنڈوں میں سےایک تھا لیکن شائد وہ اسے پسِ پشت ڈال چکے ہیں۔ حکومت کو احساس ہونا چاہیے کہ عام آدمی کے ساتھ کیے ہوئے اپنے وعدے پورے کرے تاکہ
*ریاست اور معاشرے کے درمیان فاصلہ ختم کیا جاسکے
*سرکاری اداروں اور حکومت کے خلاف بڑھتی ناپسندیدگی ختم ہو
ساتھ ہی ساتھ اس کلچر کے خاتمے پر لوگوں میں اپنے ملک پر مساوی ملکیت کا احساس پیدا ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں