ہر قدم امتحاں۔۔محمد اسد شاہ

ہر قدم امتحاں۔۔محمد اسد شاہ/پنجاب انفارمیشن کمیشن نے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور کے چیئرمین کو ایف ایس سی پارٹ ون پری میڈیکل کا امتحان دینے والی ایک طالبہ کے تین مضامین کے حل شدہ پرچے اور ببل شیٹس (ایم سی کیوز) پانچ روز کے اندر پبلک کرنے کا حکم دیا ہے۔ رانیہ عمران بنام بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور کیس کی سماعت کے دوران طالبہ نے انکشاف کیا کہ اس نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت کی گئی شکایت سے قبل چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور سے فزکس ، کیمسٹری اور بیالوجی کے پرچوں کی ری چیکنگ کے لیے درخواست کی – طالبہ رانیہ عمران نے کمیشن کو بتایا کہ اس نے کنٹرولر لاہور بورڈ کو ری چیکنگ کے دوران آگاہ کیا کہ حل شدہ پرچے جو اس کے ریکارڈ میں رکھے گئے ، وہ اس کے نہیں تھے – طالبہ نے کنٹرولر امتحانات لاہور بورڈ کو یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے تین حل شدہ پرچوں کے ساتھ اس کی ببل شیٹس شامل نہیں کی گئیں ، اور جو پرچے اسے دکھائے گئے ، وہ اس کے نہیں تھے ، اس کی لکھائی (ہینڈ رائٹنگ) ہی نہیں تھی – طالبہ نے کمیشن کو بتایا کہ جب اس نے حل شدہ پرچوں کی تصدیق شدہ نقول مانگیں تو بورڈ انتظامیہ نے خود اپنی صفائی پیش کرنے کی بجائے الٹا اسے (طالبہ کو) ڈسپلن کمیٹی کے حضور پیش ہونے کا حکم صادر فرما دیا –

مقدمے کی سماعت کے دوران چیف کمشنر محبوب قادر شاہ نے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور کے پبلک انفارمیشن آفیسر اور لیگل ایڈوائزر کو گورنر پنجاب کی طرف سے جاری کردہ ایک حکم نامے کا حوالہ بھی دیا جس میں تمام طلبہ کو حل شدہ پرچے فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی – چیف انفارمیشن کمشنر نے بورڈ کے نمائندوں کو حکم دیا کہ طالبہ رانیہ عمران کے فزکس ، کیمسٹری اور بیالوجی کے حل شدہ اصل پرچوں کی مکمل نقول فوری طور پر فراہم کر کے کمیشن کو رپورٹ جمع کروائیں –

اس خبر کی بعض تفصیلات تقریباً دو ہفتے قبل (27 یا 28 نومبر 2021) کے اخبارات میں شائع ہوئیں – اس خبر سے کتنے لوگوں کو اس کرب اور اذیت کا احساس ہوا ہو گا جس سے سرکاری امتحانات کے ہر نتیجہ کے بعد رانیہ جیسے ہزاروں معصوم بچوں اور بچیوں کو گزرنا پڑتا ہے – شعبہ تعلیم شاید اس ملک کا سب سے بدقسمت اور نظر انداز شعبہ ہے – کالم نگاری اور صحافت کے ساتھ ساتھ تعلیم و تدریس کے شعبے سے مستقل وابستگی کی بناء پر مجھے سکول ، کالج اور یونیورسٹی ، ہر درجے کے طلبہ کے جذبات و احساسات کا بہت قریب سے حقیقی اور عملی مشاہدہ رہتا ہے – میرا یقین ہے کہ 13 سال سے 19 سال تک کا دورانیہ بچوں اور بچیوں کی عمر کا حساس ترین مرحلہ ہوتا ہے – انگریزی زبان میں جسے Teenage کہا جاتا ہے – ہمارے ہاں انہی سالوں کے دوران طلبہ آٹھویں ، نویں ، دسویں ، گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات سے گزرتے ہیں – یہ امتحانات سرکاری اداروں (ایجوکیشن بورڈز) کے تحت منعقد ہوتے ہیں – امتحانی نگرانی سے پرچوں کی چیکنگ اور ری چیکنگ تک کے تمام مراحل سرکاری اساتذہ اور بابوؤں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں – معاشرے میں پیسہ کمانے ، اور “مزید” کمانے کا پاگل پن سوار ہے جو ایمان کے ساتھ نسلوں کو بھی تباہ کیے جا رہا ہے – نصاب میں جب بچوں کو ایمان داری ، دیانت داری ، شرافت ، ہم دردی ، محبت اور دوسروں کا احساس کرنا سکھایا جاتا ہے تو بہت سے طلبہ ان باتوں کو صرف رٹا لگاتے اور “پاس” ہونے کو اپنا مقصدِ حیات سمجھتے ہیں – جب کہ ایک بہت بڑی تعداد ان طلبہ کی بھی ہے جو ان تعلیمات کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں – یہ وہ طلبہ ہیں جو واقعتاً محنتی اور تحقیقی مزاج رکھتے ہیں – ایسے طلبہ دراصل بہت زیادہ حساس ، نرم دل اور معصوم ہوتے ہیں – یہ اساتذہ کو اپنے ماں باپ کے برابر ، بلکہ بعض صورتوں میں تو ان سے بھی بڑھ کر عزت دیتے ہیں – انھیں یقین ہوتا ہے کہ اساتذہ فرشتوں جیسے مہربان اور شفیق ہوتے ہیں کیوں کہ ان کی نظر صرف ان اساتذہ پر ہوتی ہے جن سے وہ کمرۂ جماعت میں مانوس ہوتے ہیں – وہ پورے معاشرے کو اپنی خوابوں بھری چمکتی آنکھوں سے دیکھتے ہیں – لیکن جب یہی طلبہ بورڈ کے امتحانات میں شامل ہوتے ہیں تو بعض نگران اساتذہ کے رویئے اور معاملات ان کے لیے شدید ذہنی صدمے کا باعث بنتے ہیں – کہیں خود نقل کروائی جارہی ہوتی ہے – کہیں کسی محنتی اور معصوم بچے یا بچی کو دھمکایا اور ڈانٹا جاتا ہے کہ “فلاں بچے یا بچی کو پرچہ حل کرنے میں مدد کرو” – بددیانتی ، بے ایمانی اور بے ضمیری کے بعض واقعات معصوم طلبہ کے لیے شدید ذہنی صدمے کا باعث بنتے ہیں – پھر جب نتیجہ سامنے آتا ہے تو اکثر محنتی اور معصوم بچے بچیاں پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کے بعض ایسے ہم جماعت زیادہ نمبر لے کر ان کا تمسخر اڑا رہے ہوتے ہیں کہ جنھیں کتابوں کی بجائے شرارتوں اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے شہرت حاصل ہوتی ہے –

کرونا وباء کے دنوں میں بے شمار بچوں نے گیارہ سو میں سے گیارہ سو ، یا پانچ سو پانچ میں سے پانچ سو پانچ نمبر حاصل کیے – مثلاً حالیہ نویں جماعت کے امتحانات میں کسی سکول کے تقریباً ڈیڑھ درجن بچوں نے پانچ سو پانچ میں سے پانچ سو پانچ نمبرز حاصل کیے – ان میں سے اکثریت اوسط درجے کی ذہانت والے بچوں کی تھی – چار بچے تو ایسے بھی تھے کہ ان کے اساتذہ خود حیران و ششدر تھے – ان کا کہنا تھا کہ اگر ان بچوں کے سامنے کتاب کھول کے رکھ دی جائے اور انھیں اکیلے بٹھا دیا جائے تب بھی وہ سو فیصد  درست جواب نہیں لکھ سکتے ، پھر ان کے سو فی صد نمبرز کیسے آ گئے – ان کے دوست ان کو مبارک بھی دیتے ہیں اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس شان دار کامیابی کا راز بھی پوچھتے ہیں – ایسی ہی ایک طالبہ نے بتایا کہ اس کی پھوپھی اس کے امتحانی مرکز کی سپرینٹنڈنٹ تھیں جنھوں نے پھوپھی ہونے کا “حق” ادا کیا – ایک ایسا طالب علم بھی دیکھا جو ہر پرچہ دینے کے بعد اس پرچے کا “تعاقب” کرتا اور “کامیابیوں” کا سفر طے کرتا رہا – جب کہ وہ طلبہ جو ان سے کہیں زیادہ محنتی اور ہر سال پوزیشن لیتے رہے ، وہ ان سے نسبتاً کم نمبروں میں پاس ہوئے اور شرمندگی و صدمے سے ذہنی مریض بن گئے –

Advertisements
julia rana solicitors

فیصل آباد میں ایک محنتی بچے نے موٹر وے پر انتہائی تیز رفتار بس کے آگے کود کر خود کشی کر لی – تعلیمی بورڈز میں چیکنگ کا معیار ایسا ہے کہ ناقابلِ فہم اور ناقابلِ برداشت – پھر ری چیکنگ کے بہانے بھاری پیسے وصول کرنے کا ظالمانہ کاروبار چمکایا جاتا ہے – تلخ حقیقت یہ ہے کہ ری چیکنگ تو اصلاً ہوتی ہی نہیں ، بلکہ صرف ری کاونٹنگ کر کے معصوم بچے بچیوں کا جذباتی استحصال کیا جاتا ہے ، کیوں ؟ آخر کیوں؟ انشائیہ پرچے میں درست ترین جواب کے نمبرز بھی بعض اوقات آدھے دیئے جاتے ہیں – کوئی قانون یا ضابطہ ایسا نہیں کہ ان نمبرز کو درست کیا جا سکے یا کسی نام نہاد ممتحن سے پوچھا جائے کہ چیکنگ کا معیار کیا ہے ؟ طلبہ کی زندگیاں ان امتحانات کے نتائج سے وابستہ ہوتی ہیں ، سنور بھی سکتی ہیں اور خدا نخواستہ تباہ بھی ہو سکتی ہیں – امتحانی نظام کے ہر ہر قدم پر اور ہر ہر شعبے میں اصلاح کی بہت زیادہ گنجائش ہے – میرا خیال ہے کہ پورے امتحانی نظام کی فوری اوور ہالنگ اور بے رحم سرجری اشد ضروری ہے – کیوں کہ یہ ہماری نسلوں اور ہمارے وطن کے مستقبل کا مسئلہ ہے –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply