اخوان۔۔۔۔۔۔ آصف محمود

اس میں کیا کلام ہے کہ اخوان عزیمت کا استعارہ بن چکے۔ جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔ گریہ عاشق مگر یہ ہے کہ دلوں کو صحرا کھینچتا ہے، کاش عزیمت کے ساتھ کچھ حکمت بھی بروئے کار آئی ہوتی۔کتنے رجال کار تھے جو مقتل کا لہو بن گئے۔ہم غم کشتوں کو دیکھیے ، آج غزل پر بیٹھے رو رہے ہیں۔میر نے کہا تھا : جب زمزمہ کرتی ہے صدا چبھتی ہے دل میں۔ ایک غلطی ہم سے ہوئی اور پہاڑ جیسی۔جب جب مقتل آباد ہوا ہم نے لاشوں کو گلیمرائز کیا ۔ حادثے کا سنجیدہ جائزہ لینے کا بھاری پتھر ہم آج تک نہیں اٹھا پائے۔ ہمارے ہاں کسی رہنما کے معتبر ہونے کے لیے علم و دانش اور فہم و فراست پیمانہ ہی نہیں رہا، راہ محبت میں سرخرو ہونے کا معیار یہ ہے کہ کس رہنما کے پرچم تلے مقتولین کے لاشوں کی تعداد زیادہ ہے۔اخوان عزیمت کااستعارہ سہی مگر ا س تاریخ میں غور و فکر کا سامان بھی کم نہیں۔لازم ہے کہ عزیمت کی اس لہو رنگ داستان کو پوری معروضیت سے پڑھا جائے ۔ اخوان کی تاریخ کو ہم تین ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔پہلا دور حسن البنا شہید کا ہے۔ اس میں دعوت و تربیت پر اصرار تھا اور یہی رنگ غالب تھا۔دوسرا دور سید قطب شہید کا دور ہے۔اس میں انقلاب کا رنگ نمایاں تھا۔دنیا کو بدل دینے کا عزم تھا۔ مسلم حکمرانوں کے لیے طاغوت کی اصطلاح سامنے آئی اور اہل اقتدار کے ساتھ کشمکش کا آغاز ہو گیا۔ طاغوت سے اقتدار چھیننے کے لیے کوئی سا بھی راستہ اختیار کرنا گوارا کیا گیا۔ چنانچہ جمال عبد الناصر کی سازش میں شریک ہو کر اخوان انہیں اقتدار میں لائی۔بعد میں اسی جمال عبد الناصر کے ہاتھوں سید قطب شہید ہو گئے۔اخوان کا دوسرا دور سید قطب کی شہادت کے ساتھ ختم ہو گیا۔ اس دور میں رد عمل کی نفسیات بھی بروئے کار آئیں۔ یوں سمجھیے اس عہد کے آغاز اور اختتام دونوں میں رد عمل کی نفسیات نمایاں ہیں۔سید قطب شہید امریکہ تشریف لے گئے اور جب یونیورسٹی آف نادرن کولریڈو کے واشنگٹن میں واقع ٹیچرز کالج میں قریبا دو سال گزار کر لوٹے تو مغرب کے بارے میں شدید رد عمل کی نفسیات کے اسیر ہو چکے تھے۔ العدالہ الاجتماعیہ فی الاسلام امریکہ ہی میں قیام کے دوران لکھی گئی۔ان کی دوسری معرکتہ الآرا کتاب معالم فی الطریق بھی دوران قید رد عمل میں لکھی گئی۔اسی کتاب کے مندرجات بعد میں ان کے خلاف بطور ثبوت پیش ہوئے اور انہیں پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا۔ لیکن اس کتاب نے نہ صرف مصر کے فکری بیانیے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا بلکہ مسلم دنیا پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ۔ کوئی صاحب علم مسلم معاشروں پر اس کتاب کے اثرات پر سنجیدہ کام کرے فکر کی دنیا میں یہ قابل قدر اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد تیسرا دور آتا ہے۔ غیر معمولی ابتلاء کے بعد اخوان نے فیصلہ کیا کہ اب مروجہ سیاسی عمل کا حصہ بن کر اقتدار تک پہنچا جائے گا اور تصادم سے گریز کیا جائے گا۔ لیکن یہ فکری تبدیلی نہیں تھی ، اس کا تعلق صرف حکمت عملی سے تھا۔فکر وہیں کھڑی تھی ۔ چنانچہ جب روایتی طریقے سے اقتدار مل گیا تو اسی غیر روایتی طریقے سے اسے انقلاب میں بدلنے کی کوشش کی گئی۔ یہ بنیادی بات نظر انداز کر دی گئی کہ انہیں کسی انقلاب کے نتیجے میں اقتدار نہیں بلکہ وہ ایک ایسے انتخابی عمل کے نتیجے میں اقتدار میں آئے ہیں جس میں اگر انہیں 51 فیصد ووٹوں کے ساتھ برتری ملی ہے تو ان کے حریف احمد شفیق کو بھی 48 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ مصر کے معاشرے کا یہ تنوع اخوان کے پیش نظر رہنا چاہیے تھا۔ اخوان کو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے تھی وہ نہ کسی انقلاب کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں نہ ہی انہیں عوام نے دو تہائی اکثریت دی ہے ۔ایک کروڑ بتیس لاکھ ووٹ اگر مرسی کو ملے تھے تو ان کے مد مقابل کو بھی ایک کروڑ تیئیس لاکھ ووٹ ملے۔لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا اخوان نے صرف حکمت عملی تبدیل کی تھی فکر وہی تھی جو سید قطب نے معالم فی الطریق میں بیان کی تھی۔چنانچہ مسلم ممالک کی قیادت طاغوت ہی تھی اور اسلام پسندوں کے علاوہ ہر سیاسی مخالف کسی نہ کسی درجے میں طاغوت ہی تھا۔چنانچہ اب جب اقتدار ملا تو ارتقاء کی بجائے انقلاب کا جذبہ غالب آ گیا۔ یقینا یہ نیک نیتی ہو گی لیکن نتائج مہلک نکلے۔ عجلت میں انقلاب برپا کر دینے کی خواہش نے بحران پر بحران پیدا کر دیے۔ انجام یہ ہوا کہ فیلڈ مارشل محمد حسین کو ریٹائر کرنے کا حکم جاری کر کے محمد مرسی نے جس جنرل سیسی کو آرمی چیف اور وزیر دفاع بنایا اسی جنرل سیسی نے انہیں اقتدار سے الگ کر دیا۔ روایت ہے کہ جنرل سیسی کو اخوان کے حلقوں میں راسخ العقیدہ مسلمان جرنیل کے طور پر پہلی ترجیح قرار دیا جاتا تھا۔ستم ظریفی دیکھیے جس جمال عبدلناصر کے ساتھ مل کر اخوان نے مصر میں اپنے تئیں انقلاب برپا کی اسی جمال عبد الناصر کے ہاتھوں سید قطب شہید ہوئے اور جس راسخ العقیدہ جنرل سیسی کو مرسی نے فیلڈ مارشل محمد حسین کو ہٹا کر آرمی چیف اور وزیر دفاع بنایا اسی سیسی کے ہاتھوں محمد مرسی شہید ہوگئے۔کیا اب بھی ہم نے محض لاشوں کو گلیمرائز کرنا ہے یا اس سارے عمل سے کچھ سبق بھی حاصل کرنا ہے؟ اخوان کے دوسرے دور میں جو فکر سامنے آئی ، کم و بیش اسی فکر نے پاکستان میں جماعت اسلامی کی صورت ظہور کیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اخوان تو دردناک انجام سے دوچار ہوئی لیکن جماعت اسلامی ایسے انجام سے محفوظ رہی۔مجھ سے اس کی وجہ پوچھیں تو میں کہوں گا جماعت اسلامی کو سید مودودی کی فکری پختگی نے بچا لیا۔انقلاب برپا کر دینے کی خواہش یہاں بھی موجود تھی لیکن سید مودودی نے واضح کر دیا کہ اسلامی انقلاب جمہوری اور آئینی طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت میں برپا نہیں ہو سکتا، برپا ہو جائے تو دیرپا نہیں ہو سکتا۔چنانچہ مشکلات تو آئیں مگر جماعت اسلامی کسی سانحے سے دوچار نہیں ہوئی ۔ یاد رہے عزیمت محض مقتل آباد کرنے کا نام نہیں، انتشارِ فکر کے موسموں میںعلم و بصیرت کے نخلستان آباد کرنے کا نام بھی ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply