• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان اور افغانستان میں چند دنوں تک ہونے والی ممکنہ جنگ ۔۔۔۔۔غیور شاہ ترمذی

پاکستان اور افغانستان میں چند دنوں تک ہونے والی ممکنہ جنگ ۔۔۔۔۔غیور شاہ ترمذی

ماہرین کے مطابق شدید خطرہ پیدا ہو چکا ہے کہ پاکستان اور اس کے ہمسایہ ملک افغانستان میں چند دنوں تک ایک شدید جنگ برپا ہو جائے جس میں دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیموں میں یہ ٹھن جائے گا کہ ورلڈ کپ کرکٹ 2019ء میں 9th پوزیشن پر کون سی  ٹیم آئے گی اور 10th یعنی آخری پوزیشن کس ٹیم کی ہو گی-

اس ورلڈ کپ میں اب تک پاکستان کی ٹیم انڈیا, آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز سے ہار چکی ہے اور انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم سے جیتنے اور بارش کی وجہ سے سری لنکا سے میچ برابر رہنے کے باوجود بھی پوری قوم پر مایوسی طاری ہے- کرکٹ سے قوم کی جذباتی وابستگی اس قدر شدید ہے کہ تمام تر صورتحال میں اس بات کو نظرانداز کیا جارہا ہے کہ انڈیا اور آسٹریلیا کی ٹیمیں ہر لحاظ سے ہمارے ریلو کٹا ٹائپ کھلاڑیوں سے بہت بہتر ہیں- ویسٹ انڈیز کا حال اگرچہ ہمارے جیسا ہی ہے مگر ہمارے ساتھ میچ والے دن ویسٹ انڈیز ٹیم کے پاکستانی باؤلنگ کوچ نے اپنے باؤلرز سے پاکستانی بیٹسمینوں کو شارٹ پچ تیز باؤلنگ کروا کے ہماری ٹیم کی اس مجموعی کمزوری کو بہت واضح طور پر ایکسپوز کروا دیا-

دنیا نے اب اس بات کو تقریباً  غلط ثابت کر دیا ہے کہ کرکٹ بائی چانس (cricket by chance)- اب ہمارے علاوہ دنیا بھر کی کرکٹ ٹیمیں ایک سسٹم اور میرٹ کی چکی سے گزر کر ہر لحاظ سے پروفیشنل ٹیمیں بن چکی ہیں جبکہ ہمارے پاس کوئی  سسٹم نہیں اور نہ ہی کوئی  میرٹ ہے- سفارش اور اقرباء پروری کی بنیاد پر ہمارے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال آل راؤنڈر شعیب ملک ہیں جن کی سفارش کرنے کے لیے وزیروں میں مقابلہ ہوتا ہے حالانکہ حارث سہیل اور عماد وسیم ان سے بہت بہتر آل راؤنڈرز ہیں مگر سفارش نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ٹیم سے اندر, باہر ہوتے رہتے ہیں- ہمارے پاس کسی سسٹم کے نہ ہونے کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہمیں آخر وقت تک پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ٹیم کا کپتان کون ہوگا اور ہماری ورلڈ کپ کی ٹیم کون سی ہے۔ محمد عامر اور وہاب ریاض جیسے چلے ہوئے کارتوسوں کو آ خری لمحوں میں ٹیم میں بلا لیا جاتا ہے جبکہ ٹیلنٹڈ محمد حسنین اور عثمان شینواری منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں-

اقرباء پروری, میرٹ کی خلاف ورزی اور سسٹم   نہ ہونے جیسے مسائل یہ سب چیزیں ایک دن میں تو  پیدا نہیں ہوئیں بلکہ اس زہر کا سلسلہ کرکٹ کیا زندگی کے ہر شعبہ میں قیام پاکستان سے ہی مسلسل انڈیلا جا رہا ہے- طاقت ور ہمارے سسٹم کو بار بار توڑتے ہیں- اثر و رسوخ والے کسی اصول اور قانون کو نہیں مانتے- جس کے پاس اختیار ہوتا ہے یا وہ پیسے سے یہ اختیار خرید لے تو وہ اپنے مفاد کے لیے  جب دل چاہتا ہے, اپنی من مرضی کرتا ہے اور جو اس کی خواہشات کے مطابق چلتا ہے, اس کی سرپرستی کرتا ہے چاہے وہ ہمارے  حکمران ہی کیوں نہ ہوں – کہتے ہیں کہ قوم پچھلے 72 سالوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے تو کیا خیال ہے اس کی ذہن سازی نہ ہوئی ہوگی- تقریباً ساری قوم ذہنی طور پر غلام بن چکی ہے اور طاقت ور کو سلام کرتی ہے- قانون پر اس قوم کا یقین ختم ہو چکا ہے اور طاقتور کی خوشنودی کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے- ظاہر ہے ان حالات میں لوگ میرٹ، سسٹم یا قانون پر یقین تو نہیں کریں گے بلکہ طاقت پر یقین کریں گے اور اس کے لیے سفارش اور اقرباء پروری یا کرپشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں گے- ان حالات میں عدل و انصاف کا نہیں بلکہ یہی گندا اور کرپٹ سسٹم ہی فروغ پائے گا- کرکٹ کے کھلاڑی بھی اس ملک کے رہائشی ہیں- لہذا یہ چیزیں ان کی زندگی میں بھی سرائیت کرجاتی ہیں- اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جب ایک اچھا کھلاڑی یہ دیکھے گا کہ  اس سے کمتر کھلاڑی اپنے اثر و رسوخ سے آگے نکل گیا ہے تو وہ بھی اپنے کھیل پر توجہ چھوڑ کر ان طریقوں کے استعمال پر توجہ دے گا-

جب ٹیم اس طریقے سے تیار ہو کر آگے کھیلنے چلی جاتی ہے اور ہمیں پتہ بھی ہو کہ اس میں زیادہ تر کھلاڑی پرچی کی برکت سے آئے ہیں تو پھر ہم ان باتوں کو نظر انداز کر کے کیوں ان سے ناممکن جیت کی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں- کرکٹ کے سارے پنڈت ورلڈ کپ میچوں میں شکست کے بعد کیوں کھلاڑیوں کی بری کارکردگی کا شور مچاتے ہیں- وہ پہلے سے ہی کیوں اعتراضات نہیں اٹھاتے؟- کیوں وسیم اکرم اور رمیض راجہ بعد میں کہتے ہیں کہ ٹیم توقعات کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا رہی؟- یہ پہلے سے ہی کیوں نہیں قوم کو بتا دیتے کہ جناب ٹیم سفارشی اور پرچی کھلاڑیوں پر مشتمل ہے, اس لئے کسی معجزہ اور بڑی جیت کی توقع مت رکھیں- ان بڑے کھلاڑیوں میں سے وہ جو اپنے, اپنے مفاد کے لئے سفارش یا رشوت کا استعمال کر کے اپنے پسندیدہ کھلاڑی ٹیم میں شامل کروا رہے ہوتے ہیں تو کیا وہ اس وقت ٹیم کی اگلی شکست میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہے ہوتے؟ –

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت جب ہمارے سامنے پورے ملک میں میرٹ کی سراسر خلاف ورزی ہو رہی ہوتی ہے اور کوئی پرچی سارے میرٹ کا ستیا ناس کر کے ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرچکی ہوتی ہے, اس وقت ہم خاموش رہ کر اس شکست میں اپنی ساجھے داری کنفرم کر رہے ہوتے ہیں- ورلڈ کپ میں اگر ہم صرف افغانستان یا سری لنکا سے ہی اوپر رہ پائے تو یاد رکھیے گا کہ اس شرمناک کارکردگی میں ٹیم کے ساتھ ہم بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنا کوئی دوسرا- کب ہم نے ملک میں میرٹ اور سسٹم کے لئے کام کرنے کو کوشش کی۔ کب ہم نے سفارش اور رشوت کے کلچر کے خلاف جہاد کیا- اگر ہم نے کچھ بھی نہیں کیا تو کس منہ سے اچھی ٹیموں کے خلاف مسلسل جیت جیسے معجزوں کی امید کرتے ہیں- انگلینڈ جیسی ٹیموں کے خلاف جیت جیسا معجزہ ایک آدھ دفعہ ہی ہوا کرتا ہے, پورے ٹورنامنٹ میں معجزوں کی نہیں بلکہ اچھی کارکردگی کی ضرورت ہوا کرتی ہے –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply