• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • طالبان کی جیت : تین بنیادی سوال ۔۔محمدعامر خاکوانی

طالبان کی جیت : تین بنیادی سوال ۔۔محمدعامر خاکوانی

افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد کئی سوالات ابھرے ہیں، کچھ فطری اور چندایک یارلوگوں کی جانب سے تخلیق کئے گئے۔ا ن سوالات پر بات ہونی چاہیے کہ معلومات اور مکالمہ ہی کنفیوژن ختم کرتے اور یکسوئی پیدا کرتے ہیں۔
پاکستانی اتنے خوش کیوں ہیں؟

یہ وہ سوال ہے جو سوشل میڈیا پر بہت سے جھنجھلائے ہوئے لوگوں نے اٹھایا ہے۔ طالبان مخالف ان حلقوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر افغانستان میں طالبان کے آجانے پر پاکستان میں عمومی فضا خوشی والی کیوں ہے؟یہ سوال پوچھنے والوں میں کچھ ایسے ہیں جو مختلف مسلکی، فکری وجوہات کی بنا پر طالبان کو پسند نہیں کرتے ۔بعض لوگ مذہبی یا بنیاد پرست ہونے کی بنیاد پر طالبان سے بیزار ہیں۔کچھ ایسے ہیں جو افغان طالبان کو نام نہاد پاکستانی طالبان سے مکس کر دیتے ہیں، انہیں شدید حیرت ہے کہ پشاور سکول پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی جیت پر خوش کیسے ہوا جا سکتا ہے؟

ان ناقدین کو ایک بنیادی نکتہ سمجھ نہیں آ رہا کہ افغانستان میں امریکہ کی شکست، رسوائی اور امریکہ کی پٹھو افغان حکومت کا دیمک کھائی لکڑی کی طرح ٹوٹ کر گر جانا ایک الگ بات ہے اور طالبان کی حکومت یا مستقبل کی کارکردگی دوسرا ایشو۔ پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں سامراج کو ناپسند کرنے والے، سامراجی قوتوں کے خلاف عملی یا فکری طور پر نبردآزما ہر شخص نے طالبان کی جیت پر خوشی محسوس کی۔

وجہ صاف ظاہر ہے۔ایک بے سروساماں گروہ کا امریکہ جیسی سپر پاور کے مقابلے میں جیتنا ایک بہت اہم اور غیر معمولی بات ہے۔ اس میں کمزور اور مظلوم گروہوں کے لئے حوصلہ ، قوت اور یقین کے کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔ طالبان اپنی حکومت کیسے بناتے ہیں، وہ اچھا پرفارم کر پاتے ہیں یا نہیں، اس سے قطع نظر ان کا امریکہ کے مقابلے میں کامیاب ہونا بذات خود ایک بڑا واقعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رائٹ ونگ ، سنٹر کے علاوہ بہت سے لیفٹ کے لوگ بھی مسرت کی کیفیت میں ہیں۔

جہاں تک طالبان کو مسلکی یا مذہبی بنیاد پر ناپسند کرنے والوں کا تعلق ہے، ان کی رائے ہم نہیں بدل سکتے۔تاہم ٹی ٹی پی سے افغان طالبان کا تعلق نہیں ۔ نام نہاد تحریک طالبان پاکستان کے لیڈروں میں سے کوئی بھی افغانستان میں سابق طالبان حکومت کا حصہ نہیں رہا۔ ٹی ٹی پی دراصل افغان طالبان کا پاکستانی چیپڑ تھاہی نہیں۔ اسی لئے پشاور سکول پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا افغان طالبان سے کبھی تعلق نہیں رہا۔ افغان طالبان کے بانی امیر ملا عمر،دوسرے عمر ملا اختر منصور اور موجودہ امیر مولانا ہبت اللہ نے کبھی پاکستان کے خلاف ایک سطری بیان بھی نہیں دیا۔ انہوں نے پاکستانی ریاست یا اداروں پر حملے نہیں کرائے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی اداروں نے بھی بے پناہ امریکی دباؤ  کے باوجود شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ میں طالبان شوریٰ کے خلاف کبھی قدم نہیں اٹھایا۔آخر کوئی وجہ تو ہوگی کہ پاکستانی ادارے ٹی ٹی پی کے خلاف تو آپریشن کرتے رہے، مگر افغان طالبان کو بچاتے رہے ۔

طالبان کی سخت گیر فہم دین کے بارے میں بہت لوگوں کو تحفظات رہے ہیں، پچھلے دور حکومت میں انہوں نے بعض بڑی غلطیاں کیں جن کا انہیں نقصان ہوا۔اہم بات یہ ہے کہ افغان طالبان اس بار محتاط ہیں، ان کا طرز عمل زیادہ میچور، متعدل اور کشادہ دلی پر مبنی ہے۔ اللہ کرے وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلیں۔ تحمل، سلیقے سے معاملات آگے بڑھائیں۔ ہم اس معاملے میں صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔

طالبان حامی افغانستان کیوں نہیں چلے جاتے؟

یہ وہ جلا بھنا طعنہ ہے جو میں نے پچھلے تین چار دنوں میں بہت بار سنا۔اس کا جواب سوشل میڈیا پر تو دیا، کالم کے قارئین سے بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ بات صاف ہے کہ افغانستان میں دو فریقوں میں لڑائی جاری تھی۔ ایک فریق ظالم اور ناجائز ہونے کے ساتھ قابض تھا، اس نے مال وزر اور ہتھیاروں کی قوت سے اپنے کچھ مقامی اتحادی جمع کرر کھے تھے۔ وہ بھی اتنے ہی ظالم ، بے حس اور غلط تھے۔ دوسرا فریق مظلوم تھا، اس کی حکومت ناحق چھینی گئی، اس کے بعد بے پناہ قوت اور جبر سے اسے کچلا گیا۔ ظالم اور مظلوم کی لڑائی میں مظلوم کی حمایت ہی ہوسکتی ہے۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ طالبان مظلوم ، جائز اور حقدار تھے، ان کی حمایت کرنا فطری اور منطقی امر ہے۔

طالبان کی اس حمایت کا ظاہر ہے یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ان کے وطن جا کر آباد ہوجائیں۔ آخر کیوں؟ ہمارا اپنا ایک وطن ہے، جہاں ہمارے آباؤ اجداد رہتے ہیں، ہماری جڑیں ، رشتے داریاں ،تعلق یہاں ہیں۔ ہمار ا ملک دارالحرب نہیں۔ یہ ملک اسلامی ملک ہے ، جس میں کچھ کمزوریاں ، خامیاں ہیں، ہمیں مل کر وہ دور کرنی ہیں۔ہمیں پاکستان کوایک جدید اسلامی، فلاحی، جمہوری ملک بنانا ہے۔ یہ کام یہاں رہ کر ہوگا ۔ہمارا مورچہ یہاں ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ لوگ زندگی میں بہت سے ایشوز پر اپنی رائے بناتے ہیں، کہیں کسی مظلوم، کمزور فریق کی حمایت کرتے ہیں تو کیا ہمیں اسی گروہ کا حصہ بن جانا چاہیے ؟ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کی بنا پر دنیا نے ان کا بائیکاٹ کیا، سیاہ فام آبادی کی حمایت کی۔ کیا پھران سیاہ فاموں کی جیت پر ہم سب کو جنوبی افریقہ جا کر آباد ہوجانا چاہیے؟ہم غزہ کے مظلوموں کی حمایت کرتے ہیں ، پھر ان کے دیس جا کر آباد ہوجائیں؟ہم میں سے بہت سے انسانی حقوق کی بنیاد پر یا کسی اور حوالے سے زیردست طبقے، گروہ کی بات کرتے ہیں، تو کیا پھر ان کا حصہ بن جائیں؟

کیا طالبان پاکستان کے ممنون ہوں گے؟

یہ اہم سوال ہے اور اس کا جواب اتنا آسان نہیں۔ پاکستان کا کردار پچھلے بیس برسوں میں پیچیدہ رہا ہے۔طالبان حکومت ختم ہوتے ہی ابتدائی دنوں میں ہم نے ان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کر دیا۔ یہ ہر لحاظ سے غلط اور غیر اخلاقی تھا۔ سفیر کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔اس بلنڈر کا ذمہ دار اس وقت کا ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف تھا۔ ایسا کرنے سے طالبان میں منفی تاثر پیدا ہوا۔ ملا عبدالسلام ضعیف نے کئی سال گوانتاناموبے کے عقوبت خانے میں گزارے۔ رہاہونے پر اپنی کتاب لکھی ، جس میں ظاہر ہے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔ان کا شکوہ بجا ہے۔

پچھلے بیس سال میں پاکستانی حکومت پر بے پناہ امریکی دباؤ  رہا۔ہماری ریاست امریکہ کی باقاعدہ اتحادی تھی ، لاجسٹک سپورٹ دے رکھی تھی۔ بہت کچھ مجبوراً کرنا پڑ ا۔ اس کے باوجود ہمارے اداروں نے امریکی دباؤ  برداشت کیا اور جس حد تک ممکن ہے افغان طالبان کو سپیس دی۔ امریکی جرنیل برسوں چیختے چلاتے رہے، مگر پاکستان نے مختلف حیلوں بہانوں سے شمالی وزیرستان آپریشن نہیں کیا تاکہ حقانی نیٹ ورک کو نقصان نہ پہنچے۔ اسی طرح کوئٹہ شوریٰ کے بارے میں تمام تر امریکی الزامات کے باوجود انہیںوہاں تک رسائی نہیں دی گئی۔

سپرپاور کے ساتھ ڈبل گیم آسان نہیں ہوتی ۔جس امریکہ نے ہزاروں ارب ڈالر خرچ کر ڈالے، وہ اپنے مشن میں کامیاب ہونا چاہتا تھا۔ اس نے اس کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا ہوگا؟سلام ہے ہمارے اداروں کے ان جوانوں اور افسروں کوجنہوں نے اربوں ڈالر کی ترغیبات ٹھکرا کر پاکستانی مفادات کا تحفظ کیا۔ یہ غیر معمولی بات ہے،انٹیلی جنس کی دنیا میں ایسا غیر معمولی کام کرنے والے ہمیشہ ان سنگ (Unsung)ہیروز رہتے ہیں، ان کے کام کا ریاست کھل کر اعتراف نہیں کر پاتی۔ اللہ ہی انہیں اس کا اجر دے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈبل گیم میں دونوں فریق آپ سے ناراض رہتے ہیں۔ امریکی اس پر ناراض کہ پاکستان نے طالبان کا خاتمہ نہیں کیا۔ ادھر پاکستان میں طالبان حامی حلقے اس پر ناخوش کہ پاکستان امریکہ کا بھلے نام کا سہی، مگر اتحادی کیوں بنا ہوا ہے؟ان میں سے بہت سے ان پیچیدگیوں ، حساسیت اور نزاکت کا ادراک کرنے سے قاصر تھے۔ عام افغان طالبان میں سے بھی ممکن ہے کچھ کو پاکستان سے شکوہ رہا ہو۔ طالبان لیڈروں میں سے بھی اکادکا ناخوش ہوسکتے ہیں ۔ انٹیلی جنس آپریشنز میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جن لوگوں نے سامراج کا مقابلہ کرنے والے جنگجوؤں کا ساتھ شرعی اور اخلاقی بنیاد پر دیا ، انہیں اس کا اجر خدا سے ملے گا۔ انسانوں سے ویسے بھی اجر مانگنا ہی نہیں چاہیے۔ جن لوگوں نے خالص پاکستانی نیشنل ازم کی بنیاد پر طالبان کے ساتھ خیرخواہی کی کہ یہ پاکستان کے دوست ہیں اور پڑوس میں ان کا آنا ہمارے لئے مفید ہوگا۔ انہیں بھی نوید ہو کہ وہ کام ہوگیا ہے۔ پاکستان کی مغربی سرحد ان شااللہ اب محفوظ ہوجائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ فتح اور کامیابی کے بہت وارث بن جاتے ہیں، کامیاب افراد ہمیشہ زیادہ کریڈٹ خود لیتے ہیں ۔ ناکامی کی صورت میں انسان اپنے آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو موردالزام ٹھہراتا ہے۔ خوش قسمتی سے طالبان کامیاب ہوئے۔ ان کا حق ہے کہ وہ کریڈٹ خود لیں۔ ہمیں اس نکتے کو سمجھنا چاہیے۔ اس حوالے سے بہت محتاط اور نپے تلے انداز میں بات کرنی چاہیے۔ان کے ساتھ دوست کا تعلق رکھنا چاہیے، بڑا بھائی یا پنجابی محاورے کے مطابق ماما بننے سے گریز کرنا چاہیے ۔ ”بگ برادر“ رویہ کسی کو نہیں بھاتا۔ آنے والے دنوں میں طالبان کو ہماری ضرورت پڑے گی ، ہمیں ان کی۔ امن قائم کرنے ، ملک کی تعمیر میں ہمیں ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے۔ یہی کامیابی کی کنجی ہے۔

Facebook Comments

محمد عثمان
اجی بے نام سے لوگ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply