تنقیح۔۔مختار پارس

محبت کا منطق سے کیا تعلق؟ہر وہ شئے جو سمجھ میں ٓا سکتی ہے، محبت نہیں ہے۔ جہاں ٓاغاز جنوں کی صورت ہو اور انجام حشر، وہاں کسی کو کیونکرکچھ بھی سمجھ میں ٓا سکتا ہے۔ مقصد غمِ عشق کو بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ سوز و ساز صرف نگاہ یار تک محدود ہے۔نگاہ کے اس پار رہنے والوں کواس سے سروکار ہی نہیں تو وہ کیا پوچھیں اور کیا سمجھیں۔محبت مضطرب کرنے پر پابند ہے۔ اگر خاطر بیقرار نہ ہو تو جسم و جاں بیکار ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں کو بھلا لگنا سراسر سطحی ہے۔ گلچیں کو تمیز نہیں کہ کس رنگ کے پھول کا کیا مطلب ہے۔ روح  آنکھ سے اوجھل رہتی ہے، اس کی طرف کوئی غور سے دیکھتا ہی نہیں کہ اس کا ٹھکانہ دل میں ہے۔ وہ کب پریشان ہوتی ہے اور کب مطمئن، اس کی خبر یا دل کو ہوتی ہے یا دلنشیں کو۔ ایسے میں کس کو سمجھ میں آ سکتا ہے کہ گوندنی کے درخت کے سایے میں بیٹھے فقیر کو کس سے محبت ہے؟

اس گمان میں نہ رہیے کہ ایک پتھر سب کی نظروں میں بھی پتھر ہی ہے۔ وہ پتھر کبھی پکھراج ہوتا ہے اور کبھی یاقوت۔ کوئی اس سے کسی کا سر پھوڑ دیتا ہے اور کوئی اس پر اپنا سر رکھ دیتا ہے۔ پتھر کہیں ریت ہے اور کہیں چٹان، کہیں آسرا کہیں بوجھ، کبھی اسود کبھی احمر۔ ٹھوکر مارنے والے کو کبھی راہرو سے محبت نہیں ہو گی۔ راہ میں پڑا پتھر اس سے کبھی نہیں پوچھ پائے گا کہ تم نے مجھ سے محبت کیوں نہیں کی۔ سنگ سرخ کو انگلیوں میں سجانے کی بابت بھی کوئی جواب نہیں مل سکے گا۔ پتھر ٹوٹتا کہیں ہے اور سجتا کہیں ہے۔ مٹی کا برتن ٹوٹ جائے تو اس کی ٹھیکریوں سے پانی کی محبت کی کھنک سنائی دیتی ہے۔ بچے ان ٹھیکریوں سے جھیل کنارے آ کر کھیلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کونسی ٹھیکری سطح آب پر کتنا دور اچھل سکتی ہے۔ اس بات میں کیا منطق ہوگی کہ پانی کو ان ٹھیکریوں سے محبت ہے۔

شیشہ ٹوٹ جائے تو کرچیوں میں بدل جاتا ہے۔ کسی کو کرچیوں سے محبت ہو جائے تو وہ ان کو بھی سمیٹ کر دیواروں پہ سجا دیتا ہے۔ ٹوٹے ہوئے پتھر جب ایک ترتیب سے ایستادہ ہوتے ہیں تو دیواریں تعمیر ہو جاتی ہیں۔ اگر کوئی جوڑنے والا ہو تو ٹوٹے ہوئے گلدان کو اس طرح سے جوڑے گا کہ دراڑیں ہنر کی اوٹ سے مسکرا اٹھیں گی۔ انسان بھی تو ٹوٹ سکتا ہے۔ اگر وہ کسی سے اپنی ٹھیکریاں اٹھانے کو کہہ دے تو منطق تو نہیں بنتی مگر لازم ہے کہ ہر شخص نے کسی نہ کسی کے قدموں میں ڈھیر ہونا ہے۔ گیلی مٹی کتنی دیر چاک پر گھومتی رہ سکتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب مٹی سے کھیلنے والا اسے محبت سے اٹھا لیتا ہے۔

ٹوٹے ہوئے برتن کو پھر سے جوڑنے کا نام زندگی ہے۔ بن ٹوٹے محبت تقسیم نہیں ہو سکتی اور اگر محبت تقسیم نہ ہو تو وہ محبت نہیں ہے۔ اگر محبت اپنی ذات تک محدود ہے تو وہ عبادت نہیں ہے۔ اگر عبادت کا محور عمل نہیں تو وہ ریاضت نہیں ہے۔ اگر ریاضت میں باطن شامل نہیں ہے تو وہ ساحل نہیں ہے۔ اگر ساحل پر کوئی نشان آرزو نہیں ہے تو وہ منزل نہیں ہے۔ اگر منزل معلوم نہ ہو تو پھر وہ مسافر نہیں ہے۔ مسافر اور مکین میں بس یہی ایک خط باریک ہی حائل ہے کہ اسے ادراک محبت ہے یا نہیں۔ مکین محبت کو توڑ دیتا ہے اور مسافر اسے چننے میں دیر نہیں لگاتا۔ مکین کے نصیب میں انتظار لکھا ہے اور مسافر انتظار کو اپنی کوزہ گری سے ترتیب دیتا ہے۔

ایک سایہ ہے جو آ کر گزر جاتا ہے اور پیچھے پلٹ کر دیکھنے نہیں دیتا۔ ایک آواز ہے جو گنبد سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے اور پھر سر نہیں اٹھانے دیتی۔ ایک نگاہ ہے جو تماشا کی روادار نہیں مگر سب دیکھ رہی ہے۔ منظر دھندلا جائیں تو بصیرت کو پر عطا ہو جاتے ہیں؛ اس راز میں کوئی منطق تو نہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ اندھیرے کو اجالے سے محبت ہے۔ گنبد میں پھڑپھڑاتی گونج کو سماعتوں کی نہیں بلکہ خوش انداز حیرانیوں کی تلاش رہتی ہے۔ ہمارے اپنے سایے ہمیں پریشان کر دیتے ہیں اور ہم یہ مانتے نہیں کہ یہ ہم ہی ہیں۔ محبت اس دروازے سے نمودار نہیں ہوتی جہاں ہم دیکھتے ہیں۔ آنکھ کی کیا مجال کہ حسن بیمثال کو تشکیل کر سکے۔ محبت پردے میں رہ کر وار کرتی ہے۔ لوگ اس سے انکار اس وقت کرتے ہیں جب ان کی آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتیں۔ ہر انکار محبت کے سفر میں پہلا قدم ہے۔ پہلے منظر دھندلاتا ہے، پھر آواز تڑپتی ہے اور پھر انسان ڈھیر ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خدا سے انکار خدا کی طرف لے آتا ہے اور محبت سے انکار محبت میں گرفتار کر دیتا ہے۔ اگر کوئی جانے بوجھے خدا اور محبت سے انکار کرے تو پھر اس کی طرف کچھ بھی لوٹ کر نہیں آتا۔ ٹوٹا ہوا تارا جل کر بھسم ہو جاتا ہے مگر مدار میں واپس نہیں آتا۔ انکار وہ تیشہ ہے جس سے پتھر کو تراشا جا سکتا ہے۔ ہر شخص وہ فنکار نہیں ہوسکتا جو پتھر سے صنم کو کرید کر سامنے لے آئے۔ یہ وہ رہٹ کی ڈولچی ہے جو سر کو جھکا کر گرتی ہے اور واپس آتی ہے تو سیراب کر دیتی ہے۔ جب کبھی انکار کی نوبت آئے تو یہ یاد رہے کہ کسی کی آس نہ ٹوٹنے پائے۔ تقاضا تسلیم بھی ہے اور تکریم بھی؛ یہ کبھو نہ ہو کہ آنکھوں میں توقع لیے شخص بدگمان ہو کر اٹھ جائے۔ اگر کسی کو بات سمجھا کر مسکراتے ہوئے رخصت کر دیا جائے تو یوں سمجھیں کہ یہ کوزہ گری ہے۔ ٹوٹے ہوئے برتن کو سنہری جوڑ سے مزین کر کے اور خوبصورت کر دیا تو نجات ہو گئی۔ کسی اور منزل کے مسافر کا ہاتھ پکڑ کر اس کو سہارا دینے میں کوئی منطق تو نہیں مگر اس میں مضائقہ کیا ہے؟!

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply