سِکّے۔۔سیّدہ نیّر عامر

“سنو بھائی!”
“جلدی بول! میرے پاس بیکار وقت نہیں ہے۔”
“میں اس شہر میں اجنبی ہوں۔ مہربانی کر کے مجھے بازار کا راستہ بتا دو!”
“یہ لین دین کی دنیا ہے بھئی، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے!”
“میں کچھ سمجھا نہیں؟”
“مطلب یہ ہے کہ میں تجھے راستہ بتاؤں گا تو اس کے بدلے میں، مجھے کیا ملے گا؟”

“میں گھر سے یہ چند سکے لے کر چلا تھا۔ نئے نکور، صاف اور چمکیلے ہیں۔ ان میں سے ایک تم رکھ لو، باقی کے عوض میں بازار سے سودا خرید لوں گا۔”

“یہ۔۔۔؟  دیکھ میرے بھائی! صاف ستھرے اور چمکیلے سے کچھ نہیں ہوتا۔ قدر تو اس سکے کی ہوتی ہے جو دنیا کے بازار میں چلتا ہے۔ تو یہ نجانے کونسی دنیا کے سکے لے کر آ گیا ہے۔ ان سے تو بازار جا کر بھی کچھ نہیں ملے گا۔ میری مان تو واپس گھر چلا جا! اور ادھر کا رخ تب ہی کرنا، جب اس بازار میں چلنے والے سکے، تیرے ہاتھ میں ہوں۔”

“اچھا سنو! میری زنبیل میں کچھ اور سکے بھی ہیں۔ مگر وہ اتنے میلے کچیلے ہیں کہ لباس اور ہاتھ گندے ہونے کے خیال سے میں نے انھیں جیب میں رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ تم چاہو تو ایک نظر ان پر بھی ڈال لو!”

Advertisements
julia rana solicitors

“ارے واہ! یہ تو کمال ہو گیا۔ یہی تو وہ اصل سکے ہیں جو اس دنیا کے بازار میں چلتے ہیں۔ رشوت، خوشامد، سفارش، سماجی برتری جیسے قیمتی سکے چھپا کر تو، احمق آدمی چلا تھا، خلوص، محبت، احترام، عزت، وفاداری جیسے بیکار سکے لے کر بازار میں چلانے!۔۔۔اونہہ !”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply