مجسم آوازیں۔۔شاہین کمال

میری طبیعت  بہت دنوں سے خراب تھی اور میں انتظار کی کوفت سے خائف ہسپتال جانے سے گریزاں تھا، پر جب سینے کی دکھن بڑھی اور سانس بھی غیر متوازن ہوئی تو ہسپتال کی راہ لینی ہی پڑی۔
حسب ِ معمول ایمرجنسی میں رش تھا اور اس کووڈ کا پروٹوکول الگ درد سر۔ اسکریننگ screening کے بعد انتظار گاہ کے ماسک شدہ ہجوم میں مَیں بھی ضم ہو گیا۔ اٹھتے بیٹھتے پہلو بدلتے، آتے جاتے لوگوں  کو آنکتے جانچتے بالآخر ڈھائی گھنٹے بعد ایمرجنسی وارڈ لے جایا گیا، وہاں وہی تیز تیز چلت پھرت اور مشینوں کی حکمرانی تھی جو ایمرجنسی وارڈ کا خاصہ ہوتی ہے۔ ابتدائی تشخیص کے بعد خون کی جانچ کے لے  لیے پانچ مختصر ٹیسٹ ٹیوب میں خون لیا  گیا ،پھر مجھے تین طرح کی مشینوں میں جکڑ کر آرام کرنے کا جاں فزا ء مشورہ دیتے ہوئے پردہ برابر کر کے مسیحا چل دیئے۔

کچھ ہی دیر میں مَیں ماحول سے ہم آہنگ ہو کر مشینوں کی گر گر اور بیپ کا عادی ہو گیا اور جو ابتدائی اضطراری و ہیجانی کیفیت تھی وہ جاتی رہی۔ پردے کی جھری سے فرنٹ ڈیسک پر موجود سنگ مرمر کی مورت کی کبھی سنہری موٹی چوٹی دکھتی تو کبھی تیزی سے حرکت کرتے ہاتھ ۔ سارے اسٹاف نے بڑے رنگ رنگیلے اور قسم قسم کے ماسک پہنے ہوئے تھے۔ ماسک کی اتنی اقسام تو میں نے ڈاؤن ٹاؤن میں بھی نہیں دیکھی تھیں، جتنی اس ایمرجنسی وارڈ میں تھیں ۔ اب تو خیر ڈاؤن ٹاؤن بھی گھوسٹ سٹی ہی کا نقشہ پیش کرتا ہے، کوویڈ کی وجہ سے نہ وہ گہماگہمی رہی اور نہ ہی وہ ہماہمی۔

میرے پردے کے پار برابر والے بیڈ سے وقفے وقفے سے کراہنے کی آوازیں آ رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ دو ڈاکٹر اس مریض سے مکالمہ بھی کر رہے تھے۔
ہائی جیکب، جیکب کوہن!! ہیں نا
جیکب نے اپنی کمزور آواز میں اپنے جیکب ہونے کا اقرار کیا۔
عمر پوچھے جانے پر وہ تذبزب کا شکار تھا۔ پھر ڈاکٹر نے دن اور مہینے کا نام پوچھا؟
اس کا جواب اس نے ٹھیک ٹھیک دے دیا ۔ حادثے کی تفصیل کچھ یوں تھی کہ رات کا کھانا کھا کر وہ ٹی وی کے آگے بیٹھا مئے نوشی سے شغل فرما رہا تھا کہ ٹی وی کے بور پروگرام سے بےزار ہوکر سونے کے خیال سے اوپر اپنے بیڈروم کی طرف چل دیا۔ ابھی آدھی سیڑھیاں ہی عبور کیں تھیں کہ جانے کیسے پیر رپٹا اور بینسٹر کا سہارا لینے کے باوجود وہ نیچے آ رہا اور سر بری طرح ڈائننگ ٹیبل کے پائے سے ٹکرا گیا۔ ڈاکٹر اس سے مختلف سوالات کرتا گیا اور حاصل کلام یہ ٹھہرا کہ وہ dementia کا مریض بھی ہے کہ اس کے بہت سارے جوابات اس کی فائل میں درج جوابات سے میل نہیں کھاتے تھے۔ اس کے سر کے پچھلے حصے میں گہرا زخم تھا جس کی صفائی کے بعد پانچ ٹانکے لگے۔

یہ دوسری جنگ عظیم کا ریٹائرڈ میجر تھا۔ بولنے کو ترسا ہوا ،جو اس دور کے بڈھوں کا مشترکہ المیہ ہے۔ میل نرس کو اپنی نحیف آواز میں بتا رہا تھا کہ وہ جیسے ہی جنگ سے لوٹا دوسرے ہی ہفتے اس نے اپنی ہائی اسکول کی سوئیٹ ہارٹ آئرین سے شادی کر لی۔
ہمارا باسٹھ سال کا ساتھ رہا، بہت پُر محبت اور خوشگوار۔ میں سمجھتا تھا آئرین دنیا میں سب سے زیادہ مجھے چاہتی ہے مگر میں غلط تھا، جب اولاد بیچ میں آ جاتی ہے  نا تو اولاد کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے۔ بس ہمارا اکلوتا بیٹا جیری جس کو موت نےکولن کینسر کے بہانے ہم سے جھپٹ لیا، وہ کیا گیا کہ میری نائٹ انگیل night ingale بھی خاموش ہو گئی ۔ اب دس سال سے میں ہوں اور در و دیوار بس کرسمس پر پوتی آ جاتی ہے تو گھر میں آوازیں جاگ جاتی  ہیں۔
میرا ذہن جیکب کا خاکہ بنا رہا تھا ،دراز قد جو اب قدرے خمیدہ تھا ، نیلی کنچے جیسی آنکھیں جو یادوں سے کہر آلودہ ہیں ، اڑے بال اور جھپکتی مضمحل مسکراہٹ۔ ایک تھکا ہارا بےبس وجود جو اب اپنی نائیٹ انگیل کو بھی کلی طور پر یاد نہیں رکھ سکتا تھا۔
اکلاپے کا دکھ بھی جان لیوا آزار ہے۔

ایک دم سے ایمرجنسی روم میں ایک اسٹریچر آیا جس کے ساتھ ایک روتی ہوئی آواز تھی، جس کی بولی میرے لیے اجنبی تھی۔ اس کے ساتھ پولیس والے اور ایمبولینس کریو بھی تھا۔ ایمرجنسی روم کی چلت پھرت ایک دم بہت بڑھ گئی۔ اب وہ عورت ڈاکٹر کو کچھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتا رہی تھی۔ ایک نرس اس کو تسلی دیتی ہوئی بیڈ سے دور شاید کاؤچ پر بٹھا رہی تھی۔
اوہ! میرا دل ڈوب گیا۔
یہ خود کشی کا کیس تھا اور ڈاکٹر اس کا پیٹ واش کر رہے تھے۔ میں بڑی کوششوں سے پردے کی جھری سے جھانکنے کی تگ ودو میں مصروف تھا، یہ کمبخت مشینیں بھی میری حرکت میں آڑے آ رہیں تھیں۔ بڑی مشکلوں سے مجھے اس عورت کی آدھی پونی جھلک نظر آئی۔ وہ کسی افریقی ملک کی باسی لگتی تھی جو اب یہاں اس اجنبی سرد ملک میں پناہ ڈھونڈھتی پھرتی ہے۔ اس کے سر پر اسکارف تھا اس کا مطلب ہے یہ مسلمان ہے۔ آج کل کینیڈا میں مسلمانوں کا influx بہت بڑھ گیا ہے۔
ٹروڈو کی انسان دوستی کا اگر یہی عالم رہا تو کہیں ہم لوگ ہی اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائیں ۔ ابھی میں یہیں تک سوچ پایا تھا کہ ضمیر نے کچوکا دینا لازمی جانا کون سا یہ تمہارا جدی پشتی ملک ہے؟تم لوگوں نے بھی تو یہاں کے اصل باشندوں کو بےبس و رسوا کر کے نشے اور جہالت کی تاریکی میں دھکیل دیا ہے۔ ان غریبوں کے حالات تو تھرڈ ورلڈ کنٹری کے باشندوں سے بھی بدتر ہیں  ۔
بڑے آئے امن کے  چیمپئن ۔
ایک تو میں اپنے ضمیر کے دخل در معقولات سے بے طرح تنگ ہوں۔
شش! خاموش رہو مسٹر ضمیر۔
مجھے معاملے کی سن گن لینے دو۔
پولیس والا ڈاکٹر کے فارغ ہونے کے بعد اس کو تفصیلات بتا رہا تھا پر برا ہو میرے اونچا سننے کے مرض کا۔ خیر جتنی کہانی میرے سمجھ آئی وہ یہ تھی کہ یہ خاندان یمن سے جان بچا کر بھاگا تھا اور یہاں تازہ تازہ پناہ گیر کی حیثیت سے سٹیل ہونے کی کوشش میں ادھ موا ہوا جاتا تھا۔ یہ لڑکی جو اپنا معدہ صاف کروا کر اب بےسدھ پڑی ہے اس کو اسکول میں لڑکیوں نے بری طرح bully کیا تھا۔ اس کے رنگ کا، اس کے انگریزی کے ایکسنٹ کا بہت مذاق بنایا گیا اور سب سے بڑا حدف اس کا پہناوا تھا یعنی اس کا لباس۔ وہ لڑکیاں اسے اس قدر ہراساں کرتی  تھیں کہ وہ بچی روتے ہوئے اپنا لنچ ٹائم واش روم میں گزارتی تھی اور وہ اپنی فیلوز کے رویے سے اس قدر دل برداشتہ ہوئی کہ اس کو موت ہی نجات لگنے لگی۔ پولیس نے اس کیس کو ہیٹ کرائم کے طور پر درج کیا ہے مگر میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ کیس کس کروٹ بیٹھے گا کہ مظلوم اور مجرمان سب ہی انڈر ایج تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ رویہ امریکہ میں تو عام ہے مگر کینیڈا میں تو اتنا تعصب نہیں تھا؟
یہ نوخیز ذہنوں کو کون زہر آلود کر رہا ہے؟

نرس نے ایک مشین سے تو مجھے آزاد کر دیا تھا لیکن میری آکسیجن سیچوریشن ابھی بھی کم تھی لہذا مجھے رات یہیں ایمرجنسی وارڈ میں بتِانی تھی۔ میں نے کہا مجھے ریسٹ روم استعمال کرنا ہے۔ اس کی مدد سے میں واش روم ہو آیا۔ واپسی میں جیکب پر نظر ڈالنا نہیں بھولا۔ وہ واقعی لمبا تھا مگر میں شکل نہیں دیکھ سکا کہ وہ پیٹ کے بل سو رہا تھا۔ سامنے ہی کاؤچ پر بھاری بدن کی وہ یمنی عورت ابھی تک سراسیمہ بیٹھی تھی اور اس کے ہونٹ ہل رہے تھے اور وہ بار بار اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔ اس کی بےچارگی نے دل کو رنجور کیا۔ اپنی جڑوں سے اکھڑنا اور بالکل نئے ماحول اور انجانے کلچر میں کھپنے کی کوشش یقیناً اعصاب شکن و جگر پاش ہوتی ہوگی۔
بےوطنی بھی کیسی بےوزنی عطا کرتی ہے۔
نرا عذاب ہی ہے۔

میں نے بیگانے دکھوں سے آزاد ہو کر سونے کی شعوری کوشش کی اور خاصی حد تک کامیاب بھی رہا کہ یکلخت ایک کرخت اور جھنجھلائی ہوئی آواز نے خوابوں کی پُر آسائش دنیا سے دوبارہ مجھے ایمرجنسی وارڈ میں لا پٹخا۔
اوہ! میرے دائیں ہاتھ کا خالی بیڈ آباد ہو چکا تھا۔ میں نے گھڑی دیکھی میں تقریباً  اڑھائی گھنٹے سویا تھا۔ پردے کے نیچے سے اس کے بےترتیب پڑے بھاری سول اور میٹل ٹو والے جوتے نظر آ رہے تھے۔
اس کی تیز آواز اور F…YOU کے بےمہابانہ استعمال پر نرس نے اسے اپنا لہجہ مدھم رکھنے کے لیے تنبیہ کی۔ مجھے چیک کیا اور مجھے باقی ماندہ دونوں مشینوں سے آزاد کرکے آکسیجن سیچوریشن کی بحالی کی نوید سنائی۔
تمہاری بلڈ رپورٹ ساری ٹھیک ہے بس تمہیں ڈاکٹر دیکھ لے ،پھر اُمید ہے کہ تمہیں چھٹی مل جائے گی۔ میں نے ممنون نظروں سے نرس کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔ ایمرجنسی وارڈ کی سخت دیوٹی اپنے اسٹاف سے بڑی بھاری قیمت لیتی ہے۔

جیکب کے خراٹے تسلسل سے جاری تھے۔ پتہ نہیں وہ یمنی بچی کیسی تھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ پڑوس کے بیڈ پر ڈاکٹر اور اسٹاف آ گئے۔
موصوف کا نام ایورن تھا اور میرا قیاس سہی تھا وہ کنسٹرکشن ورکر ہی تھا اور اپنے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا زخمی کر بیٹھا تھا۔ مگر اپنی تکلیف سے زیادہ وہ اس خیال سے بےکل تھا کہ اس کی بیٹی جس ڈے ہوم میں تھی اس کی نینی کو ایمرجنسی میں شہر چھوڑنا تھا۔ سو اس نے اپنی ایکس وائف کو فون کیا مگر وہ اپنے موجودہ بوائے فرینڈ کے ساتھ اتوار منا رہی تھی اور اپنی بیٹی کو پک کرنے سے صاف انکاری تھی۔ لہٰذا مارے غصے کے وہ بلا تکلفF۔۔۔۔۔۔۔, Bitch
کا بےدریغ استعمال کر رہا تھا۔ اس کے غصے کے پیچھے ایک بے بس باپ کی بےکسی تھی۔ وہ ایمرجنسی میں قید تھا جب تک وہ انگوٹھے کے ایکس رے اور ٹانکے سے فارغ نہیں ہوتا یہاں سے نکلنا ممکن نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنے کسی دوست کو فون کیا اور بڑی لجاجت سے اپنی بیٹی کو ڈے ہوم سے پک کرنے اور اس کی واپسی تک اپنے گھر رکھنے کی درخواست کی جو شکر کہ اس کے دوست نے بغیر کسی پس و پیش کے مان لی۔
اب اس کی آواز کا توازن اس کے پُرسکون ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر نے مجھے نسخے اور نصیحتوں کے ساتھ فارغ کر دیا۔ چلتے ہوئے میں نے ایک جھلک اس یمنی بچی کی دیکھی اور دل اس کے دکھ سے بھر گیا۔
باہر میں ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ مجھے گیٹ کے پاس وہ یمنی عورت نظر آئی اس کے ساتھ پریشان حال سا غالباً اس بچی کا باپ ہی تھا۔ میں بے اختیار اس کی طرف بڑھا۔ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر اس نے آئی کونٹیکٹ( eye contact) سے گریز کیا اور اپنے ہی جسم میں جیسے سکڑ سا گیا۔
میں نے گرم جوشی سے اس سے ہاتھ ملایا اور اس کا کندھا تھپکتے ہوئے تسلی دی اور یقین دہانی کرائی کہ اس کی بیٹی بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ پھر ذرا رک کر اپنی ہم قوم بچیوں کے سفاکانہ رویے کی معذرت چاہی۔
میرے اتنے چھوٹے سے عمل سے اس کا بجھا چہرہ بالکل روشن ہو گیا اور اس کے چہرے پر ایک پر یقین اور مہربان مسکراہٹ پھیل گئی۔
شاید میں اسی ایک کام کے لیے ہسپتال بھیجا گیا تھا۔
از قلم شاہین کمال۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply