ادب میں” المیہ”۔اکرام الحق

یہ حقیقت ہے کہ دنیائے ادب میں المیہ کا آغاز یونانی ڈرامہ کو مانا جاتا ہے ۔یہ یونانی ڈرامہ نگار ہی تھے جنھوں نے اپنی تخلیقات میں المیہ کے عنصر کو متعارف کروایا اور اصل میں انھوں نے عالمی ادب میں المیہ کی روایت کی داغ بیل ڈالی۔ اس سے پہلے عالمی ادب میں المیہ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یونان ہی میں ہمیں ہومر اور ہیسوئڈ کی اعلی ترین تخلیقات ملتی ہیں جوطویل نظموں پر مشتمل ہیں۔
انسانی زندگی بلاشبہ المیوں سے عبارت ہے اور المیہ کا دوام انسانی زندگی کو بحیثیت مجموعی اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے ۔ انسان مالی طور پر بےحد امیر کبیر ہو سکتا ہے اور اس امارت کی وجہ سے اس میں نخوت و تکبر بھی سرایت کرسکتی ہے اور وہ رعونت کے زیر اثر خود کو معمول کے مطابق سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری کرتا چلا جاتا ہے ۔ لیکن جب وہ دوسروں پر عرصہ حیات تنگ کرتا ہے اور ظلم کے بیج بوتا ہے تو وہ خود کو کیسے المیے سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔پھر وہ ذہنی جسمانی اور نفسیاتی المیوں کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس مفلس ، نادار اور محروم طبقات پہلے ہی قدم قدم المیوں سے دوچار رہتے ہیں اور ان کی زندگی میں المیے کا عمل دخل کافی زیادہ ہوتا ہے ۔ ادیب ، دانشور اور شاعر ان المیوں کو ہی اپنے قلم کی نوک پر سجاتے ہیں اور اپنے فن کی جوت جگاتے ہیں ۔

عالمی ادب میں ہمیشہ المیے ہی دوام پاتے رہے ہیں اور ان کو ہی ادب عالیہ کے اس مقام پر رکھا جاتا رہا ہے جس سے طربیے ہمیشہ محروم رہے ہیں ۔ادبی لحاظ سے ابدیت پانے والے طربیے المیوں کے مقابلے میں تو آٹے میں نمک کے برابر ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ اپنے ایک مضمون میں نجم الدین احمد رقم طراز ہیں ؛
“شعر و ادب میں المیوں کی ایک طویل فہرست میرے سامنے موجود ہے جیسے ہومر کی اوڈیسی ، جان ملٹن کی پیراڈائز لاسٹ ، کیٹس کی اوڈز، شیکسپیئر کا ہیملٹ، ٹالسٹائی کا اینا کیرنینا، گبریل گارشیا مارکیز کے ناول “ون ہنڈرڈ ائیرز آف سالیٹیوڈ” اور “لو ان دا ڈیز آف کالرا” ، کامیو کا پلیگ اور دنیا بھر کی عشق و محبت کی داستانیں چاہے وہ مغرب کی رومیو جولیٹ ہو یا مشرق کی شیریں فرہاد ، ہیر رانجھا، سسی پنوں ، مرزا صاحباں ، قصہ سیف الملوک، ماروی عمر ، نوری جام تماچی ۔ میں نے دنیا بھر کے کلاسیکل ادب سے جدید ادب تک محض چند دانے شمار کیے ہیں وگرنہ المیوں کے ایسے ایسے شہ پارے خلق ہوئے ہیں کہ ادب عالیہ کے شمار کی تسبیح کے دانے بھی تھکنے لگیں ۔ ”

مغربی دنیا میں المیہ ادب کی بڑی اور مقبول صنف ہے۔ مغرب میں المیے کی روایت یونان سے آئی، جہاں اس کی سب سے بڑی علامت ہومر کی ’’اوڈیسی‘‘ ہے۔ تاہم جدید مغرب میں المیے کی سب سے مقبول علامت رومیو جولیٹ ہے۔ رومیو جولیٹ ایک عشقیہ داستان ہے، اور اس داستان کا ’’المیہ‘‘ یہ ہے کہ رومیو اور جولیٹ کی شادی نہیں ہوپاتی اور ڈرامے کے اختتام پر دونوں ناگہانی ’’کہلانے والی‘‘ موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود بلکہ اس ’’المیہ انجام‘‘ ہی کی وجہ سے رومیو اور جولیٹ مغرب میں محبت کی سب سے بڑی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ مغرب میں ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر سال ہزاروں مقامات پر اسٹیج ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود ’’پرانے‘‘ محسوس نہیں ہوتے۔

ادب انسانی زندگی کو براہ راست متاثر کرتا ہے اور یہ معاشروں کو شعور کی آگاہی فراہم کرنے کا ذریعہ بھی رہا ہے۔ یونانی تہذیب کے اثرات انسانی ترقی پر بے حد نمایاں ہیں اور ادبی دنیا کو جہتیں عطا کرنے میں بھی اس کا کردار بڑا واضح ہے۔ یونانیوں نے تقریباً ڈھائی ہزار برس قبل ہی المیہ نگاری کے فن میں ملکہ حاصل کر لیا تھا اور اس کی بڑی وجہ ہومری ادب ہے۔ہومر کی نظم ایلیڈ جنگ کی ہولناکی اور مفتوحہ ریاست ٹرائے کی بربادی کامعروف قصہ ہے مگر متاثر کن امر یہ ہے کہ شکست خوردہ قوم کے مصائب کا تذکرہ اس پرآشوب انداز میں کیاگیا جو آنے والے دنوں میں شاعری اور ڈرامے کے فن کو المیہ نگاری کی روح عطاکرگیا۔

شاعری میں ارسطو نے المیے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ المیے کی تعریف کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔
“المیہ ایک ایسے عمل کی تقلید کرتا ہے جو سنجیدہ اور مکمل ہو ایک خاص طوالت اور ضخامت کا حامل ہو۔ اس کے مختلف حصے زبان وبیان کے مختلف وسائل سے مزین ہوں اس کی ہیئت بیانیہ ہونے کے بجائے ڈرامائی ہو اور یہ رحم اور خوف کے مناظر کے باعث ان جذبات کے تذکیے کا موجب ہو۔”

المیہ کے نتائج چونکہ زیادہ اثر انگیز اور دیرپا ہوتے ہیں اس لیے ادب کے میدان میں بھی ہمیشہ المیے کو فوقیت رہی ہے ۔ اگرچہ آج کے دور میں المیے میں بھی جدت پیدا ہوئی ہے اور مال و زر کے اثرات بھی آ موجود ہوئے ہیں ۔ عشق و محبت کا المیہ بھی آج کے اخلاقی گراوٹ کے دور میں الجھتا دکھائی دیتا ہے ۔ جس طرح سماج کے معیارات بدلے ہیں اسی طور المیے کی صورتحال میں بھی ردو بدل کی سی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ موت وحیات کا المیہ تو ہر دور میں اسی طور رہا ہے جس طرح روز اول سے ہے البتہ دولت ، اقتدار ، رتبہ اور مقام کے تعین میں ترجیحات کی تبدیلیوں نے اسی لحاظ سے المیے کی صورت بھی بدل ڈالی ہے ۔

سید امتیاز علی تاج نے ڈرامہ انار کلی میں المیہ کی جو کیفیات پیش کی ہیں ان میں نفسیاتی، اخلاقی اور تاریخی المیہ کو بہ طور خاص اجا گر کیا گیا ہے۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہوس زر نے انسانیت کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چار کر دیا ہے۔ بے حسی کا عفریت چاروں جانب منڈلا رہا ہے۔ ہمارے زمانے کے شعرا کی شاعری میں خلوص اور دردمندی، قوی مشاہدہ، آفاقی اور کائناتی انداز فکر، متنوع تجربات اور دلدوز مشاہدات کے جو کرشمے موجود ہیں وہ ہمیں میرا جی، مجید امجد ، وزیر آغا اور فیض احمد فیض کے ہاں بہت گہرائی کے ساتھ ملتے ہی ملتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کے دور میں عشق و محبت کے المیے کو دولت و ثروت اور پرتعیش و پر آسائش زندگی بسر کرنے کے آسیب نے نئی جدتوں کے ساتھ نگلنا چاہا ہے ۔ محبت ، زر رسیدہ ہو گئی ہے اور رشتے ناطے اب پہلے سے بہت بڑھ کر معاشی حالت اور سہولت کے زیر اثر اپنے مقام کا تعین کرتے نظر آتے ہیں ۔ بلاشبہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ جیسے عشق و محبت کو زر جیسے طاعون کی بیماری لاحق ہو رہی ہے اور اس بیماری کے پھیلتے ہوئے سائے قدیمی جذبوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں ۔

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply