فلسطین (11) ۔ اقوامِ متحدہ/وہاراامباکر

برطانیہ کے خلاف فلسطینی مسلح جدوجہد 1939 تک ختم ہو چکی تھی۔ اس میں عرب نوجوانوں کی بڑی تعداد ہلاک یا زخمی ہوئی تھی۔ اور انہیں غیرمسلح کر دیا گیا تھا۔ اس میں مرنے والوں میں پانچ ہزار عرب، چار سو یہودی اور دو سو برٹش تھے۔ تین سال تک جاری رہنے والی اس تحریک سے نکلنے والے کئی نتائج تھے۔
اس دوران یہودی ملیشیا بنی تھیں، خاص طور پر ہاگنا جس نے 1948 کی جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ دوسرا یہ کہ اس سے یہ طے ہو گیا تھا کہ یہ دونوں قومیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں۔ اس سے تقسیم اور دو الگ ممالک کے قیام کے آئیڈیا نے جنم لیا۔ تیسرا یہ کہ عرب مطالبات تسلیم کرتے ہوئے برطانیہ نے یہودیوں کی آمد پر پابندی لگا دی تھی۔ زمینوں کی ٹرانسفر روک دی گئی تھی۔ اس سے برٹش اور یہودی تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگِ عظیم دوئم شروع ہو گئی۔ اٹلی نے اتحاد جرمنی سے کیا۔ دس جون 1940 کو اٹلی کی طرف سے فلسطینی علاقے پر پہلی بمباری ہوئی جو حیفہ اور تل ابیب میں کی گئی تھی۔
جنرل رومیل کی قیادت 1942 میں جرمن فوج شمالی افریقہ میں سوئز نہر کی طرف بڑھ رہی تھی۔ خیال تھا کہ یہ فلسطین کو فتح کر لے گی۔ اس دور کو “خوف کے دو سو دن” کہا جاتا ہے۔ دفاع کے لئے برٹش نے یہودی ملیشیا ہاگنا سے جنگجو لے کر پالماک بنائی۔ یہ برٹش کی تربیت یافتہ ایلیٹ فورس تھی۔ جو بعد میں پہلی عرب اسرائیل جنگ میں صیہونی فورس بنی۔
یہاں پر سوال کہ برٹش نے دوسری جنگِ عظیم میں فلسطینیوں کے مقابلے میں یہودیوں سے زیادہ مدد کیوں لی؟ اس کے لئے ہم کچھ پس منظر یروشلم کے مفتی حاجی امن الحسینی کا لیتے ہیں جنہیں فلسطینی نیشلزم کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ بیک وقت صیہونی، برٹش اور اردن کے شاہ عبداللہ کے شدید مخالف تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب دنیا میں سیاسی جماعتیں نہ ہونے کی وجہ سے میچور سیاسی قیادت نہیں تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہاں پر صدیوں تک حکومت بہت دور (استنبول) سے کی جاتی رہی تھی۔ جس طرح ترکی میں سیاسی عمل شروع ہوا تھا، ویسا عرب میں نہیں ہو سکا۔ (مصر میں باقاعدہ سیاسی جماعت کی موجودگی کی بڑی وجہ اس علاقے کا بڑی حد تک خودمختار رہنا تھا)۔ پاکستان، انڈیا، آئرلینڈ وغیرہ میں تاریخ کے اس دور میں جاری سیاسی عمل کی وجہ سے میچور سیاسی قیادت رہی لیکن اس کے برعکس فلسطین سمیت زیادہ تر عرب علاقے اس سے بڑی حد تک محروم رہے۔ فلسطینیوں کی قیادت ڈی فیکٹو طور پر امین الحسینی کے پاس آئی۔
مفتی امین نے جنگِ عظیم اول میں عثمانی فوج کی طرف حصہ لیا تھا۔ بعد میں عثمانیوں کے خلاف اٹھنے والی عرب بغاوت میں شامل ہو گئے۔ جب برٹش نے یہاں سپریم مسلم کونسل بنائی تو اس کے صدر منتخب ہوئے۔ برٹش نے انہیں یروشلم کا مفتی بنایا تھا۔ 1922 سے 1936 تک برٹش کے حامی رہے۔ بعد میں راہ الگ کر لی اور برٹش مخالف ہو گئے۔ جہاں پر کئی مسلمان قائدین یہودیوں کے ساتھ معاملات مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کے حق میں تھے، امین اس بارے میں بالکل بے لچک تھے۔ تمام برٹش تجاویز اور اقدامات مسترد کر دئے۔ برٹش اور اقوامِ متحدہ کے آگے فلسطینی مقدمہ پیش کرنے والے ڈاکٹر حسین اور العالمی کے مخالف ہو گئے۔ انہیں برٹش ایجنٹ قرار دے دیا، جس سے ان دونوں کی پوزیشن بے وقعت ہو گئی۔
انہوں نے فلسطین کاز کو سے بڑا نقصان اس وقت پہنچایا جب انہوں نے دوسری جنگِ عظیم میں فاشسٹ اٹلی اور نازی جرمنی کی حمایت کر دی۔ اگرچہ نازی آئیڈیولوجی میں عرب کمتر نسل تھے لیکن امین کی نظر میں برٹش کی مخالفت کے لئے کچھ بھی کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے اٹھائیس نومبر 1941 کو ایڈولف ہٹلر سے ملاقات کی۔ دوسری جنگِ عظیم میں برلن میں رہائش اختیار کی اور ریڈیو برلن پر یہودیوں کے خلاف پروگرام نشر کیا کرتے۔ بوسنیا کے مسلمانوں کو نازی فورس میں شامل کے لئے تحریک چلائی اور نازی پراپگنڈا کا عربی میں ترجمہ کر کے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ بھیجتے تھے۔ اقوامِ متحدہ کی کوششوں کی مخالفت کی، ان سے تعاون کرنے سے انکار کیا اور پھر ان کے پیشکردہ پلان کو مسترد کر دیا۔ اسرائیل بن جانے کے بعد غزہ میں قائم کردہ جلاوطن فلسطین حکومت کے سربراہ بنے۔ اور بعد میں لبنان چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امین فلسطینی قوم پرست فلسطینی تھے اور ان کی اپنی نظر میں فلسطین کسی بھی اور چیز سے بڑھ کر تھا لیکن ان کے فیصلوں کے کئی نتائج رہے۔ جنگِ عظیم دوئم میں پاکستان، انڈیا یا دوسری کالونیوں نے فاشسٹ اور نازی اتحاد کو کالونی قبضہ ختم کروانے کے مسیحا کے طور پر نہیں دیکھا تھا۔ یہاں کے شہری بیک وقت جنگ میں برٹش کے ساتھ تھے اور ساتھ ہی برٹش سے قبضہ چھوڑنے کا مطالبہ بھی رکھتے تھے۔ فلسطینی لیڈر کی طرف سے اعلانیہ حمایت نے فلسطینیوں کا تاثر جیتنے (اور فیصلہ کرنے والوں) کی نظر میں خراب کیا۔ دوسرا یہ کہ برٹش فوج میں یہودیوں کی شمولیت کا مطلب یہ تھا کہ جب سب سے اہم عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو یہودیوں کے پاس دوسری جنگِ عظیم لڑنے کا، پلاننگ کا، جدید ہتھیاروں کے استعمال اور دیکھ بھال کا تجربہ یہودیوں کے پاس تھا۔ تیسرا یہ کہ آج بھی اسرائیلی یہودی یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہٹلر کو یہودیوں کے قتلِ عام پر اکسانے والے امین الحسینی تھے (یہ الزام بالکل غلط ہے)۔ ہٹلر سے ان کی ملاقات اور نازی پراپیگنڈا کے عربی ترجموں کو ثبوت کے طور پر دکھایا جاتا ہے، کہ یہودیوں کے دوسری جنگِ عظیم کے وقت کے مصائب کی ذمہ داری فلسطینیوں پر عائد ہوتی ہے۔ (یہ الزام حال میں نیتن ہاہو نے بھی دہرایا ہے)۔
امن کا انتقال 1974 میں ہوا تو اس سے بہت پہلے فلسطینیوں کی قیادت یاسر عرفات لے چکے تھے۔ آج فلسطین میں یاسر عرفات کا بہت احترام کیا جاتا ہے لیکن امین الحسینی متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہودی بریگیڈ کو اگلے مورچوں پر لڑنے جولائی 1944 میں بھیجا گیا۔ اس نے اٹلی، یوگوسلاویہ اور آسٹریا کی سرحد کے قریب جنگ میں حصہ لیا۔ کئی فلسطینی عربوں نے بھی اطالوی فرنٹ پر جنگ میں حصہ لیا لیکن فلسطین ریجمنٹ میں زیادہ تعداد یہودیوں کی تھی۔ نازی فوج کے خلاف جنگ میں سائیڈ چننے کے بارے میں پر یہودیوں میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ جنگِ عظیم کے تجربہ کار فوجیوں نے 1948 کی جنگ میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ سے آزادی کے لئے یہودی مسلح بغاوت جنگِ عظیم کے خاتمے سے پہلے لیہے اور ارگن ملیشیا شروع کر چکی تھی۔ لیہے کے ممبران کی طرف سے چرچل کابینہ کے برٹش وزیر لارڈ موئین کا قاہرہ میں چھ نومبر 1944 کو کیا گیا قتل اس کا پہلا بڑا واقعہ تھا۔ برٹش اہلکاروں کے قتل اور بم دھماکے یہودی ملیشیا کا طریقہ کار تھا۔
ارگن نے 1946 میں برطانوی انتظامیہ کا ہیڈکوارٹر کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا جس میں 92 ہلاکتیں ہوئی۔ برٹش نے اس کے جواب میں سخت ایکشن لینا شروع کئے۔ قبرص میں بارہ کیمپ بنائے گئے جس میں غیرقانونی یہودی تارکینِ وطن کو پکڑ کر رکھنا شروع کیا۔ لیہے نے اقوامِ متحدہ کی طرف سے آنے والے کاونٹ برناڈٹ کو یروشلم میں قتل کر دیا (یہ کرنے والوں میں اسرائیل کے مستقبل کے وزیرِاعظم اسحاق شامیر بھی تھے)۔
برٹش کو علاقے پر کنٹرول رکھنے کے لئے ایک لاکھ کی فوج رکھنا پڑ رہی تھی۔ عکا شہر میں جیل خانہ توڑنے اور برٹش سارجنٹوں کو پھانسیوں پر لٹکانے کے واقعے کے بعد برطانیہ نے اعلان کر دیا کہ وہ یہاں برٹش مینڈیٹ ختم کر رہے ہیں اور اگست 1948 سے پہلے پہلے وہ یہ علاقہ خالی کر دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ نے یہ مسئلہ نئے قائم کردہ ادارے کو فلسطین کا مسئلہ 1947 میں تھما دیا تھا۔ اس پر سپیشل کمیٹی بنی جس میں گیارہ ممالک شامل تھے۔ انہوں نے کئی مہینوں بعد فلسطین پر رپورٹ شائع کی۔ اس میں سفارش کی گئی تھی کہ برٹش مینڈیٹ ختم کیا جائے اور ملک کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ ایک عرب ریاست اور ایک یہودی ریاست۔ یروشلم اور بیت اللحم کے شہر دونوں میں سے کسی ریاست کے پاس نہ ہوں بلکہ انٹرنیشنل کنٹرول میں دئے جائیں۔ اس قرارداد کے حق میں کینیڈا، چیکوسلواکیہ، گوئٹے مالا، نیدرلینڈز، پیرو، سویڈن اور یوراگوئے تھے۔ اس کے متبادل تجویز یہ تھی کہ ایک ہی ریاست بنائی جائے جس میں عربوں اور یہودیوں کو اپنے علاقوں میں الگ الگ خودمختاری دے دی جائے۔ اس کے حق میں انڈیا، ایران اور یوگوسلاویہ تھے۔ (آسٹریلیا نے ووٹ نہیں دیا)۔
اگرچہ یہودی آبادی ایک تہائی تھی لیکن ان کو اس پلان میں پچپن فیصد حصہ دیا گیا۔ کمیٹی نے اس میں ڈھائی لاکھ یہودی مہاجرین کو بھی شامل کیا گیا جو یورپ میں تھے اور ان کے پاس جانے کو کوئی بھی جگہ نہیں تھی۔
البتہ یہودیوں کا یہ مسئلہ فلسطینیوں کے لئے غیرمتعلقہ تھا۔ “یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ دوسروں کے جرائم کا خمیازہ ہم کیوں بھگتیں؟”۔ امین الحسینی نے اسے بالکل مسترد کر دیا کہ یہ تمام علاقہ عربوں کا ہے۔ اقوامِ متحدہ کو کسی بھی فیصلے کا اختیار نہیں۔ مصر، سیریا، لبنان اور اردن آزاد ہو رہے تھے اور انہوں نے اسی رائے کی حمایت کی۔
صیہونی قیادت نے پلان کو قبول کر لیا کیونکہ یہ انہیں ریاست دیتا تھا۔ صیہونی رائٹ ونگ نے اس کی مخالفت کی۔ پہلا اعتراض یہ تھا کہ ان کو دئے گئے علاقے میں عرب اگرچہ اقلیت میں تھے لیکن یہ بڑی اقلیت تھی۔ جبکہ بڑی مایوسی یروشلم کے نہ ملنے کی تھی جسے اقوامِ متحدہ کے پاس ہونا تھا۔
انیتس نومبر 1947 کو اس پر طویل اور گرما گرم بحث ہوئی، جس کے بعد جنرل اسمبلی نے قرارداد 181 کو منظور کر لیا۔ اس کے حق میں 33 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں 13۔ جبکہ 10 ممالک نے ووٹ نہیں دیا۔ (مخالفت کرنے والوں میں پاکستان اور انڈیا کے علاوہ لبنان، سعودی عرب، سیریا، یمن، ایران، عراق، افغانستان، گریس، کیوبا، ترکی اور مصر تھے)۔ عرب نمائندوں نے احتجاجاً واک آوٗٹ کیا۔ اس کے منظور ہونے پر یہودیوں میں خوشی اور عرب دنیا میں غصہ پھیل گیا۔ یہ غصہ جلد ہی عمل میں تبدیل ہو گیا۔ فلسطین میں عربوں نے ہڑتال کر دی۔ یہودیوں پر حملے کئے جانے لگے۔ صیہونی ملیشیا اور عربوں کی لڑائی چھڑ گئی۔ لوگ قتل کئے جانے لگے۔ یہ خانہ جنگی مئی 1948 میں ریاستوں کی بڑی جنگ کی صورت اختیار کر دی جس کے بڑے نتائج برآمد ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقوامِ متحدہ کی اس قرارداد پر سب سے زیادہ زور دینے والے سوویت یونین اور امریکہ تھے۔ جس طرح بالفور کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کے خط کے کیا نتائج ہوں گے، ویسے ہی غالباً سٹالن اور ٹرومین نے بھی اس کے فلسطینوں پر ہونے والے نتائج کا زیادہ نہیں سوچا تھا۔
برطانیہ صیہونیوں سے پہلے ہی علیحدگی اختیار کر چکا تھا۔ اس نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ یہ علاقہ برطانیہ کے پاس پہلی جنگِ عظیم کے بعد سے تھا۔ برطانوی پالیسی ساز 1939 کے وائٹ پیپر سے اس بات کا ادراک کر چکے تھے کہ ان کا مفاد آزاد عرب ریاستوں سے وابستہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کا فیصلہ فلسطینیوں کے لئے بڑی مصیبت بن کر نازل ہوا۔ اس کے پیچھے صرف فلسطینیوں کا غیرمنظم ہونا، صیہونیوں کا طاقتور ہونا یا عربوں کی کمزوری ہی نہیں تھی بلکہ واشنگٹن، ماسکو، لندن اور امان تک ہونے والے واقعات تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تل ابیب میں جیوش ایجنسی کے چئیرمین ڈیوڈ بن گوریان نے 14 مئی 1948 کو نئی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔ وہ اس کے پہلے وزیرِ اعظم تھے۔ اسی وقت توپوں کی آواز سنی جا سکتی تھی۔ عربوں اور یہودیوں کے درمیان جنگ جاری تھی۔ اسی شام کو مصر نے اسرائیل پر فضائی حملہ کیا۔ جب اس رات بارہ بجے کا گھنٹا بجا تو برٹش مینڈیٹ اختتام پذیر ہو چکا تھا۔ اس وقت بلیک آوٗٹ تھا۔ لیکن سڑکوں پر نئی ریاست کے قیام کا جشن منایا جا رہا تھا۔ ایک نیا ملک وجود میں آ چکا تھا۔ 1897 میں دیکھے گئے خواب کی عملی تعبیر ہو چکی تھی۔
دوسری طرف، فلسطینیوں کے لئے یہ کسی سلوموشن میں ہونے والے ٹرین کے حادثے کی طرح تھا۔ فلسطینی تاریخ میں اب النکبة (بڑی آفت) کا وقت تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply