جسے اللہ رکھے(قسط2)۔۔عزیز اللہ خان ایڈووکیٹ

ڈڈلی حسام کے پولیس اور عوام سے مقابلے میں مارے جانے کے بعد علاقہ میں کُچھ امن ہو گیا تھا چوری چکاری بھی کم ہو گئی تھی جب بھی کسی تھانہ کے علاقہ میں کوئی بڑا جرائم پیشہ شخص پولیس مقابلے میں مارا جائے تو کُچھ عرصہ کے لیے چھوٹے و بڑے جرائم پیشہ افراد خاموش ہو جاتے ہیں اور واردات نہیں کرتے اس بات کا مجھے تھانہ کوٹسبزل میں بطور ایس ایچ او تجربہ ہو چکا تھا-
معراج خان Asi انچارج چوکی ہتھیجی کافی عرصہ سے چوکی پر تعینات تھا وہ اور اُس کے ساتھی کانسٹبلان تھانہ نو شہرہ اور ہتھیجی کے جرائم پیشہ افراد کے متعلق کافی معلومات رکھتے تھے میں نے انچارج چوکی سے ان جرائم پیشہ افراد کے بارے میں مکمل تفصیلات اکٹھی کیں وہ کہاں رہتے ہیں کون کون سے گینگ ہیں جو ان علاقوں میں وارداتیں کر رہے ہیں تاکہ ان پر ریڈ کیے جا سکیں -کسی بھی تھانہ پر تعیناتی میں میری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ “جارہانہ ” پالیسی رکھی جائے مطلب واردات کا انتظار کرنے کی بجائے ان جرائم پیشہ افراد کے گھروں اور ٹھکانوں پر ریڈ کیے جائیں تاکہ انہیں منظم ہو کر واردات کا موقعہ نہ مل سکے-

تھانہ نوشہرہ میں خاص طور پر ہتھیجی کا علاقہ ضلع مُلتان کے سنگم پر واقعہ تھا ملتان ضلع میں رہنے والے دریا کے اس پار کے علاقہ کو ریاست کہتے تھے درمیان میں دریائے ستلج حکمران کی حکمرانی تھی جو انڈیا کے پانی بند کرنے کی وجہ سے محدود ہو گئی تھی دریا پر جھانگڑا کے مقام پر جلال پور پیر والہ کی طرف جانے اور واپس آنے کے لیے گرمیوں میں کشتیوں کا پُل بنا دیا جاتا تھا جبکہ سردیوں میں دن کے وقت ایک کشتی ہمیشہ موجود ہوتی تھی جو دریا کے پار گزرنے والے لوگوں سے کرایہ لے کر اُنہیں دریا پار کرایا کرتی تھی اسی طرح لوگ اپنی کاریں بھی کشتی پر رکھ کر پار لے جاتے تھے جن کا باقائدہ کرایہ وصول کیا جاتا تھا اور اس کا ٹھیکہ ہوتا تھا -دریا کے دوسری جانب سات آٹھ کلو میٹر تک تھانہ نوشہرہ کا علاقہ موضع بھنڈا وینس تھا اور بعد میں تھانہ جلال پور پیر والہ کا علاقہ اُباڑا جنوبی شروع ہو جاتا جو ملتان ضلع میں آتا تھا جلال پور پیر والہ کو اُن دنوں تحصیل کا درجہ مل چُکا تھا –

دریا کے دوسری طرف موضع بھنڈا وینس کی بستی گیدڑیاں میں گیدڑی قوم آباد تھی جن کا پیشہ چوری چکاری اور ڈکیٹی تھا 25/24 افراد پر مشتعمل یہ گینگ سر شام گزرنے والے افراد کے ساتھ اکثر ڈکیٹی کی واردات کر لیتا تھا مغرب کے بعد اس سڑک پر ان جرائم پیشہ افراد کے ڈر سے ٹریفک بند ہو جاتی تھی اس گینگ کے افراد میں ارشاد گیدڑی ،ظفری گیدڑی ، فدا گیدڑی زیادہ مشہور تھے-یہ دریائی علاقہ جرائم پیشہ افراد کے لیے جنت نظیر تھا اور اس علاقہ پر ان ڈاکوں کی حکمرانی ہوتی تھی

ظفری گیدڑی گینگ کے علاوہ ایک گینگ ڈڈلی حسام اور چھلو حسام کا تھا ڈڈلی حسام دوران ڈکیٹی ہلاک ہو چکا ہو گا جبکہ چھلو حسام ڈکیٹی کے بعد غائب ہو گیا تھا میں نے معراج Asi اور تھانہ کی پوری نفری کے ساتھ ان کے گھروں پر ریڈ کیا مگر کوئی بھی نہ ملا یہ جرائم ہیشہ افراد اکثر واردات کر کے جلال پور پیر والہ کچے کے علاقہ میں پناہ گزین ہو جاتے تھے جہاں ان کی جرائم پیشہ افراد سے دوستیاں تھیں –

جلالپور پیر والہ کے علاقہ میں سب سے بڑا گینگ شفیع ماتم کا تھا جس کے ساتھ حمید عرف حمیدا فوجی ،علو ڈاہڑ و دیگر جرائم پیشہ افراد شامل تھے یہ گینگ جلالپور کے علاوہ شجاع آباد ، سیت پور ،جام پور اور تھانہ نوشہرہ کے علاقوں میں ڈکیٹی کی وارداتیں کرتا تھا اس میں پیسے لے کر قتل کرنے کی وارداتیں بھی شامل تھیں -ڈڈلی حسام کی بیوہ نے میرے اور انچارج چوکی ہتھیجی معراج کے خلاف جوڈیشل انکوائیری کی درخواست بھی دے دی تھی جس میں ہم سب پر ڈڈلی حسام کے قتل کا الزام تھا درخواست میں یہ بھی لکھا تھا کہ ہم ڈڈلی کو زندہ پکڑ کر لے گئے اور راستے میں قتل کر دیا -ڈڈلی حسام کی بیوہ کی درخواست پر سیشن جج صاحب بہاولپور نے انکوائیری سول جج احمد پور شرقیہ کے نام مارک کردی –

27 دسمبر 2005 کو میں تھانہ نوشہرہ کی سرکاری گاڑی پر احمد پور شرقیہ ڈی ایس پی میاں عرفان اُللہ صاحب کے دفتر کرائم میٹنگ کے لئیے آیا ہوا تھا گاڑی کو ناصر ڈرائیور چلا رہا تھا گن مین کانسٹیبل سلیم بھی میرے ہمراہ تھا میرا ملازم فدا حسین بھی نوشہرہ سے ہمراہ آیا تھا اُس نے ضرورت کا سامان احمد پور شرقیہ سے لینا تھا کیونکہ نوشہرہ میں کوئی اچھا سٹور نہیں تھا جہاں سے سامان لیا جاسکتا – کرائم میٹنگ میں باقی تھانوں کے ایس ایچ او صاحبان بھی آئیے ہوئے تھے میٹنگ کے بعد میں سول جج صاحب سے ملا اور اُن سے درخواست کی کہ وہ جوڈیشل انکوائیری کے لیے کوئی تاریخ دے دیں تاکہ وقوعہ کے وقت وہاں پر موجود لوگوں کے بیانات قلم بند کروائے جا سکیں -کیونکہ اس بات کا مجھے تلخ تجربہ تھا کہ کُچھ وقت گزرنے کے بعد گواہان اپنا پیا ن بدل دیتے ہیان اگر اُس پولیس افسر کا وہاں سے تبادلہ ہو جائے -کسی بھی پولیس مقابلہ میں ہوئی ہلاکت کے بعد جوڈیشل کی بُہت اہمیت ہوتی ہے اور اگر یہ جوڈیشل انکوائیری پولیس والوں کے خلاف ہو جائے تو پولیس ملازمین پر قتل کا مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے اس لیے اس معاملہ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے جتنا جلد ہو سکے اسے فائنل کروا لینا چاہیے -سردیوں کے دن تھے میں تقریباً دو بجے احمد پور شرقیہ سے نوشہرہ جدید کے لیے روانہ ہوگیا میں کوٹلہ موسیٰ روڈ سے نہر کے ساتھ پکی سڑک جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی تھانہ کی طرف روانہ تھا کہ مجھے وائرلس آپریٹر کی کال موصول ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ انچارج چوکی آپ سے بات کرنا چاہتا ہے مگر آپ کا نمبر نہیں مل رہا اُن دنوں ان علاقوں میں نئی نئی موبائل سروس شروع ہوئی تھی جس کی وجہ سے کُچھ ایریا ایسے تھے جہاں موبائل کے سنگنلز نہیں آتے تھے -میں نے ناصر ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہا اور معراج خان Asi کو کال ملائی تھوڑی کو شش کے بعد معراج کا نمبر مل گیا جس نے بتایا کہ چوکی ہتھیجی کے فون نمبر پر نامعلوم موبائل نمبر سے کال آئی ہے جو محرر چوکی نے سُنی ہے فون کرنے والے شخص نے بتایا ہے کہ وہ مبارک لنگاہ نمبردار کا بیٹا بول رہا ہے اُن کے گھر واقع موضع بیٹ لنگاہ کے قریب دو موٹر سائکلوں پر سوار تین مسلحہ افراد پھر رہے ہیں جن کے پاس کلاشنکوفیں ہیں اور وہ وہاں سے گزرنے والے لوگوں سے نقدی اور موبائل فون چھین رہے ہیں فوری پولیس بھجوائیں –

معراج خان نے مجھے کہا سر میں دریا کہ پار بیٹ لنگاہ میں جا کر دیکھتا ہوں یہ کون لوگ ہیں جس پر میں نے معراج خان کو کہا آپ کے پاس کتنے ملازم ہیں بولا تین کانسٹبلان ہیں میں نے اُسے اُسے رُکنے کا کہا کہ میرا انتظار کرئے میں بھی آرہا ہوں اکھٹے چلتے ہیں اسی بہانے میں علاقہ بھی دیکھ لوں گا -معراج خان Asi نے کہا میں “ڈاہڑاں والا پتن “پر جا کر کشتی والے کو روکتا ہوں کیونکہ وہ مغرب سے پہلے وہ کشتی لے کر گھر چلا جاتا ہے اگر وہ چلا گیا تو پھر ہم دریا کے پار بیٹ لنگاہ نہیں جا سکیں گے آپ بھی دریا پر “ڈاہڑ اں والا پتن “پر آجائیں میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں –

میں نے ڈرائیور نا صر کو چوکی ہتھیجی کی طرف چلنے کا کہا -ڈہڑاں والا پتن چوکی ہتھیجی کی عمارت سے 10/15 منٹ کی مسافت پر تھا دریا ستلج کے کنارے پر تھا -معراج Asi اپنے تین ساتھی ملازمین کے ساتھ پتن پر میرا انتظار کر رہا تھا چوکی کی سرکاری گاڑی معراج نے پتن پر چھوڑ دی وہ اپنے ساتھ دو موٹر سائیکل بھی لایا تھا تاکہ دریا کے پار موٹر سائیکلوں پر جا سکے تھانہ کی سرکاری گاڑی اور موٹر سائیکل کشتی پر لوڈ کروا دیے گئے میرے لیے یہ بلکل نیا تجربہ تھا سردیوں کی وجہ سے دریا میں پانی اور بہاو بُہت کم تھا تھوڑی دیر بعد ہم دریا کہ پار پہنچ گئے سرکاری گاڑی اور موٹر سائیکلوں کو کشتی سے اُتارا کشتی والے کو وہاں رُکنے کا بولا تاکہ واپسی جا سکیں- میں تھانہ کی سرکاری گاڑی میں بیٹھ گیا میری ذاتی کلاشنکوف میرے پاس تھی جو میں ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا اس کے علاوہ پانچ میگزینز بھی بنڈوریل(کلاشنکوف کی گولیوں سے بھری میگزینز کا تھیلہ) میں ہمیشہ ساتھ ہوتی تھیں یہ عادت بھی کوٹسبزل کی تعیناتی میں ہو گئی تھی بغیر کلاشکوف اور بنڈوریل کے میں خود کو اکیلا محسوس کرتا تھا -مجھے اپنے ساتھ اسلحہ رکھنے کی عادت اُس وقت ہوئی جب ہم سندھ میں ریڈ کے لیے جاتے تھے -کیونکہ مخالف سمت سے آنے والی دشمن کی گولی افسر اور ماتحت کا لحاظ نہیں کرتی تھی ہر پولیس ملازم کو اپنا اپنا اسلحہ اُٹھا کر چلنا پڑتا تھا -کئی دفعہ ایسے ریڈز میں بڑے بڑے باو افسر زمین پر لیٹے ہوئے ہوتے تھے جو اسلحہ اُٹھانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے اور جن کا اسلحہ اُن کے گن میں اُٹھاتے تھے-
معراج خان Asi میرا گن مین سلیم اور اُس کے ساتھ دو کانسٹبلان موٹر سائیکلوں پر سرکاری گاڑی کے آگے روانہ ہو گئے دونوں جوانوں کے پاس ایس ایم جی ریفلز تھیں اور وہ موٹر سائیکلوں پر پیچھے بیٹھ گئے-چوکی کے ایک کانسٹیبل عباس جسے چاچا عباس کہتے تھے کے پاس جی تھری ریفل تھی جسے میں نے اپنی سرکاری گاڑی کے ہُڈ کی چھت کھلوا کر بطور “OP “کھڑا کر دیا پولیس کی ہر گاڑی کی چھت میں ایک کُھلنے والی کھڑکی رکھی جاتی ہے – جب بھی میں سندھ کے علاقہ یا دریائی علاقہ میں ریڈ کے لیےجاتا تھا تو ہمیشہ میری یہی حکمت عملی ہوتی تھی کہ گاڑیوں میں ایک ” O P ” ضرور کھڑا کیا جائے تاکہ کسی بھی مشکل صورت حال میں آپ کا OP بہتر طریقے سے دشمن کے حملے کا جواب دے سکے-

تھوڑی دیر بعد ہم لوگ بیٹ لنگاہ پُہچ گئے مبارک خان لنگاہ کے ڈیرہ پر کوئی بھی موجود نہ تھا کیونکہ فصل کپاس اُٹھا لی گئی تھی تمام زمینوں پر ہل چلا کر سیدھا کر دیا گیا تھا اور گندم کی فصل کے لیے زمین تیار کی جا رہی تھی- معراج Asi اور اس کے ساتھی کانسٹبلان میری سرکاری گاڑی سے آگے موٹرسائکلوں پر جارہے تھے ہم نے پورے بیٹ لنگاہ کا چکر لگایا مگر ہمیں کوئی مسلحہ افراد نظر نہیں آئے –
معراج Asi نے کہا سر مجھے لگتا ہے کسی نے مذاق کیا ہے بیٹ (دریائی علاقہ) میں تو ویسے آئے ہوئے ہیں شاماں ڈاہر کے گھر کا چکر بھی لگا لیتے ہیں اُس کے بیٹے واردات کر رہے ہیں ہو سکتا ہے وہاں علو ڈاہڑ بھی مل جائے آجکل بُہت وارداتیں کر رہا ہے-ڈاہڑوں کی بستی بھی دریائی علاقہ میں تھی یہ قوم بھی جرائم پیشہ تھی میں نے اپنی 23 سال کی ملازمت میں اتنے جرائم پیشہ اقوام نہیں دیکھی تھیں یہاں ہر قوم کے افراد پر درجنوں مویشی چوری کے مقدمات تھے تھانہ کے ریکارڈ کے مطابق کُچھ ملزمان پر ایک سو سے زیادہ مقدمات بھی تھے پہلے یہ لوگ صرف مال مویشی کی چوری کیا کرتے تھے مگر اب ان کے نوجوان ڈکیٹیاں کرنا شروع ہو گئے تھے- ڈہڑوں کے گھر ریڈ کیا تو ہمیں وہاں شاماں ڈہڑ گھر پر موجود تھا جس کی عمر تقریباً ساٹھ سال تھی اور ابھی تک بستہ الف کا بدمعاش تھا شاماں ڈاہڑ سو سے زیادہ مختلف مقدمات میں چالان تھا- معراج Asi نے بتایا یہ اب چوری نہیں کرتا مگر شکایت ہے کہ بھونگا لے کر چوری کا مال واپس کراتا ہے شاماں ڈاہڑ کو سرکاری گاڑی کے پیچھے بیٹھا دیا جہاں میرا ملازم فدا حسین بھی بیٹھا ہوا تھا-

سورج غروب ہونے میں تھوڑا وقت رہ گیا تھا معراج نے مشورہ دیا کیونکہ مغرب ہونے کو ہے اب دریا والے راستے سے کشتی میں دریا پار کرنا خطرناک ہو جائے گا اور اب کشتی والا بھی چلا گیا ہوگا ہم براستہ جلالپور پیروالہ اور پھر لودھراں بہاولپور سے ہوتے ہوئے نوشہرہ جدید جائیں گے-ابھی ہم سب یہ پروگرام بنا رہے تھے کہ میرے موبائل فون پر محرر چوکی ہتھیجی کی کال آئی جس نے بتایا پھر اُسی موبائل نمبر سے چوکی کے PTCL نمبر پر کال آئی ہے کہ ڈاکو مبارک خان لنگاہ کے ڈیرہ کے ساتھ شرقی جانب دریا کے بند کے ساتھ ابھی بھی موجود ہیں مگر پولیس نہیں آئی میں نے اُس شخص کو بتا جو خود کو مبارک لنگاہ کا بیٹا کہہ رہا تھا کہ ایس ایچ او صاحب اور انچارج چوکی نفری کے ساتھ ڈاہڑاں والا پتن پار کر کے بیٹ کے علاقہ میں چلے گئے ہیں-میں نے محرر سے نمبر پوچھا اور اُس پر کال کی تو نمبر بند جا رہا تھا میں نے معراج Asi کو کہا مجھے بھی لگتا ہے کہ اطلاع جھوٹی ہےمگر ایک چکر اور لگا لیتے ہیں ہو سکتا ہے ڈاکوں سے آمنا سامنا ہو جائے ؟

معراج Asi اور اُس کے ساتھی کانسٹبلان موٹر سائیکلوں پر سرکاری گاڑی کے آگے روانہ ہو گئے ڈرائیور ناصر نے گاڑی تھوڑی دیر بعد سٹارٹ کی چاچا عباس دوبارہ ڈالے کی چھت سے باہر نکل کر کھڑا ہو گیا اتنی دیر میں مجھے گھر سے کال آگئی گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی تھی معراج Asi موٹر سائیکلوں پر کافی دور آگے نکل گیا تھا اور اب مجھے نظر نہیں آرہا تھا میں بڑے مزے سے فون سُن رہا تھا کیونکہ میرے ذہن میں یہ خیال آگیا تھا کہ کسی نے چوکی پر فون کر کے ڈاکوؤں کے جھوٹی اطلاع دی ہے اس لیے میں تھوڑا لاپرواہ ہو کر فون سُن رہا تھا-

مبارک لنگاہ کے ڈیرہ سے گزر تےہوئے سورج تقریباً ڈوب چکا تھا سامنے دریا کا بند تھا بند کراس کر کے سامنے بلاکل چٹیل میدان تھا جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کپاس کی فصل کے بعد گندم کی کاشت کے لیے زمین تیار کی جارہی تھی اس لیے کوئی اور فصل یا درخت کی اوٹ بھی نہ تھی سرکاری گاڑی جیسے بند سے گزر کر کُچھ دور پہنچی تو اچانک بند کی طرف سے میرے والی سائیڈ سے گولیوں کی تڑٹراہٹ کی آواز آئی میں نے بند کی طرف دیکھا تو مجھے فائیرنگ کی آواز کے ساتھ شعلے بھی دیکھائی دیے ناصر ڈرائیور زور سے بولا سر کسی نے ہماری گاڑی پر فائیرنگ کی ہے میں نے ناصر ڈرائیور کو اُس کی سائیڈ والا دروازہ کھولنے کا کہا جیسے ناصر نے دروازہ کھولا میں نے زور سے اُسے دھکا دیا وہ باہر جا گرا اور میں بھی اُسی دروازے سے باہر نکل آیا شکر ہے ملزمان کی کی گئی فائیرنگ کا پہلا برسٹ گاڑی پر نہیں لگا ورنہ میں یہ تحریر نہ لکھ رہا ہوتا ؟

میری کلاشنکوف گاڑی کے اندر رہ گئی تھی چاچا عباس کانسٹیبل نے اپنی جی تھری ریفل سے گاڑی میں کھڑے ہوئے بند کی طرف سنگل فائیر کیا جہاں سے ہم پر فائیرنگ کی جا رہی تھی بند کی اوٹ میں بیٹھے نامعلوم افراد ہم ہر اندھا دُھند فائیرنگ کر رہے تھےاور اب اُن کی گولیاں سرکاری گاڑی کی باڈی پر لگنے کی آوازیں بھی آرہی تھیں مگر ہمارے پاس فائیرنگ سے بچنے کے لیے سوائے سرکاری گاڑی کے اور کوئی اوٹ نہ تھی-

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے جھک کر گاڑی کے اندر سے اپنی کلاشنکوف اُٹھا لی جس کے ساتھ صرف ایک میگزین لگی ہوئی تھی میں نے سرکاری گاڑی کے بونٹ کی آڑ لے کر بند کی طرف برسٹ مارا تو بند کی طرف سے تھوڑی دیر کے لیے فائیرنگ بند ہو گئی اتنی دیر میں میرا ملازم فدا حُسین اور چاچا عباس بھی ویگن سے اُتر کر میرے پاس آگئے تھے میں نے چاچا عباس سے پوچھا اُس کے پاس کتنے روند ہیں بولا سر ایک میگزین ہے جس میں بیس گولیاں تھیں جن میں سے پانچ گولیاں چلا چُکا ہوں باقی پندرہ بچ گئی ہیں میں نے فدا کو کہا ویگن کے پچھلے حصہ میں جائے اور میرا بنڈوریل جس میں میری میگزین تھیں اُٹھا کر لے آئے اتنی دیر میں بند کی طرف سے پھر اندھا دھُند فائیرنگ شروع ہو گئی – اندھیرا بھی ہو چکا تھا اچانک مجھے لگا جیسے کوئی شخص بند سے نکل کر ہماری طرف آرہا ہے وہ اُونچی آواز میں ہمیں گالیاں بھی دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ آج تم بچ کر نہ جاو گے-میں نے چاچا عباس کو گاڑی کے بونٹ کی اوٹ لے کر سنگل فائیر کرنے کا کہا جیسے ہی عباس نے نشانہ لے کر فائیر کیا وہ شخص بند کی طرف واپس بھاگ گیا – مجھے بھی پہلا برسٹ مارنے کے بعد کوئی اندازہ نہ تھا کہ میرے پاس کتنی گولیاں بچ گئی ہیں میں نے پچھلے ٹائیر کی اوٹ لے کر سنگل فائیر کیا- اتنی دیر میں فدا نے مجھے ویگن کے پچھلے حصہ سے آواز دے کر بتایا “خان صاحب ویگن میں پچھلی سیٹوں پر آپ کا نہ بنڈوریل ہے اور نہ کوئی میگزینیں ہیں مجھے لگتا ہے بنڈوریل سلیم گن مین ساتھ کے گیا ہے جو معراج Asi کے ساتھ موٹر سائیکلوں پر آگے نکل گیا ہے” اندھیرے میں فضا گولیوں کی تڑٹڑاہٹ سے گونج رہی تھی چاچا عباس اگلے بونٹ کی اوٹ میں اور ناصر ڈرائیور میرے ساتھ ویگن کے پچھلے ٹائیر کی اوٹ میں پوزیشن لیے بیٹھے ہوئے تھے عباس کے پاس اندازاً تیرہ گولیاں تھیں اور میرے پاس ایک میگزین تھی جس میں کتنی گولیاں بچ گئی تھیں مجھے معلوم نہ تھا اب ہمیں اپنی موت صاف نظر آرہی تھی ؟
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply