پڑیے گر بیمار تو(5)۔۔فاخرہ نورین

دن کرونا کے تھے اور راتیں ہماری اپنی تھیں، سردی میں بھلے گرم پانی سے نہائیں لیکن ایک نہ ایک دن ایسا ہو جاتا ہے کہ ٹھنڈ لگ جاتی ہے ۔
اُسے بھی لگ گئی ۔ دوا کھانے کے معاملے میں وہ عجیب ضدی آدمی ہے ۔اسے بتانا پڑتا ہے، سمجھانا پڑتا ہے، پھر لڑنا پڑتا ہے، پھر دھونس دھمکیوں سے کام لینا پڑتا ہے تب کہیں جا کر وہ ایک گولی یا دوا کی ایک خوراک لیتا ہے ۔ایک ایک گولی کے خواص، اس کی اہمیت اور ضرورت، اس کا طریقہ کار اور نہ جانے کیا کیا پر تفصیلی بریفنگ دینی پڑتی ہے ۔وہ اس کے بغیر بھی ٹھیک ہونے پر اصرار کرتا رہتا ہے اور صرف لڑائی اور میری خفگی کے ڈر سے کھانے پر آمادہ ہوتا ہے ۔ یہی عمل دوا کی اگلی خوراک پر پھر سے دوہرایا جاتا ہے ۔پانچ دن کا اینٹی بائیوٹک کورس بہت بھی ہوا تو تین دنوں تک اوکھا سوکھا بلکہ اوکھا اوکھا چلتا ہے اور پھر ایک شاندار لڑائی لڑی جاتی ہے اور اگلے دو دن کا کورس مکمل ہوتا ہے ۔

یہی ہوا کہ کتنے دن اسے دوا کھانے کے لئے قائل  کرتے گزر گئے ۔قہوہ، جوشاندہ، ادرک ملٹھی، پودینہ، شربت توت، شہد کالی مرچ غرض دنیا بھر کے لوک دانش کے ٹونے ٹوٹکے کر لیے لیکن چیسٹ انفیکشن کی بلا اِن سب کو کیا سمجھتی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسے شدید بخار اور جسم درد نے آ لیا۔ علامات ساری کرونا کی تھیں لیکن میں سمجھتی تھی کہ یہ وقت پر انفیکشن کا علاج نہ کرنے کا نتیجہ ہے کرونا نہیں، وہ پوری طرح سمجھتا تھا کہ یہ کرونا ہے اور وہ مبتلا ہو چکا ہے ۔ مجھے بھی بخار اور جسم درد تھا اور ایک پوری رات تو ہم دونوں نے یوں کاٹی کہ ایک دوسرے کے کراہنے کی آواز سنتے ہی نیند میں بھی ایک دوسرے کو دبانے لگ جاتے ۔

دونوں کو ہی اپنی ہوش نہیں تھی لیکن ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس اور اسے دور کرنے کی کوشش اس رات کا وہ تاثر ہے جو میرے دل میں رہ گیا کہ رشتے کی خوبصورتی کا اس سے عمدہ مظاہرہ ہم دونوں کے درمیان شاید کسی اور دن نہیں ہو سکا۔

شادی کے بعد کے تمام عرصے میں ،مَیں نے بخار اور مہروں کی تکلیف سے دو مس کیرج تک اکیلے اور وہ بھی اتنے اکیلے بھگتے تھے کہ اپنی تکلیف کا سوچ کر خود پر کسی جانور کا گمان ہوتا تھا ۔
نیشنل جیوگرافک پر دیکھی گئی کتنی دستاویزی فلمیں یاد آتی تھیں جن میں مادہ بن مانس اکیلی خون پھینکتی پھرتی تھی ۔
کوئی نہ ہو میری تنہائی کا تماشائی۔۔
کی خواہش رکھنے والی میں خود کو نہ جانے کیوں اسی بن مانس مادہ کی ہم جنس خیال کرتی تھی ،جس کو جنگل میں کوئی دمساز اور مونس نہیں ملتا تھا اور تکلیف کے احساس سے زیادہ تنہا تکلیف میں مبتلا ہونے کے احساس سے اس کی آنکھیں عجیب بے حسی کے ساتھ پتھرائی پتھرائی لگتی تھیں ۔ لو میرج میں سوائے لو برڈز کے کون ان کا دمساز ہو سکتا ہے؟ اور یہاں میرا لو برڈی صرف پیار کا پرندہ نہیں تھا ۔ایک بھرے پرے جوائنٹ فیملی سسٹم کا باہر لے ملخ والا بھی تھا جو اپنی ذمہ داریوں کا اسیر تھا ۔ اندر والے تو درمے قدمے سخنے صرف تماشا دیکھنے کے عادی تھے ۔ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی تھا ۔ ان چاہی بہو اور اس کے مسائل کا ذمہ کون لیتا؟ اگر وہ گاؤں آ جائے اور نوکری ختم کر کے ان سے آن ملے تو پھر کچھ سوچا جا سکتا ہے لیکن طاقتور اور مرضیاں کرنے والی عورت کے لئے سسٹم کے سینے میں دل نہیں تھا ۔

میں نے ایسے ہی کئی تکلیف دہ مراحل سے گزرنے کے بعد خود ترسی چھوڑ کر یہ حقیقت قبول کر لی تھی کہ مجھے تکلیف کے اس جنگل میں تنہا خون تھوکنا ہے۔ عجیب سا چڑچڑا پن اور جارحیت میری شخصیت کا حصہ بنتے چلے گئے اور میرے رویے میں شدت آتی گئی ۔
میرا دکھ کیا تھا یہ کوئی کیسے سمجھ سکتا تھا ۔کسی نے ایسی تنہائی تو نہیں کاٹی تھی کہ خود کو خدا لگنے لگے۔
تم نہیں سمجھو گے، تم سمجھ ہی نہیں سکتے، تمہارے گرد ہجوم رہتا ہے یہاں فیملی کا اور وہاں مطلب کے یاروں کا ۔
تم کیسے سمجھو گے تنہائی، بیماری اور موت کے خوف کو ۔
میں نے اپنے ہر گلے کے ساتھ ٹیپ کا مصرع یہی لگا لیا ۔ سارا نزلہ صرف اس شخص پر گرنا تھا جسے سسٹم نے کولہو کا بیل بنا دیا تھا تو اسے کیا حق تھا کہ وہ محبت کی شادی کرتا۔ میں نے بھی سارے گلے شکوے کا مرکز اسے ہی بنا لیا ۔زمانے کے جوروستم بھی اسی کے کھاتے میں لکھے جانے لگے۔ انسان اپنی سہولت کے لئے بھی دوسرے کا استحصال کرتا ہے اور اپنی تکلیف کو بنیاد بنا کر ایک مریضانہ رویے کے پیش نظر بھی ۔زبیر کو دونوں کا سامنا تھا ۔ اسے تو سکون میں نے بھی نہیں لینے دیا تھا ۔ راہ جاتے ٹھوکر لگ جاتی تو بھی قصور اسی کا تھا ۔
تم اگر احساس کرتے تو یہ نہیں ہوتا، محبت کے سائیڈ افیکٹس میں یہ الزامی اور دشنامی رویے بھی ہیں ۔

سوسائٹی اور مشرقی خاندانی نظام کے جبر کا شکار زبیر اپنی محبت اور ذمہ داریوں کے مابین پینڈولم کی طرح ڈولتا، پریشان ہوتا اور میری بیماری کے مقابل اپنی بیماری لا کر رکھنے کی کوشش میں اپنا اور میرا دھیان بٹانے کے لئے کوشش کرتا رہتا ۔لیکن زبیر اس حد تک جائے گا یہ نہ تو میں نے سوچا تھا نہ میں ایسا چاہتی تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply