ناگاساکی کے ’’ پوشیدہ مسیحی‘‘(1)۔۔انیس رئیس

مسیحیت قبول کرنے والے ابتدائی جاپانیوں پر ظلم و ستم کا اڑھائی سو سالہ دور

مسیحیت قبول کرنے اور اپنے مذہب  کی  ترویج واشاعت کی پاداش میں ابتدائی تین صدیوں کے مسیحیوں کو ظلم و ستم کے جس  بھیانک دور سے گزرنا پڑا اس کی مثال تاریخِ مذاہب میں ملنا مشکل ہے ۔روم کے زیرِ زمین تاریک قبرستان جنہیں  The Catacombs of Romeکہا جاتا ہے  ,مذہب کی پاداش میں ظلم و جبر کی اس داستان کو یوں بیان کرتے ہیں کہ خدائے واحد پر ایمان رکھنے والے اورحضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو نجات دہندہ خیال کرنے والے مسیحیو ں پر رومیوں نے عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیا کہ سطحِ زمین پر مسیحیوں کا بودو باش اختیار کرنا ممکن نہ رہا ۔ یہاں تک کہ یہ مخلصین اپنے عقیدہ کے تحفظ کے لئے زیرِ زمین غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ۔جب ظلم و ستم حد سے بڑھ جاتا تو یہ لوگ کئی مہینوں کے سامانِ رسد کے ساتھ زیر ِ زمین نہاں غاروں میں  چھپ جاتے ،حتی کہ بعض اوقات سالہا سال اسی کیفیت میں گزرجاتے ۔ قرآن کریم نے ان مخلصین کو ’’اصحابِ کہف ‘‘ قرار دیا ہے اور ان کی قربانیوں کا ذکر سورة الکہف میں مرقوم ہے۔ اصحاب کہف پرظلم و ستم کا یہ دور تین صدیوں سے بھی زائد عرصہ تک محیط تھا ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :۔

(1)وَ لَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَ ازْدَادُوا تِسْعاً

یعنی ظلم و ستم کا یہ دورِ گراں تین سو نو سالوں  پر محیط تھا ۔روم  میں ایسی ساٹھ سے زیادہ غاروں کے آثار دریافت ہوئے ہیں جو مسیحیت کے  ابتدائی مبلغین اور مخلصین کی قربانیوں کی منہ بولتی داستان ہیں ۔

مذہب کی پاداش میں ایذا رسانیوں کا ذکر ہو تو ناگاساکی کے مسیحی مبلغین اور مسیحیت قبول کرنے والے ابتدائی جاپانیوں  کا تذکرہ جاپان میں تبلیغ  کرنے والے ہر مذہب کے لئے ایک عمدہ سبق ہے ۔دو سو سال پر محیط  جوروستم کا یہ طویل دور نہایت دردناک مظالم، ایذا رسانیوں، قیدو بند اور جلا وطنی سمیت جانی قربانیوں کے اَن گنت واقعات پر مشتمل ہے۔

ناگاساکی جاپان کے انتہائی جنوب میں واقع ایک تاریخی شہر ہے ۔سولہویں صدی عیسوی تک ناگاساکی سمیت جاپان کی تمام بندرگاہیں بیرونی دنیا سے روابط اور تجارت کاوسیلہ تھیں۔ لیکن سترھویں صدی عیسوی میں مغربی استعماریت کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظرحکومتِ جاپان نے دنیا سے الگ تھلگ خودساختہ تنہائی کی پالیسی اختیار کرلی۔یہاں تک کہ 1641ءسے1858ء تک کے عرصہ میں کسی غیر ملکی شخصیت کاجاپان میں داخل ہونامحض ایک خواب  اور خیال بن کر رہ گیا ۔اس دور کو period of national isolation یا  ’’ مقفل ریاست‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔’’ مقفل ریاست‘‘ اور تنہائی  کی پالیسی کے اس دور میں اگر کسی  بیرونی ریاست سے رابطہ کی ضرورت پیش آتی تو  ناگاساکی شہر کی بندرگاہ ان روابط کا واحد وسیلہ تھی۔

’’ مقفل ریاست‘‘ اورجاپانی حکومت کی خود ساختہ تنہائی کا یہ دور جاپانی تاریخ کا غیر معمولی دور تھا ۔شہنشاہِ جاپان بھی علاقائی سرداروں اور جاگیرداروں کی طاقت کے سامنے محض نمائشی وجود بن چکے تھے ۔ علاقائی سرداروں کی باہم چپقلش اور ریشہ دوانیوں کے اس دور میں بااثر سردار اور حکمران یورپی تاجروں اور مبلغین کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ خیال کرنے لگے ۔ پرتگیزی اور جرمن تاجر  بحرالکاہل کے مختلف جزائر سے ہوتے ہوئے جاپان سے تجارتی روابط استوار کر چکے تھے ۔

شاہِ سپین کے ایلچی کی حیثیت سے پہلے پادری کی جاپان آمد

’’ مقفل ریاست‘‘ کی پالیسی کے نفاذ سے کچھ سال پیشترایک مشہور مسیحی پادری Francis Xavierجو ہندوستان ،چین اور دیگر مشرقی ممالک میں مسیحیت کے پرچار کے حوالہ سے مشہور تھے 1549ء میں ناگاساکی کے نواحی علاقہ Kagoshimaمیں وارد ہوئے ۔مسیحیت کے مبلغ کی حیثیت سے جاپان آنا خطرہ سے خالی نہ تھا لہذا موصوف شاہِ سپین اور شاہِ پرتگال فلپ ثانی کے ایلچی کے طور پر ہندوستانی ریاست ’’گوا‘‘ سے جاپان پہنچے۔

فرانسس زاوئیر نے ناگاساکی  شہرکے نواح سے اپنے مشن کاآغاز کیا ۔ بہت جلد ان کی کوششیں بارآور ہوئیں اور ایک مقامی جاگیردار مسیحیت قبول کرکے فرانسس زاوئیر سے جا ملے ۔ تجارت سے وابستہ جاگیردار طبقہ  مغربی دنیا سے راہ و رسم میں تجارتی مفاد بھی محسوس کرنے لگا ۔ لہذا دیکھتے ہی دیکھتے بااثر لوگوں سمیت ایک بڑی تعداد مسیحیت کی طرف مائل ہونا شروع ہوگئی ۔حُسن اتفاق کہیے کہ اُن دنوں جاپان میں  Oda Nobunagaکی حکومت تھی  جو بدھ مت سے ذاتی تعصب کی بنا پر مسیحیت کے لئے قدرے نرم خو ثابت ہوئے ۔

جاپان کا’’ روم ‘‘یعنی ناگاساکی شہر

مسیحی پادریوں نے ناگاساکی شہر اور گردو نواح کے جاگیرداروں  کوہدف بنا کر مسیحیت کا پیغام پھیلانا شروع کردیا  ۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ مسیحیت کے پیغام کی کشش کی بجائے تجارتی مفادات اور مغربی دنیا سے تعلقات کی خواہش پیشِ نظر تھی، لیکن وجوہات جو بھی ہوں، امرِ واقعہ یہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ناگاساکی شہر مسیحیت کا مرکز بن گیا ۔جاگیرداروں کے مسیحیت پر ایمان لانے کے نتیجہ میں ان کے زیر اثر طبقات اور کسان  گھرانے بھی مسیحیت قبول کرنے لگے ۔  محققین کے نزدیک  چند سالوں کی محنت کے بعد ہی مسیحیت قبول کرنے والے جاپانیوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں تک جا پہنچی، یہاں تک  کہ ناگاساکی شہر کو جاپان کا ’’روم‘‘ کہا جانے لگا ۔سترھویں صدی کے اوائل میں ناگاساکی  اور گردو نواح میں مسیحیوں کی آبادی یانچ لاکھ  نفوس بیان کی جاتی ہے ۔(2)

ناگاساکی کے مسیحیوں پر جوروستم کا آغاز

یہ وہ زمانہ ہے جب صدیوں کی تاریخ پر مشتمل جاپان کا شاہی نظام روبہ زوال تھا ۔ حکومتی نظم و نسق طاقتور سرداروں کے ہاتھ میں تھا اور شہنشاہ کا وجود محض علامتی حیثیت میں باقی  تھا ۔ مسیحیت کے لئے قدرے نرم خُو واقع ہونے والےحکمران Oda Nobunagaکی وفات کے بعدجاپان میں Toyotomi Hideyoshiاور Tokugawa Ieyasuکا دورِ حکومت شروع ہوا ۔ ان دونوں ادوار  کے ساتھ ہی مسیحیت قبول کرنے والے جاپانیوں کے لئے مصائب وآلام پر مشتمل ایک ایسے صبر آزما  دور کا آغاز ہوا جو آئندہ آنے والی دو صدیوں   سے بھی زائد عرصہ پر محیط ہے۔

سیاسی عدم استحکام کے اس دور میں1587ء میں جب  مقامی سرداروں اور بااثر شخصیات سمیت ایک بڑی تعداد مسیحیت میں داخل ہوگئی توToyotomi Hideyoshiنے پادریوں کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے امتناعِ مسیحیت کے دو آرڈیننس نافذ  کرکے پادریوں کو جلا وطن کرنے کے احکامات جاری کر دیے ۔نیزبدھ مت یاشنتو مذہب ترک کرکے مسیحیت قبول کرنا جرم شمار ہونے لگا۔متمول جاپانیوں، حکومتی عہدیدارن یا بااثر شخصیات کے مسیحیت قبول کرنے کی صورت میں جرمانوں اور سزاؤں کا اعلان کردیا گیا۔

عرصہء حیات اس قدر تنگ کر دیا گیا کہ جاپانی مسیحیوں کے لئے دو ہی راستے بچے  تھےیا تو مسیحیت سے تائب ہو کر اپنے  اصل دین پر لوٹ آئیں یا پھر موت  کو گلے لگاکر اپنے ایمان کی حفاظت کریں۔اندریں حالات جنوری 1597ء میں چھ پادریوں سمیت چھبیس افراد کو گرفتار کر لیا گیا ۔ جسمانی اور ذہنی ایذا رسانیوں کے ساتھ ساتھ بطور عبرت انہیں جاپان کے قصبوں اور شہروں میں گھماتے ہوئے مسیحیت کے گڑھ ناگا ساکی تک لایا گیا اور 5فروری1597ء کو شہر کے عین وسط میں صلیب دے کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ۔اس جوروجفا کی ایک جھلک اورجان کی قربانی پیش کرنے والے ان 26مسیحیوں کے حالات و واقعات کی تفصیل اس ناول میں پڑھی جاسکتی ہے۔ Kirish’tan: Heaven’s Samurai: A novel of old Japan۔ جان کی قربانی دینے والے افراد کو تاریخ میں The Twenty-Six Martyrs of Japanکے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ناگاساکی شہر میں ایک چرچ ان قربانی کرنے والوں کی یاد سے موسوم ہے جسے اب جاپان کا قومی ورثہ قرار دیدیا گیا ہے۔اسی طرح  ہالی وُڈ کی مشہور فلم Silenceسمیت درجنوں کتب اور تحقیقی مقالے ناگاساکی کے مسیحیوں کی عزم و ہمت اور صبر و استقلال کے واقعات سے پردہ اٹھا تے ہیں ۔

مسیحیت سے لاتعلقی ثابت کرنے کے لئے توہینِ مسیح ؑ کی رسم

سترھویں صدی عیسوی جاپانی مسیحیوں کے لئے جورو جفا کی بد ترین صدی کے طور پر طلوع ہوئی ۔1612ء میں مزید نئے قوانین متعارف کرواتے ہوئے مسیحیت کی تبلیغ جرم قرار دے کر مسیحی کنیسے مسمار کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے۔ امتناعِ مسیحیت قوانین  کے اجراء، سر عام صلیبیں دیئے جانے اور پادریوں و سرگرم مسیحیوں کی ایذ ا رسانی کے باوجودجب مسیحیت قبول کرلینے والوں کی اکثریت اپنے دین پر ثابت قدم  رہی ۔اس پر حکام نے فیصلہ کیا کہ مسیحیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اشراف کی بجائے عوام الناس کو ہدف بنایاجائے  ۔چنانچہ ’’ جاپان کا روم‘‘ کہلانے والے ، لاکھوں کی آبادی پر مشتمل ناگاساکی شہر کے بارے  میں فیصلہ صادر ہوا کہ شہر کے  تمام باسیوں کو مسیحیت سے لاتعلقی ثابت کرنے کا  آخری موقع فراہم کیا جائے ۔لیکن لاکھوں کی آبادی میں یہ کیسے پتا چلے کہ کون کس مذہب کا پیرو ہے ،کئی تجاویز زیرِ غور آئیں لیکن   اس بات کے احتما ل کے پیشِ نظر کہ  دباؤ کی وجہ سے مبادا کوئی شخص زبانی طور پرتو مسیحیت کا منکر ہوجائے لیکن اپنی قلبی وابستگی اسی دین سے برقرار رکھے ۔ لہذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ ناگاساکی کے باسیوں کو مسیحیت سے لاتعلقی ثابت کرنے کے  لئے حضرت مسیح علیہ السلام اور حضرت مریم کی توہین پر مجبور کیا جائے ۔ چنانچہ ان برگزیدہ ہستیوں کی شبیہ پر مشتمل کتبے تیار کئے گئے اور شہر کے باشندوں کو حکم دیا گیا کہ ان پر اپنے پاؤں رکھ کر روند کر گزریں تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ ان کے دل مسیحیت سے تائب ہوچکے ہیں ۔محققین کے مطابق :۔

’’مسیح( علیہ السلام) کی تصویر کو پاؤں تلے روندنے  یعنی Fumi-eکی رسم ایک سالانہ  معمول کی شکل اختیار کرگئی ۔مسیحی خصوصا ً کیتھولک فرقہ کے لوگ  مسیح اور مریم کی شبیہ کو خاص اہمیت دیتے ہیں اس لئے جس شخص کے بارہ میں شبہ ہوتا کہ یہ مسیحیت قبول کر چکا ہے اسے مجبور کیا جاتا کہ وہ مسیح اور مریم کی شبیہوں کو پاؤں تلے روند کرکے مسیحیت سے لا تعلقی کا اظہار کرے ۔(3)

بی بی سی انگریز ی سروس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق :۔

’’سن 1620ء میں لوگوں کے دلوں سے مسیحیت کو نکال باہر کرنے کے لئے لکڑی وغیرہ کے ایسے تختے تیار کروائے گئے جن پر (حضرت) مسیح اور (حضرت) مریم کی شبیہ کنندہ تھی۔ ناگاساکی میں بسنے والے ہرایک  شخص کو حکم دیا جاتاکہ وہ تختوں کوپاؤں سے روندتے ہوئے گزریں ۔ صرف ایک دفعہ  ہی اس عمل سے گزرلینا ناکافی خیال کرتے ہوئے شہریوں سے بار بار یہ تقاضا کیا گیا کہ وہ مسیح کی توہین کرکے اپنے قلبی میلانات واضح کریں،چنانچہ کچھ ہی عرصہ بعد یہ طریق ایک سالانہ  رسم کی صورت اختیار کر گیا اور ہر دفعہ سال نو کے موقع پر ناگاساکی کے باسی مسیحیت سے لاتعلقی ثابت کرنے کے لئے اس عمل پر مجبور ہوکئے جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply