نمبر ،نمبر، نمبر۔۔۔۔شجاعت بشیر عباسی

اس نمبر گیم نے قوم کو بلاوجہ کی ریس کا شکار کر رکھا ہے اگر نمبر کم تو بچہ نالائق تصور کیا جاتا ہے اس بچے کو اپنے ہی گھر میں طنز و تحقیر کے رویے کا سامنا کرنا ،اٹھتے بیٹھتے نالائق اور گدھے جیسے القابات سے نوازنا بھلا کہاں کا انصاف ہے۔
اگر دیکھا جائے تو بے شمار بچے زیادہ نمبر بھی لیتے ہیں لیکن پون صدی گزرنے کے باوجود کوئی آئن اسٹائن تو پیدا ہوا نہیں بس کسی محکمے کی نوکری ہی مقصد ہوتی ہے سب کی۔
بھکر کے بد قسمت بچے کی آنکھ بھی کسی ایسے ہی نمبرنگ زدہ گھر میں کھلی۔۔زیادہ نمبر کی اس ریس میں پیچھے رہ جانے والے حساس طبیعت بچے نے نہر میں کود کر جان دے دی۔
ایک خط بھی لکھا اس بچے نے، جو لکھا تو بچے نے اپنے باپ کے لیے ہے لیکن شاید یہ خط صرف اس بچے کے باپ ہی نہیں بلکہ سب بچوں کے والدین کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔
ہر انسان مختلف طبعیت، سوچ اور صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ایسے میں والدین کو یہ حق کیسے مل سکتا ہے کے بچے کی تربیت ،سوچ اسکے مستقبل کی فیصلہ سازی اپنے مزاج یا خواہشات کے مطابق کی جائے ۔
سول یہ بنتا ہے ،کیا اس جبری تربیت کا رزلٹ والدین حاصل بھی کر پاتے ہیں؟
میرا جواب تو نہیں میں ہو گا کیونکہ انسان فطرتاً آزاد واقع ہوا ہے لہذا ہمیشہ ہی اپنی فطرت سے ہٹ کر کوئی بھی چیز یا کوئی بھی فیصلہ قبول کرنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے البتہ طبعیت کے فرق کی وجہ سے زیادہ تر متاثرہ افراد بظاہر تو کمپرومائز کر جاتے ہیں لیکن اپنی زندگی کے مقاصد کبھی حاصل نہیں کر پاتے۔
ایک انسان چاہے وہ عمر کے جس بھی حصے میں ہو وہ اپنے کچھ خواب ضرور رکھتا ہے ہم بستر پہ لیٹ کر آنکھیں موندے اپنے لیے جو تصوراتی دنیا قائم کرتے ہیں وہ سب کچھ حاصل کرنا اس لیے ناممکن ہوتا ہے کیونکہ  صبح اٹھتے ہی ہمیں خود پر جبری مسلط کردہ کسی دوسرے کے نظریات اور سوچ کا بوجھ اٹھانا ہوتا ہے۔
مثلاً ایک بچہ رات کو اپنی تصوراتی دنیا میں خود کو ایک ڈاکٹر کے روپ میں دیکھتا ہے لیکن صبح اٹھ کر اسے معاشیات پڑھائی جائے تو اس نے پھر کیا خاک پڑھنا ہے۔
کسی سیاستدان کا بچہ تاریخ میں دلچسپی لے رہا ہو اور اس کا سیاسی والد اسے سیاسیات کی ڈگری لینے کسی فارن کنٹری بھیج دے تو ہمیں اپنی قوم کا لیڈر نہیں بلکہ روایتی سیاستدان ہی نصیب ہو گا۔
سوچنا تو چاہیے ہمیں لیکن شاید ہم نہ  سوچ پائیں کیونکہ ہماری اکثریت ہی اپنے اصل مقام سے ہٹ کر کسی دوسرے کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی کشمکش میں ہے اسی لیے آج عوام کی اکثریت اپنے اپنے فرائض بے دلی سے انجام دیتی نظر آتی ہے شوق ،جوش تجسس اور ذوق سے عاری ہماری قوم جو ایک قوم کے بجائے ہجوم دکھائی دیتی ہے اسکے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما ہیں۔
اپنے والد کے لیے لکھے گئے خط کے چند الفاظ پڑھیے اپنے بچوں کو سامنے رکھ کر تصور کیجیے اور ٹھنڈے دل سے سوچیے ،یہ درد یہ تکلیف کا بوجھ جسے یہ بچہ برداشت نہیں کر پایا اور اپنی جان دے د ی کہیں ایسا ہی بوجھ ہم نے بھی اپنے بچوں پر تو نہیں لاد رکھا؟

Advertisements
julia rana solicitors

بالفرض اگر ہم یہ کچھ نادانستہ کر بھی چکے تو اب بھی وقت ہے ہمیں پہلے خود اپنی تربیت میں درستی کرتے ہوئے اپنے بچوں کا مزاج شناس بننا ہو گا۔
اس کے لیے راقم آپ کے سامنے چند نکات رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
1. والدین کو خود ساختہ اختیارات ختم کرنے ہوں گے۔
2. والدین کو اپنی بات سنانے کے بجائے بچوں کو سننا ہو گا۔
3. والدین کیا چاہتے ہیں کے بجائے بچہ کیا چاہتا ہے کو فوقیت دینی ہو گی۔
4. بچوں کے نقصان کرنے سے غصہ کرنے کے بجائے اس نقصان سے جو کھویا یا سیکھا گیا اس پر  دوستانہ  تبادلہ خیال کرنا ہو گا۔
4. والدین اپنے معاملات میں بچوں کو رائے کا حق ضرور دیں نا کے انہیں ڈانٹ کر اپنے معاملات سے دور بھگایں۔
5. بچوں کی کسی بات کو بھی چھوٹا سمجھ کر نظرانداز نہ کریں بلکہ اس کے  نظریےپر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں ضرور۔
6. والدین کیا جانتے اور سوچتے ہیں اس کی اہمیت نہیں بچہ کیا جانتا یا سوچتا ہے یہ اہم ہونا چاہیے۔
7. بچوں کو سوالات کرنے کا ماحول فراہم کیا جانا چاہیے۔
8. بچوں کے ٹیچر سے یہ جاننا ہو گا کہ  کس نصاب میں ہمارا بچہ زیادہ شوق اور دلچسپی رکھتا ہے۔
یہ کچھ نکات ایسے ہیں جن پر والدین از سر نو توجہ دے کر معصوم پھولوں کو دلبرداشتہ کرنے کے بجائے ان کو پُرشوق زندگی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply