بے ہنر زندگی۔مبارکہ منور

ہمارے گھر ایک خاتون آتی ہیں “مائی  بنتی” نام کی ہر وقت پریشان حال، پینتالیس سے پچاس سال کے درمیان عمر ہوگی، سانولا رنگ دھوپ میں جل کر سیاہ تر ہوچکا ہے. اس خاتون کے بے شمار مسائل ہیں جنہیں اگر میں شمار کرنے لگوں تو شاید پوری طرح سے احاطہ نہ کر پاؤں. آج اس کے جس مسئلہ نے مجھے اس کے بارے میں لکھنے پر مجبور کیا وہ اس کے ہاتھ کا وہ زخم ہے جس کی شکل بگڑ چکی ہے اس زخم کے بگاڑ میں کیا کیا عوامل شامل ہیں اس پر بات کرنے سے پہلے میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اسے یہ زخم لگا کیسے ؟

میں پہلے بھی کئی بار بتا چکی ہوں کہ ہم لوگ دیہات کے رہائشی ہیں اور کھیتی باڑی، اور مویشی وغیرہ پالنا یہاں کا ذریعہ معاش ہے. اور یہ کام ایسے ہیں کہ ان کی انجام دہی میں مرد و خواتین دونوں کی شرکت لازم ہے بلکہ مرد سے کہیں زیادہ عورت کی جفاکشی سے ہی دیہی زندگی مزین ہے . فصل کی بوائی،گڈائی، کٹائی سب میں خواتین کا بھی برابر کا حصہ ہے. اور آج کل چونکہ باجرہ پک چکا ہے تو اس کے “سٹوں” کی کٹائی کا کام ہورہا ہے، باجرے  کی فصل  قریباً قد آدم تک بلند ہوتی ہے اور اُوپر سرے پر سٹا ہوتا ہے.

مائی بنتی درانتی سے انہی سٹوں کو کاٹتے کاٹتے اپنے بائیں ہاتھ کی چھنگلی پر زخم لگا بیٹھی، ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ایک ہی جگہ پر کٹ لگا یہاں تک کہ گوشت اور ہڈی الگ الگ نظر آنے لگے. اتفاق سے یا بے احتیاطی سے ایسے کاموں میں زخم لگ ہی جاتا ہے لیکن بار بار ایک جگہ پر زخم لگنا اتفاق نہیں ہے لاپروائی ہے بلکہ اذیت پسندی ہے.

ہمارے معاشرے میں عورت کو ویسے بھی پیچھے ہی رکھا جاتا ہے بعض اوقات ایسی بھی نفسیات دیکھنے میں آتی ہے کہ   پیچھے کی ہوئی عورت خود کو اور زیادہ پیچھے کرلیتی ہے خود پر  ظلم کرکے پوری طرح سے مظلومیت اوڑھ لیتی ہے اور لوگوں سے ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اپنی محرومیوں کا عجیب طرح سے واویلا کرتی ہے.

یہی بات میں نے   مائی بنتی میں دیکھی۔۔ گو اس میں شک نہیں کہ وہ ایک غریب عورت ہے وسائل کی کمی اور مسائل کی  بھرمار نے نڈھال کررکھا ہے. لیکن جہاں تک مسائل سے بچنا ممکن ہے وہاں تک تو  انسان  اپنی کوشش کر سکتا ہے. مثلاً جیسے ان کا ہاتھ جب پہلی بار زخمی ہوا تھا تو ہوشیار ہوجاتیں گو کہ اس کے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہاتھ زخمی ہونے کے بعد وہ اپنا کام روک لے لیکن اتنا تو ضرور کرسکتی تھی کہ ہاتھ پر کوئی پٹی باندھ لیتی اور آئندہ درانتی کھینچتے وقت اپنا ہاتھ بچا کر کھینچتی تاکہ زخمی ہاتھ مزید زخمی نہ ہوتا.

پھر اس کے بعد اس خاتون نے اپنا علاج بھی خود تجویز کیا اور کیا خوب تجویز کیا یعنی ملتانی مٹی کو پانی میں بھگو کر زخم پر لیپ کردیا. اور کسی نے کوئی جڑی بوٹی بتائی  تو وہ کوٹ کر لگا لی لیکن کسی کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ پہلے اس زخم کو صاف تو کرلیں. کٹ لگنے کے ابتداء میں جو خون بہا تھا وہ اس کے ہاتھ پر زخم کے آس پاس جم کر کھرنڈ بن کر اب بھی موجود تھا جب کہ اس کے زخم کی موجودہ صورتحال پیپ اور سوجن تھی.

Advertisements
julia rana solicitors london

درد سے نڈھال بخار میں تپتی ہوئی  میرے پاس آئی اور کہنی لگی کہ درد کی کوئی گولی ہے تو دو میں نے کہا صرف درد کی گولی سے اسے آرام نہیں آئے گا، بلکہ اس کو پورے علاج کی ضرورت ہے تو کہنے لگی “کیا کراں کتھوں آنا ” اب حالت یہ ہے کہ کام تو اس کے ہاتھ سے گیا ہی لیکن اب خود اس کی جان پر بھی بن آئی  ہے۔۔ خدا کرے کہ اب اسے علاج کی بھی توفیق ہو.
علم اور شعور کی درس گاہوں تک عمومی طور پر عورت کی رسائی بہت کم ہے اور دیہات کی عورت تو خصوصاً بہت ہی پیچھے ہے.

Facebook Comments

مبارکہ منور
واقعات اور ماحول، ہاتھ پکڑ کر مجھ سے اپنا آپ لکھوا لیتے ہیں. اپنے اختیار سے لکھنا ابھی میرے بس میں نہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply