فلسطین (8) ۔ فلسطینی/وہاراامباکر

فلسطینی کون ہیں؟
دہائیوں تک فلسطینیوں کی شناخت سے انکار کیا جاتا رہا۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم گولڈا مائیر نے 1969 میں کہا تھا کہ “فلسطینی کوئی چیز نہیں”۔ باقی دنیا میں بھی فلسطینیوں کو “عرب” کے طور پر دیکھا جاتا رہا جن کی اپنی شناخت نہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو باقاعدہ طور پر 1978 میں تسلیم کیا۔ میڈیا میں ان کے بارے میں منفی تاثر رہا۔
مسئلہ فلسطین کو اس سادہ فیکٹ کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا کہ فلسطینی خود کو ایک قوم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگرچہ کہ ان کے پاس اپنی ریاست نہیں۔ ان کی ریاست کا اجتماعی مطالبہ اس تنازعے کی بنیادی وجہ ہے۔ جلاوطنی اور بے ریاست ہونے نے ان کی قومی شناخت کو مضبوط کیا ہے۔ فلسطینیوں کی شناخت کا ایک مرکزی ستون ان کا اجتماعی سانحہ ہے جسے “ال نکبا” کہا جاتا ہے، جس کے معنی “بڑی آفت” کے ہیں۔ یہ 1948 میں ان کی زمینیں چھین کر ان کو بے دخل کرنے کی ٹریجڈی تھی۔ فلسطینی شناخت مقابلتاً نئی ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے ایسی باقاعدہ شناخت نہیں تھی۔
لیکن نئی ہونے کا مطلب اس کا انکار یا اسے کمزور سمجھنا نہیں۔ نیشنلزم خود ایک جدید کلچرل اور سیاسی فینامینا ہے۔ اس سے پہلے “قوم” کی جدید تعریف موجود ہی نہیں تھی۔ لوگ خود کو اس طریقے سے شناخت نہیں کرتے تھے۔ مقامی آبادی کی طرف سے پہلی باقاعدہ بغاوت مصر کے قبضے کے خلاف 1834 میں ہوئی تھی لیکن اس وقت شہری اور گاوٗں کی بنیاد پر یا قبائلی یا مذہبی شناخت تھی۔ انیسویں صدی کے آخر میں عرب نیشنلزم کے آنے کے بعد عرب شناخت بھی پیدا ہوئی تھی۔ یہ “نوجوان ترکوں” کی حکومت کے دور میں ترک کلچر کے خلاف ردِعمل تھا۔
فلسطینی قوم پرست تنظیمیں پہلی بار جنگِ عظیم اول کے بعد بنیں جب عثمانی سلطنت ختم ہو گئی تھی۔ پہلی فلسطینی کانگریس یروشلم میں 1919 میں ہوئی۔ اس میں اپنے ملک کا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ قرارداد میں کہا گیا کہ “ہم فلسطین کو شام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے قومی، لسانی، مذہبی، معاشی اور اقتصادی روابط ہیں”۔

بہت ساری دیگر قوموں کی طرح فلسطینی قوم جدید تخلیق ہے۔ اور یہ اس کی اہمیت کو قطعاً کم نہیں کرتا۔ (قدیم ہونا کسی کو زیادہ اہم نہیں بنا دیتا)۔
آج فلسطینی ہونے کے لئے فلسطینی علاقے (مغربی کنارے اور غزہ) میں رہائش پذیر ہونا ضروری نہیں۔ نہ ہی تاریخی فلسطین (بشمول اسرائیل) کے علاقے میں پیدا ہونا ضروری ہے۔ کئی فلسطینی دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں جو کبھی فلسطین نہیں گئے اور نہ ہی عربی بولتے ہیں لیکن خود کو فخر سے فلسطینی کہتے ہیں۔ ان کی شناخت ان کی وراثت (والدین یا پھر والدین کے والدین) سے آتی ہے اور ان کی وابستگی کی وجہ قومی بیانیہ اور اجتماعی یادداشت ہے۔
دنیا میں ساڑھے بارہ ملین فلسطینی ہیں جن میں نصف اسرائیل کے علاقے میں رہتے ہیں (بارہ فیصد اسرائیل میں جبکہ اڑتیس فیصد غزہ اور مغربی کنارے میں)۔ غزہ، اسرائیل اور مغربی کنارے میں رہنے والے تین گروپ آپس میں گہرا تعلق رکھتے ہیں لیکن ان میں فرق بھی ہیں، جن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل میں رہنے والے اسرائیلی شہریت رکھتے ہیں اور انہیں آزادی اور مواقع میسر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو 1948 میں نکالے نہیں گئے تھے۔ باقی دو علاقوں پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔ انہیں شہریت نہیں دی گئی۔ مغربی کنارے میں الگ حکومت ہے جبکہ غزہ میں الگ۔ اس کے علاوہ مشرقی یروشلم میں پونے چار لاکھ فلسطینی ہیں اور ان کا سٹیٹس باقی سب سے الگ ہے۔ انہیں اسرائیل میں کام کرنے کی اجازت ہے اور فلاحی پروگراموں تک رسائی بھی ہے۔ ان کا قانونی درجہ اسرائیلی ریزیڈنٹ کا ہے۔
دوسرا سب سے بڑا گروپ اردن میں ہے جہاں بیس لاکھ فلسطینی ہیں۔ زیادہ تر کے پاس اردن کی شہریت ہے۔ اگلا بڑا گروپ سیریا میں تھا لیکن خانہ جنگی چھڑ جانے کے بعد انہیں لبنان کی طرف نکال دیا گیا یا فرار ہونا پڑا۔ لبنان کی آبادی کا دس فیصد (ساڑھے چار لاکھ) فلسطینی مہاجرین ہیں۔ یہاں انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں، جائیداد رکھنے کی اجازت نہیں۔ صحت اور تعلیم کی سرکاری سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ زیادہ تر مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں جو اقوامِ متحدہ چلا رہی ہے۔ زیادہ تر شدید غربت میں ہیں۔
عرب ممالک سے باہر فلسطینی کمیونیٹی وسطی اور جنوبی امریکہ، مغربی یورپ اور امریکہ میں ہے۔
فلسطینیوں میں نوے فیصد مسلمان ہیں۔ چھ سے سات فیصد کرسچن ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسطینی شناخت کا انکار کیوں کیا جاتا ہے؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ کئی لوگوں کو پہچاننے میں دشواری ہوتی ہے۔ “یہ عرب ہی تو ہیں”۔ اور اگر آپ اسرائیلی ہارڈلائنر ہیں تو کہیں گے کہ مراکش سے عمان تک بائیس عرب ممالک ہیں۔ ایک اور ملک کاہے کے لئے؟ اور کیا یہ بائیس ممالک انہیں جگہ نہیں دے سکتے؟ یہ دلائل اسرائیل میں دہائیوں سے دئے جا رہے ہیں۔ ٰ اور یہ وجہ ہے کہ اس کو “عرب اسرائیل تنازعہ” کہنا فلسطین میں ناپسند کیا جاتا ہے۔
فلسطینی عربی زبان بولتے ہیں۔ کلچر کے حوالے سے باقی عربوں سے کئی چیزیں مشترک ہیں لیکن جتنے مختلف لبنانی، مصری یا عمانی ہیں، اتنے ہی فلسطینی بھی الگ ہیں۔
عرب خود ایک قوم نہیں۔ کلچر اور تاریخ میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ کُل پینتیس کروڑ عرب ہیں جن میں سے تقریباً سوا کروڑ عرب ہیں جو غیرمسلم ہیں۔ وسیع تر مسلمان دنیا میں عرب مسلمان آبادی کا بیس فیصد ہیں۔
پین عرب ازم یا عرب قومیت کے نظریے کا عروج 1950 کی دہائی کے آخر اور 1960 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں تھا۔ لیکن 1967 کے بعد فلسطینی نیشلزم نے اس کی جگہ لے لی۔ اور اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے شناخت کے معاملے کو تسلیم کرنا اہم ہے۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ لگی تصویر فلسطینی شہر رام اللہ کی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply