کرپشن سکینڈلز اور اپوزیشن کی خاموشی۔۔محمد اسد شاہ

ایک بات تو طے ہے کہ صحافت کی آزادی کا جو دعویٰ موجودہ حکومتی مشینری پورے طمطراق سے کرتی ہے ، اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا ۔ صحافت نہ صرف سیاسی حکومت ، بلکہ بعض سرکاری و نجی اداروں کے آگے بھی مجبور ہے ۔ اشتہارات کا معاملہ تو سب سمجھتے ہیں ۔ آپ عوام تک حکومتی پسند و ناپسند کی بجائے خالص سچائی پہنچانے کی کوشش کریں تو آپ کی آنکھ اچانک تب کھلے گی جب آپ کا اخبار یا چینل سرکاری اشتہارات کو ترسے گا ، یا گزشتہ کئی ماہ یا سال بھر کے اشتہارات کی واجب الادا رقوم ملنے کے راستے بند نظر آئیں گے ۔ آپ کو فون بھی آ سکتے ہیں یا ٹیکسٹ میسجز کہ فلاں شخص یا جماعت کی کوریج کم کرو ، فلاں کی تقریر نشر نہیں کرنی ۔ جیسے جنرل پرویز مشرف اشتہاری ، عدالتی مفرور ، عدالتوں کو مطلوب اور سزا یافتہ ہے ، بیماری کی وجہ سے تقریر نہیں کر سکتا ، لیکن اس کی تقریر یا انٹرویو نشر کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ لیکن دوسری طرف محمد نواز شریف اور محمد اسحاق ڈار کی تقاریر نشر کرنے پر اسی وجہ سے پابندی ہے کہ وہ سزا یافتہ ہیں ۔

کیسی سائنس ہے؟ فلاں کے جلسے یا جلوس کی کوریج ایسی رکھو کہ عوام کی نظر میں اس کی اہمیت نہ رہے ، فلاں کے خلاف مقدمہ عدالت میں ہے پھر بھی اس پر روزانہ ٹاک شوز کرو ، بے فکر رہو ، کوئی نوٹس جاری نہیں ہو گا ، ملزم کو اتنا بدنام کرو کہ عدالت کی بجائے ٹی وی پر ہی فیصلہ ہو جائے ، عوام کا “ذہن” بناؤ کہ سزا لازمی بنتی ہے ، ایسی بھد اڑاؤ کہ جھوٹ اور سچ میں فرق نہ رہے ، بلکہ عدالت پر بھی دباؤ پڑے اور “من چاہا” فیصلہ حاصل کرنے میں آسانی رہے ، لیکن فلاں معاملے کو مکمل نظر انداز کرو ، اس پر کوئی ٹاک شو یا کالم نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ معاملہ عدالت میں زیر ِ سماعت ہے ، فلاں خبر لگانا اگر ضروری ہے تو پہلے یا آخری صفحے کی بجائے اندرونی صفحات میں لگاؤ اور وہ بھی سنگل کالم !

بعض میڈیا گروپس یا اداروں کے اندر بھی بہت سی پابندیاں ہوتی ہیں ۔ بعض مالکان کا بھی مخصوص ذہن یا ایجنڈہ ہوتا ہے ۔ مثال کے طور ایک اخبار گزشتہ حکومت کے دوران عمران خان کے جلسوں اور بیانات کو بہت زیادہ اہمیت دینے ، اور حکومت پر انتہائی سخت تنقید اور طنز کرنے کے حوالے سے مشہور تھا ۔ اس اخبار کے کالمز بھی عموماً اشتعال انگیز حد تک نواز حکومت کے خلاف ہوا کرتے تھے ۔ لیکن اسی اخبار کے مستقل کالم نویسوں میں سے ایک نے اگر کسی دن خاں صاحب کے بعض اقوال و افعال میں تضاد پر تنقیدی کالم لکھ بھیجا ، تو اخبار نے چھاپنے سے معذرت کر لی ۔ کالم نویس نے وجہ پوچھی تو ایڈیٹر صاحب نے الٹا وزیراعظم کی صاحب زادی کے خلاف کالم لکھنے کی “فرمائش” کر دی ۔

یہ تو چند مثالیں تھیں ۔۔ حقیقت یہ ہے کہ صحافت کی آزادی ابھی تک صرف ایک خواب ہے جس کے پورا ہونے کی دعا ہی کی جا سکتی ہے ۔ دوسری طرف ایک مخصوص سیاسی سوچ کے حامل بعض صحافیوں پر جسمانی حملوں ، میڈیا ٹرائل اور عدالتوں میں درخواستوں کے ذریعے ایسا دباؤ نظر آتا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ اس کے باوجود باشعور قلم کار اور صحافی یہ سمجھتے ہیں کہ احتجاج کے آداب ملحوظ خاطر رکھے جائیں اور سرکاری اداروں کے خلاف بے ثبوت پروپیگنڈا نہ کیا جائے ۔

اب ذرا ایک نظر صرف اس خسارے پر ڈالیے جو عمران حکومت کے دوران قومی ایئرلائن کو درپیش ہے ۔ گزشتہ دنوں سینیٹ میں ایک سوال کے جواب میں خود حکومت نے تسلیم کیا کہ جون 2020 میں وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے ایک بیان میں پاکستانی پائلٹس کے لائسنسز جعلی قرار دیئے تو برطانیہ ، اٹلی ، سپین ، ناروے ، ڈنمارک اور فرانس نے 30 جون 2020 سے پی آئی اے کے فلائٹ آپریشنز معطل کر دیئے ، جو تاحال معطل ہی ہیں ۔ حکومت نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس تعطل سے ہونے والے نقصان کے اعداد و شمار کا درست حساب تو لگایا ہی نہیں جا سکتا، البتہ پروازوں کی اس بندش سے ہونے والے نقصان کا گزشتہ صرف چھ ماہ کا تخمینہ 7.9 ارب روپے ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سال بھر میں تقریباً 15 تا 20 ارب روپے کا ٹیکا اس غریب قوم کو صرف غلام سرور خان کے بیان کے ذریعے لگ چکا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ تین سالوں میں عمران حکومت کی کرپشن کے کئی سکینڈلز سامنے آ چکے ہیں ۔ رنگ روڈ کرپشن اور پی آئی اے کا یہ نقصان تو اسی ایک ماہ کی باتیں ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ اپوزیشن ان معاملات پر موثر طور پر زوردار آواز نہیں اٹھاتی ۔ میاں محمد نواز شریف ، مولانا فضل الرحمٰن ، محترمہ مریم نواز ، آصف علی زرداری ، بلاول زرداری اور شہباز شریف سمیت سب چپ ہیں ۔ مخالفین کو کرپٹ کہہ کر لمبی لمبی تقریریں جھاڑنے والے عمران خان بھی اپنے وزراء اور ان کرپشن سکینڈلز پر مطمئن ہیں ۔ کیا ان کے پاس اتنا سا اختیار بھی نہیں کہ غلام سرور خان کو وزارت سے ہٹایا جا سکے ؟ کیا نیب اس کو طلب بھی نہیں کر سکتا ؟ پی آئی اے کی مد میں قوم کے اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے ؟ کس سے وصول کیا جائے گا ؟ کیا ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز بھی اس پر عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹائے گی ؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply