ڈاکٹر بیٹی کے نام (1)۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

الحمدللہ ، آج ہماری بیٹی میمونہ کا رزلٹ تھا، اور وہ ڈاکٹر میمونہ اظہر بن چکی ہے۔ اس نے بڑے فخر سے اپنی فیس بک پر لکھا :

Alhamdulillah! Continued the legacy…… MBBS!

میمونہ! میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میرا ورثہ صرف ایم بی بی ایس نہیں ہے۔ میری وراثت اگر حاصل کرنی ہے تو ڈاکٹر بننے کے علاوہ بھی تمہیں بہت کچھ حاصل کرنا ہو گا ۔۔۔ یا پھر کھونا ہو گا، کیونکہ بہت سی قیمتی چیزیں ایسی ہیں ‘جو ہم کھو کر پاتے ہیں۔ ہم اپنی اَنا کھو دیتے ہیں اور عزت پاتے ہیں، ہم دولت کی لالچ کھو دیتے ہیں اور قناعت کی دولت حاصل کرتے ہیں، جب ہم مسابقت اور مخالفت کھو دیتے ہیں تو اس کے مقابلے میں پائیدار تعلقات اور تعلقات میں سکون کی ایک ہوائے خنک پاتے ہیں۔۔۔ الغرض ہم خود غرضی کھو کر اخلاص کی خوشبو پالیتے ہیں۔یوں سمجھو کہ محبت اور خدمت ایسے تمام مثبت اور تعمیری جذبے پانے کے لیے ہمیں نفرت ، بغض اور حسد جیسے تمام منفی جذبوں کو کھونا پڑتا ہے۔

ایم بی بی ایس کی ڈگری صرف ایک پروفیشنل ڈگری ہے، یوں سمجھو کہ یہ ایک میڈیکل ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا لائسنس ہے۔ یہ تعلیمی ہتھیار کہاں اور کیسے استعمال کرنا ہے‘ اس پر تمہاری دنیا اور پھر عاقبت کا انحصار ہے۔ فی زمانہ کوئی بھی تعلیمی ڈگری ہو‘ یہ ہمیں ایک سماجی اور معاشی طاقت دیتی ہے، اب یہ طاقت کا استعمال ہے‘ جو کسی کو راہبر بناتا ہے تو کسی کو راہزن۔ طاقت فی نفسہٖ اچھی ہوتی ہے‘ نہ بُری ، اِس کا استعمال ہے‘ جو اچھا یا بُرا ہوتا ہے۔ کوئی تعلیم دینی یا دنیاوی نہیں ہوتی بلکہ یہ تعلیم حاصل کرنے والا بندہ ہے‘ جو دینی یا پھردنیاوی ہوتا ہے۔ اگر ایک دین دار آدمی سائینس پڑھتا ہے تو یہ بھی دین ہے کیونکہ وہ اِس علم کی طاقت سے بنی نوعِ انسانی کے لیے فلاح ، خوشی اور خوشحالی کا سامان کرے گا، اگر ایک دنیا دار انسان بظاہر کسی دینی مدرسے میں دینی نصاب کی تعلیم لے رہا ہے اور وہ تزکیۂ نفس کی سعادت سے دُور ہے‘ تو عین ممکن ہے کہ وہ اپنے مقدس دینی علم کو فرقہ واریت ، تعصب اور فکری تخریب کے لیے بروئے کار لے آئے۔

یاد رکھو! طب شعبہ دراصل چپکے سے درویش بننے کا شعبہ ہے۔ یہ شعبہ گھر بیٹھے نیکیاں کمانے کا ایک آسان موقع فراہم کرتا ہے۔ یہاں تمہیں خاموش خدمت کے بے انتہا مواقع میسر آئیں گے۔ خدمت کے لیے محبت کا ہونا لازمی ہے۔ انسانوں سے محبت کیے بغیر تم زیادہ دیر تک ان کی خدمت نہیں کر سکو گی۔ بغیر محبت خدمت تمہیں تھکا دٹ اور اکتاہٹ دے گی۔ اپنے غریب مریض کو امیر سے زیادہ پروٹوکول دو۔ غریب سے ضرور مسکرا کر بات کیا کرو۔ غریب کے بچے کو ایک بار ضرور پیار سے دیکھ کر چمکارو، اس سے کوئی ہنسی مذاق کی بات کرو، اس چھوٹے سے عمل سے غریب ماں کا دل بہت خوش ہوگا۔ نیکی کے لیے جیب میں پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ دل میں حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔

انگریزی میں مریض کو patient کہتے ہیں، اور یاد رکھو patient is always impatient ، تم نے محاوہ سنا ہو گا، تنگ آمد بجنگ آمد، یعنی جب انسان تنگ آجاتا ہے تو وہ جنگ کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مریض کی جھلاہٹ، بوکھلاہٹ اور غصے کا کبھی جواب نہ دو۔ وہ بے چارہ تکلیف میں ہے ، حالت ِ اضطرار میں ہے، مجبور ہے۔ مجبور انسان معذور ہوتا ہے، اور معذور کے ساتھ ایک صحتمند انسان کا الجھنا درست نہیں۔ یاد رکھو! مریض کے دکھ کے سامنے اپنا علم بیان نہ کرنا۔ اُس علم کا کوئی فائدہ نہیں جو کسی کے دُکھ دَرد کی چھاؤں نہ بن سکے۔

ڈاکٹر میمونہ! انسان ایک مشین نہیں اور نہ تم کسی مشین کی مکینک ہو‘ کہ چند گیجٹس اور لیب ٹیسٹ سے جھٹ سے تشخیص کرو، اور دوا لکھ کر فارغ ہو جاؤ۔ اگر صرف یہی کام کیا تو سمجھو تم نے ایک ادھورا کام کیا۔ انسان جذبات کا ایک مرقع ہے، اس میں دل اور احساسات کی کائنات رقص کر رہی ہے۔ جسم اُس کی شخصیت کا بس ایک جزو ہے، اور بس۔۔۔ اصل انسان اِس کے پیچھے ہے،اگرتم اُس انسان سے مخاطب نہ ہوسکی تو سمجھو تم نے کچھ کام نہ کیا، یعنی اصل کام نہ کیا۔آج سے پچیس برس قبل جب میں نے کلینک شروع کیا تومیرے پیر بھائیٗ اللہ غریقِ رحمت کرے ٗ حسن محمد سوہلوی میرے پاس بیٹھے مریضوں کے ساتھ میری گفتگو سن رہے تھے۔ جب مریض رخصت ہو گئے تو مجھے حیرت سے کہنے لگے ’’یار! تم تو اپنے مریضوں کے اندرتک چلے جاتے ہو‘‘ یاد رکھو! تمہارے علم کی کمی کو اخلاق پورا کر سکتا ہے لیکن اخلاق میں کمی کو علم پورا نہیں کر سکتا۔ اپنے علم سے مایوسی نہ پھیلانا بلکہ امید کی روشنی بننا۔ موت برحق ہے ، لیکن تم زندگی کی علامت ہو۔ ہر چیز اپنے طے شدہ اصولوں کے مطابق ترتیب ، تکمیل اور اختتام کے مراحل تک پہنچتی ہے لیکن یاد رکھنا دُعا اکثر اوقات دوا سے زیادہ کارگر ہوا کرتی ہے۔

رزق کے بارے میں کبھی تشویش میں مبتلا نہ ہونا۔ تمہیں یاد ہے‘ ایف ایس سی کے بعد میں نے تمہیں بہت قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ تم کسی اور شعبے میں چلی جاؤ، اُردو یا انگریزی میں ماسٹر کر لو، فائین آرٹس میں داخلہ لے لو، لیکن تم بضد تھیں کہ میڈیکل ہی میں داخلہ لینا ہے۔ ذرا سوچو! کس ڈاکٹر کو شوق نہیں ہوتا کہ اُس کے بچے بھی ڈاکٹر بنیں لیکن میں نے تمہیں ڈاکٹر بننے سے خود روکا۔۔۔جانتی ہو‘ کیوں؟ ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ بہت مشقت والا شعبہ ہے، اور تم ہو‘ ہمارے گھر کی ایک ناز پری، میں چاہتا تھا کہ تم کوئی ہلکا پھلکا کام کرو۔۔۔ اور دوسری اہم اور خاص وجہ یہ تھی کہ تم مزاج کی بہت تیز ہو، غصہ ہر وقت عینک کی طرح تمہاری ناک پر ہوتا ہے، مجھے خدشہ تھا کہ تم اپنے مریضوں کے حق میں شاید ایک اچھی ڈاکٹر نہ بن سکو۔ یاد رکھو! ایک کامیاب ڈاکٹر اور ایک اچھے ڈاکٹر میں فرق ہوتا ہے۔ اچھا ڈاکٹر بننے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اس سوچ سے نکلنا ہوتا ہے کہ ہمارا شعبہ پیسے کمانے کا ذریعہ ہے۔ طب اور تعلیم میں اصل چیز خدمت ہے ، خدمت کا معاوضہ ایک نذرانہ ہے، اور وہ بھی نذرانۂ محبت۔ فیس والے مریض اور فیس نہ دینے والے مریض تمہاری نظر میں یکساں محترم ہونے چاہییں۔ اگر درویش بننے کا ارادہ ہو تو میں کہوں گا کہ فیس نہ دینے والے مریض فیس والے مریضوں سے زیادہ اہم ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ درویشی ایک مزاج ہے، تعلیم سے کسی کو درویش نہیں بنایا جاسکتا۔

پرانے زمانے میں طب کو حکمت کہتے تھے اور ڈاکٹر کو حکیم۔۔۔ بس اِس لفظ سے یاد رکھو کہ ہر مریض سے الگ حکمت سے پیش آنا ہے۔ یہاں عقل سے زیادہ دانائی سے کام لینا ہے اور علم سے زیادہ محبت سے!! فی زمانہ طب کا شعبہ کچھ اس طرح ترتیب پا گیا ہے اور ترقی کر گیا ہے کہ ڈاکٹر صرف مشورہ دیتا ہے اور باقی کام فارماسسٹ اور فارما کمپنیاں کرتی ہیں۔ یاد رکھو! اپنے مریض کو ایک درست ، مخلص اور صائب مشورہ دینا تم پر فرض ہے۔ اگر تم نے درست مشورہ نہ دیا تو سمجھ لو کہ تم نے خیانت کی۔ حدیث پاک میں درج ہے کہ مشورہ ایک امانت ہے۔ جس نے درست مشورہ نہ دیا اس نے امانت میں خیانت کی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مادّی لالچ تمہیں مشورے ایسی امانت میں خیانت پر مجبور کر دے۔ تم جب بھی مشورہ دو‘ تو بس یہ دیکھو کہ مریض کا فائدہ کس میں ہے۔۔۔ یہ کبھی نہ دیکھنا کہ تمہارے کلینک کا فائدہ کس میں ہے۔ اپنے مریض کو اپنے ایک فیملی ممبر کی طرح سمجھو ، اُسے بے جا ٹیسٹوں کی مشقت اور مہنگی دوائیوں سے بچانے کی کوشش کرو۔ دوا تجویز کرتے ہوئے یہ خیال رکھو کہ یہ دَوا اُس مریض کی قوت ِ خرید کے مطابق ہے بھی یا نہیں، اگر ایک غریب مزدور کو مہنگی دوا لکھی گئی تو وہ بے چارہ دَوا لے گا یا روٹی کھائے گا۔ کمپنیوں سے ملنے والے فری سیمپل صرف غریب مریضوں کے لیے مختص کر دو۔ جب کوئی مخلوقِ خدا کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے تو مخلوق کا خالق اسے ایسی جگہوں سے رزق عطا کرتا ہے‘ جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ خالقِ کائنات کے پاس اپنے مخلص بندوں کو نوازنے کے ایسے ایسے طریقے ہیں کہ انسان کی عقل ورطہ ٔحیرت میں ڈوب جاتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کہتے ہیں”رِزق صرف یہی نہیں کہ جیب میں مال ہو‘بلکہ آنکھوں کی بینائی بھی رِزق ہے۔ دماغ میں خیال رِزق ہے۔دِل کا اِحساس رِزق ہے۔ رگوں میں خون رِزق ہے ،یہ زندگی ایک رِزق ہے ‘اور سب سے بڑھ کر ایمان بھی رِزق ہے”
آسانی کے لیے یوں سمجھ لو کہ تمہارے دل میں خوبصورت احساس بھی رزق ہے، لوگوں کے دل میں تمہارے لیے عزت کا پیدا ہو جانا بھی رزق ہے ، لوگوں کی دعاؤں میں تمہارا نام شامل ہونا بھی رزق ہے… بس ایک اعلیٰ رزق کو چھوڑ کر ایک ادنیٰ رزق کے پیچھے نہ چل پڑنا۔ یہ گھاٹے کا سودا ہوگا۔ یہ چند سطور‘ سامانِ پند و نصائح ہی نہیں بلکہ اس شعبے کا آئین ِ عمل ہے، اگر اس پر عمل پیرا ہو گی تو دنیا کے ساتھ ساتھ تمہارا دین بھی اچھا ہو جائے گا اور کل کلاں تمہاے باپ کے حق میں صدقہ جاریہ ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری دعا ہے‘رب کائنات تمہیں اور تم جیسے ہزاروں فارغ التحصیل ڈاکٹروں کے ہاتھ میں تاثیر مسیحائی دے‘اُس دانائے سُبل ختم الرّسُل ؐ ِ مولائے کلؐ ، شفیع المذنبین ، شافعِ محشر، طبیب ِ دوعالم ؐکے نام کے صدقے کہ جس نام سے نبضِ ِ ہستی تپش آمادہ ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply