روتے ہو تو پارٹی کیوں چھوڑتے ہو؟ -محمد اسد شاہ

مجھے ذاتی طور پر اس بات سے کوئی خوشی نہیں ہوئی کہ لوگ عمران اور اس کی پارٹی پی ٹی آئی کو چھوڑ رہے ہیں یا اس سے لاتعلقی کے اعلانات کر رہے ہیں- سوچنا چاہیے کہ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور کب کر رہے ہیں- پی ٹی آئی کے اکثر حامی اس سلسلے کو بعض اداروں کے خوف یا کسی حکومتی جبر کا نتیجہ سمجھ رہے ہیں- میرے خیال میں ان کی یہ سوچ بھی سراسر غلط اور بے بنیاد ہے- آئیے ذرا غور کرتے ہیں کہ یہ سب کیوں، کیسے اور کس طرح ہو رہا ہے-

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران سے لاتعلقی اختیار کرنے والے لوگوں میں اب تک جو چند نام اہم ہیں وہ شیریں مزاری، فواد چودھری، ملیکہ بخاری، اسد عمر، مراد راس اور گلوکار ابرارالحق کے ہیں- یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے عمران کی سلیکٹڈ حکمرانی کے دور میں سب سے زیادہ مزے لیے، مفادات سمیٹے، شہرت کمائی، عہدے حاصل کیے، اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں اٹھتے، بیٹھتے اور لطف اندوز ہوتے رہے- وزارتیں لیں، میڈیا کے سامنے بھاشن جھاڑتے رہے اور خود کو عقل کل سمجھتے رہے- میرا خیال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عمل انتہائی بزدل، تھڑ دلے، گھٹیا اور منافق لوگوں والا ہے- ان کے علاوہ باقی جن لوگوں نے اب تک عمران سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے وہ سیاسی میدان میں اتنے اہم نہیں کہ ان کے جانے سے پی ٹی آئی صفحہِ ہستی سے ختم ہو جائے- یہ وہ لوگ ہیں جو چلتی ہوا کے ساتھ اس طرح اڑتے ہیں جیسے آندھیوں میں پلاسٹک کے لفافے (شاپر) اڑا کرتے ہیں، جن کی کوئی سوچ یا منزل نہیں ہوا کرتی- یہ اب کچھ عرصہ اسی طرح سکون کریں گے جیسے آندھیاں تھم جانے کے بعد استعمال شدہ شاپرز کچی بستیوں کی گلیوں میں، خالی قطعات ارضی (پلاٹوں) میں اور کوڑے کے ڈھیروں پر پڑے رہتے ہیں- اور پھر کسی دن کسی نئی آندھی کے ساتھ نئی منزل کی طرف محو پرواز ہو جائیں گے- ویسے آندھیوں کے ساتھ شاپرز کی طرح اڑتے پھرنے والی تاریخ تو خود عمران خان کی بھی ہے، جو کرکٹر تھا تب بھی کبھی جنرل ضیاء الحق سے ملاقاتیں کرنے کے لیے ایوان صدر کے باہر بیٹھا ہوتا تھا اور کبھی تب کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف کے ماڈل ٹاؤن والے گھر پر حاضریاں دیتا تھا- پھر جب یہ سیاست میں آیا تو کبھی جنرل حمید گل کے زانوؤں میں بیٹھتا تھا اور کبھی جاوید احمد غامدی کے- کبھی جنرل پرویز مشرف کے گیت گایا کرتا تھا اور بدلے میں کتوں کے تحفے وصول کرتا تھا- 2002 کی پارلیمنٹ میں عمران نے وزیراعظم کے عہدے کے لیے جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن کے حق میں ووٹ دیا- پھر 2008 تک عمران، مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف کے قصیدے پڑھتا رہا- تب یہ اپنی ہر تقریر اور ہر انٹرویو میں ملک بھر کے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے میاں صاحب کی تعریفیں کیا کرتا تھا- بل کہ ایک انٹرویو میں تو اس نے بجلی کے پراجیکٹس اور دیگر کارناموں کے حوالے سے میاں صاحب کے ساتھ ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کی بھی تعریفیں کیں- تب شیخ رشید، الطاف حسین اور پرویز الہٰی کو یہ شخص بہت برا بھلا کہا کرتا تھا- لیکن 2010 کے بعد سب کچھ الٹ کرنے لگا- یہی معاملہ فواد چودھری کا بھی ہے- فواد چودھری، عمران کے اسی طرح “شدید قریب” ہو گیا تھا، جس طرح کبھی جنرل پرویز مشرف، کبھی آصف علی زرداری و یوسف رضا شاہ، اور کبھی پرویز الہٰی کے قریب ہو گیا تھا- اتنی قربت اختیار کرنے، اتنے قصیدے گانے اور اتنے مشورے منوانے والے کا نام عمران کے نورتنوں کی پہلی فہرست میں ہی ہونا چاہیے تھا-
جو لوگ آج پی ٹی آئی سے الگ ہو رہے ہیں، یہ کسی تشدد یا جبر کے نتیجے میں ایسا نہیں کر رہے- ورنہ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ کسی دوسری جماعت میں شمولیت کا اعلان بھی ضرور کرتے، جیسا کہ عمران ہی کے نادیدہ سرپرستوں نے 2010 سے 2018 تک دوسری جماعتوں، خصوصاً مسلم لیگ نواز کے لوگوں کو نہ صرف وہ جماعتیں چھوڑنے پر مجبور کیا، بل کہ انھیں عمران کی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے اور سرخ و سبز رنگ کا دوپٹہ اپنے گلوں سے لٹکانے پر بھی مجبور کیا تھا- لیکن اب معاملہ بہت مختلف ہے- ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ پی ٹی آئی چھوڑنے کے اعلانات کر رہے ہیں وہ کسی دوسری جماعت میں شمولیت کا اعلان نہیں کرتے- اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ان لوگوں پر کوئی دباؤ یا تشدد نہیں ہوا- یہ لوگ دراصل وہ ہیں جو اقتدار پرست ہیں- یہ کسی نظریئے یا اصول کے تحت سیاست نہیں کرتے- ان کی زندگیوں کا مقصد صرف اقتدار میں رہنا، ذاتی گروہی و مالی مفادات سمیٹتے رہنا اور عیاشی کرنا ہے- ایسے لوگ کیوں جیل جائیں یا مقدمات بھگتیں؟ عمران بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق ایک خود پرست اور دولت پرست ذہنی مریض ہے جس کی ساری سیاست صرف نفرت، اشتعال اور جھوٹ پر کھڑی ہے- آپ نے عمران کو کبھی مثبت گفت گو کرتے نہیں سنا ہو گا- ہمیشہ دوسروں کے متعلق نفرت و حقارت کی باتیں کرنا، ان پر بے بنیاد الزامات لگانا اور خود اپنی تعریفیں کرنا اس کی پہچان ہے- جو جو لوگ آج یہ کہہ کر پی ٹی آئی کو چھوڑ رہے ہیں کہ وہ 9 مئی کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا ساتھ نہیں دے سکتے، انھوں نے 2014 میں پی ٹی آئی کو کیوں نہ چھوڑا جب پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد سنٹر پر قبضہ کر کے نشریات بند کروا دی گئی تھیں؟ انھوں نے تب پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کیوں نہ کی جب پارلیمنٹ ہاؤس پر ہتھیاروں اور اوزاروں سمیت حملہ کیا گیا، اور اس کا ایک بڑا دروازہ اور دیواروں کے کئی حصے گرا دیئے گئے؟ انھوں نے تب عمران سے علیحدگی کیوں نہ اختیار کی جب وزیراعظم ہاؤس پر حملہ کیا گیا، جب سپریم کورٹ کے ججز کو عدالتوں میں جانے سے روکا جا رہا تھا، جب 126 دن تک ایک منتخب وزیراعظم پاکستان کو بغیر کسی جرم کے، گالیاں بکی جاتی رہیں، جب شاہراہ دستور پر پولیس افسران اور ملازمین کو لٹا کر ڈنڈوں اور لاتوں سے مارا گیا، جب نجی ٹی وی چینلز کے دفاتر پر حملے کیے گئے، جب صحافی خواتین اور اینکرز پر پتھراؤ کیا جاتا رہا اور ان کے متعلق نہایت گھٹیا زبانیں استعمال کی جاتی رہیں، جب ان کا لیڈر تھانے پر حملہ کر کے حوالات سے مجرموں کو زبردستی نکال کر لے گیا تھا، یا جب لاہور مال روڈ پر کھڑے ہو شیخ رشید اور عمران خان نے پارلیمنٹ پر لعنتیں برسانے کا مقابلہ کیا تھا؟ جی ہاں، وجہ یہ تھی کہ تب مقتدر حلقوں کی جانب سے عمران اور اس کے سپورٹرز کو ہر قسم کا تحفظ اور پشت پناہی حاصل تھی- لیکن 9 مئی 2023 کو جب پی ٹی آئی کے لوگوں نے پاکستان کے دفاعی اداروں پر حملے کیے- جناح ہاؤس، کور کمانڈرز ہاؤس لاہور، جی ایچ کیو، ایم ایم عالم کے جہاز، رینجرز کی چوکی، ریڈیو پاکستان پشاور، اور شہداء کی تصاویر پر حملے کیے گئے تو مقتدر حلقوں سمیت پوری قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا- پوری قوم کا اس بات پر اجماع ہو گیا کہ افواج پاکستان پر حملے کرنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جانا چاہیے اور انھیں ہر صورت منطقی انجام تک پہنچایا جانا ضروری ہے تو مفاد پرست لوگوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہ گیا کہ وہ نفرت و دہشت کی سیاست سے علیحدگی کا اعلان کر دیں- یہ اعلان بھی وہ دل سے نہیں کر رہے- یعنی انھیں ایسی گندی سیاست اور دفاعی اداروں پر حملوں سے شاید ذاتی طور پر کوئی صدمہ نہیں پہنچا- آپ نے دیکھا کہ وہ جب ان حملوں کی مذمت کرتے ہیں تو ان کے چہرے سپاٹ اور بے تاثر ہوتے ہیں- لیکن جب پی ٹی آئی سے علیحدگی کے الفاظ بولتے ہیں تو ان کی آواز بھرا جاتی ہے، آنکھوں سے آنسو امڈ آتے ہیں، گلا رندھ جاتا ہے، اور بولنا دشوار ہو جاتا ہے- آپ نے شیریں مزاری اور اسد عمر کے چہروں پہ غور کیا ہو گا- آپ نے مراد راس کا گلا رندھتا اور آواز بند ہوتی محسوس کی ہو گی- آپ نے گلوکار ابرارالحق کو باقاعدہ روتے اور آنسو پونچھتے دیکھا ہو گا- سوال یہ ہے کہ انھیں اگر پی ٹی آئی چھوڑنے سے اتنا صدمہ ہے تو کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ اور اگر مقدمات سے ڈرتے ہیں تو ان چار سالوں میں کیوں خاموش تھے جب سرکاری اداروں کے افسران کو وزیراعظم ہاؤس میں طلب کر کے حکم دیا جاتا تھا کہ اپوزیشن کے فلاں فلاں لوگوں کے خلاف کوئی ایسے مقدمے بنائیں کہ وہ سالہا سال تک رہا نہ ہو سکیں؟ جواب وہی ہے جو میں اوپر لکھ چکا ہوں- دفاعی اداروں پر حملوں کی مذمت کرتے وقت ان کے آنسو نہیں نکلتے، کیوں کہ اس پر ان کا صدمہ صرف زبانی کلامی ہے اور مقصد صرف یہ ہے کہ یہ ان حملوں کی جواب دہی سے بچنا چاہتے ہیں- ان کا اصل صدمہ اور آنسو تو تب ظاہر ہوتے ہیں جب یہ پی ٹی آئی چھوڑنے کے الفاظ کہتے ہیں- اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت کو اب کوئی قابلِ ذکر جماعت قبول کرنے کو تیار نہیں- مسلم لیگ نواز کے پاس تقریباً ہر حلقے میں اپنے امیدوار موجود ہیں- اس لیے اس نے اب پی ٹی آئی چھوڑ کر آنے والوں پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں- ان میں سے چند لوگوں کو ق لیگ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میں جگہ صرف اس لیے مل رہی ہے کہ ان تین جماعتوں کے پاس پنجاب کے اکثر اضلاع میں امیدوار نہیں ہیں- پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب کے جنوبی حصے میں تو امیدوار ہیں، لیکن وسطی اور شمالی حصے میں حالات پتلے ہیں- یہ لوگ رو اس لیے رہے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی میں رہیں تو اپنے حلقوں کے عوام کے سامنے 9 مئی والے واقعات کی کیا توجیہ پیش کریں گے؟ اور اگر پی ٹی آئی چھوڑیں تو کون سی جماعت انھیں ٹکٹ دے گی؟ مزے اور تعیشات کا دور ختم ہوتا نظر آتا ہے تو آوازیں بھرا جاتی ہیں-

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply