فلسطین , تُرکی اور نعرے باز مجمع۔۔یاسر حمید

اسرائیل و فلسطین کا ایشو آج کل ٹرینڈنگ پر چل رہا ہے کئی خبریں نظروں سے گزرتی ہیں سوچا کچھ ایسی خبریں آپ سے شئیر کروں جو آپ کی نظروں سے شاید  نہیں گزریں ۔

بھارتی  وزیراعظم مودی  بھارت کے وزیراعظم پہلے  ہیں جنہوں نے 2018 میں فلسطین کا دورہ کیا اور اس دورے میں فلسطینی حکومت نے انہیں بہت پروٹوکول دیا اور مودی کو ایوارڈ گرینڈ کالر آف فلسطین پہنایا جو ریاست فلسطین کا اعلیٰ  ترین اعزاز ہے۔ اس دورے میں فلسطینی صدر محمود عباس (جو آج بھی وہاں صدر ہیں)نے بھارت کا فلسطین کا ساتھ دینے کو بھی سراہا۔ یہاں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ  بھارت نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہونے کے باوجود اقوام متحدہ کی اسرائیل کے خلاف یروشلم میں قبضے اور سفارت خانوں کی منتقلی پر قرارداد میں اپنا ووٹ ڈالا۔

2017 راولپنڈی فلسطین کے حق میں ایک ریلی نکالی گئی جس میں فلسطین کے پاکستان میں سفیر سمیت ہزاروں پاکستانی شریک تھے ،وہاں جماعت دعوہ کے حافظ سعید نے بھی شرکت کی۔ یہ خبر جیسے ہی میڈیا پر آئی تو بھارت نے حافظ سعید کی شرکت پر اعتراض کیا کیونکہ بھارت  انہیں ممبئی  حملوں کا ماسٹر مائنڈ   قرار دیتا ہے ۔ فلسطینی  حکومت نے فورا ً ایکشن لیا اور اپنے سفیر کو فلسطین بلا لیا۔ اور ایک بیان جاری کیا کہ اس ریلی میں ہمارے سفیر کی شرکت ایک غلطی تھی۔ کیونکہ وہاں ایک دہشت گرد بھی موجود تھا۔ ہم نے ہمیشہ بھارت کا  ساتھ دیا ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھارت کے ساتھ ہیں۔

اس بیان پر ہمیشہ کی طرح پاکستان میں خاموشی چھائی رہی۔

اس ساری خبر کے بعد آپ سب سے ایک سوال بھی ہے کہ آج تک فلسطین حکومت کی طرف سے کشمیر پر بھارتی مظالم کے خلاف یا کشمیریوں کے حق میں کوئی بیان موجود ہے؟

اسی طرح دوسری طرف ترکی اور اُردگان بھی ہمیشہ صرف جذباتی تقاریر کرکے سب اسلامی ممالک میں پہلے پتا کھیل جاتا ہے ترکی واحد اسلامی ملک ہے جس نے مارچ 1949 میں اسرائیل کو تسلیم کیا ۔ اور اسرائیل سے آج تک تجارتی و عسکری تعلقات بنا کر رکھے ہوئے ہیں ۔ انقراہ ترکی میں اسرائیلی سفارت خانہ بھی موجود ہے۔ ترکی امریکی 30 ملکی اتحاد Nato کا بھی حصہ ہے جس میں وہ ہمیشہ سے امریکہ کا اتحادی رہا ہے۔ مگر ترکی کبھی بھی کسی کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرتا ۔ بس جذباتی عارضی تقریر کر کے دکھاوا کرتا ہے کہ وہ سب سے آگے ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

ہماری عوام تو یوٹیوب چینلز کی جذباتی وڈیوز دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ وہی سچ ہے اور فیس بکی جعلی وڈیوز درست ہیں ،بس ہم نے انہی فیک یا بے بنیاد وڈیوز کو شیئر کرکے بھارت و اسرائیل کو تباہ کر دینا ہے۔اور نعرے باز مجمع کی طرح تالیاں بجانا شروع کر دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ظلم کو ظلم کہنا چاہیے اور اس کی مذمت بھی کرنی چاہیے مگر تصویر کا ایک رخ دیکھ کر جذباتی اور خود کو درست نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہمیشہ حقیقت کو تسلیم کریں کیونکہ جذباتیت سے ریاستیں نہیں چلتیں بلکہ پوری دینا میں اپنی اہمیت ضرور کھو دیتی ہیں، جیسے فلسطین سمیت بہت سے اسلامی ممالک ہمیں کسی گٹر  کا ڈھکن تک  نہیں سمجھتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply