چہرہ فروغ مئے سے گلستاں(قسط8)۔۔فاخرہ نورین

عورت کی جنسی زندگی صرف دیہاتی علاقوں میں نہیں بلکہ پورے مشرقی معاشرے میں ایک الگ نوعیت کی کہانی ہے ۔میں ایک طویل مدت سے جنسی زندگی کے حوالے سے کچھ باتیں لکھنا چاہتی ہوں لیکن ابھی کسی مناسب پیرایہ اظہار کی دستیابی سے محروم ہوں سو جنسی حوالے سے موجود مسائل اور معاملات کسی اور مضمون تک کے لیے معطل کیے ہوئے کچھ اور باتیں کرنے کی ضرورت ہے ۔
میں اس سوچ میں ضرور پڑی ہوں کہ آخر یہ جو مثالی تصویر ہم نے گاؤں کی دیکھ پڑھ رکھی تھی وہ کیا ہوئی۔
وہ کچی مٹی سے لپے گھر، وہ چکنی مٹی کی تلّن دیے کٹورے سے رگڑ رگڑ کر چمکائے کمروں کے فرش، وہ چاولوں کی بھوسی یعنی پھَک سے مانجھ مانجھ کر لشکائے سلور کے کول اور گلاس، وہ گھڑونچیوں پر اوندھے پڑے دھوپ میں مرچکے جراثیم والے برتن بھی تو آخر کہیں ہوا کرتے تھے ۔
کھجی سے چھابے بناتی عورتیں، ناڑے کی ہریڑیں تِلّے لپیٹ باندھتی، موتیوں اور دھاگے سے پراندے بناتی، گرمیوں کی طویل دوپہروں کو گزارنے کے لئے ٹی وی ڈراموں کی بجائے سفید ململ کے کرتوں پر تارکشی اور کچے کے کام سے وقت کا بہترین استعمال کرتی عورتیں، تکیوں کے غلافوں پر کشمیری سندھی اور بھرواں ٹانکے سے جادو بھرے پھول کاڑھتی عورتیں، وہ موتیوں اور نائلون کی ڈوری سے مکرامے بناتی اور ان میں فیوز بلبوں پر کروشیے سے دھاگے اور موتی سے گلدستہ نما ڈیکوریشن پیس بناتی عورتیں، وہ کپڑے پر ستاروں موتیوں یا موتی ٹانکے سے اور بعض جگہوں پر دوسوتی اور چارسوتی ٹانکے سے سینریاں بناتی اور انھیں سندھریاں کہتی عورتیں بھی تو کوئی بہت پرانی بات نہیں ہیں ۔
جہیز کی پیٹی اور بکسے ہی نہیں بھڑولی اور پڑچھتی پر بھی اچھاڑ چڑھتے تھے جن کے ایک ایک بوٹے میں سوسو ارمان کاڑھنے والی جب ڈولی چڑھتی تو مہینوں لوگ اس کے سلیقے طریقے اور جہیز کی چادروں پر بنے مور اور سٹیل کے واٹر سیٹ پر کروشیے کے چھوٹے رومالوں کے ساتھ ساتھ ڈریسنگ ٹیبل کے اس جھالروں والے کور کے ڈیزائن کو یاد کرتے، جوان ہوتی لڑکیاں انھیں کاپی کرتیں اور اپنے خوابوں اور ارمانوں کو ٹانکا ٹانکا پروتی رہتیں ۔
چلھانی پر توے سے اتاری روٹی چار چار حصوں میں بانٹتی اور مل بانٹ کھانے کی تربیت کرتی عورتیں، وہ بچوں کے ساتھ ساتھ پورا گھر پریوار سنبھالتی عورتیں، گرمیوں میں سردائی، بینگن کے بھرتے، دھنیے پودینے کی چٹنی، مسی روٹیاں اور کچی لسی کے اہتمام کرتی عورتیں جبکہ سردیوں میں گڑ کے چاول اور رساول، پنیاں پنجیری، لڈو حلوے، تریوڑ اور سونٹھ کے سالن بناتی عورتیں چند سالوں میں صدیوں پرانا خواب کیوں لگنے لگیں۔ گرمی کی بھری دوپہروں میں نانی دادی کے مزے دار قصے اور سردیوں کی شاموں میں رضائیوں میں لیٹے بچوں کو چڑیا اور چڑے کی کہانی سنانے والی، اینو اور مینو بکری، گیدڑ اور بکری کی لڑائی کے قصے سنانتے سناتے سلا دینے والی مائیں کون دیس سدھا گئیں ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply