ابھی میٹرک پاس کیا ہی تھا کہ بیاہ دی گئی۔۔تشنگی علم نے بیقرار کیا تو دو بچوں کی ماں نے کالج میں داخلہ لے لیا۔سسر کی ترغیب اور خاوند کے اعتماد مان اور تعاون نے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا تو وفا شعار بیوی اور سلیقہ شعار ماں نے تاریخ رقم کر دی۔
یو نیورسٹی آف گجرات بی اے کے امتحان میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے والی دوشیزہ کی داستان عزم۔
یہ کہانی ہے ضلع گجرات کے مردم خیز قصبہ گلیانہ کی۔ اپنے وقت کے نامور ماہر تعلیم الحاج محمد اسلم بھٹی ہیڈ ماسٹر کے عہدے سے ریٹائر ہو کر فراغت کی زندگی بسر کر رہے تھے اپنے سب سے چھوٹے اور لاڈلے سپوت عزیز الرحمن مجاہد کو بیاہ کر لائے تو بہو رانی نے حال ہی میں میڑک کر رکھا تھا۔
عموماً ہمارے معاشرے کا یہ چلن ہے شادی بیاہ کے بعد لڑکیوں کو چولہے میں جھونک دیا جاتا ہے یوں گھر داری کے جھنجٹ اور بچوں کو پالنے میں ان کی تعلیم بھی ادھوری رہ جاتی ہے اور پڑھنے کی آرزو بھی تشنہ۔۔لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا، زینب کا تعلق علم پرور گھرانے سے تھا ،ماں باپ دونوں درس و تدریس سے وابستہ۔
بیاہ کر جس گھر میں آئی اس کے درو دیوار سے بھی علم کی روشنی پھوٹتی تھی۔
سسر ایک اعلیٰ پائے کے معلم و منتظم تھے۔
اٹھتے بیٹھتے ترغیب دیتے بیٹی تم تعلیم کا سلسلہ شروع کر دو۔
اسی دوران اللہ نے بیٹی کی صورت رحمت سے نوازا تو آنگن میں بہار آ گئی
دو سال بعد اولاد نرینہ کی نعمت سے گودہری ہوئی تو اس جوڑی کی خوشیاں دیدنی تھیں۔
گھر گرہستی اور بچوں کی پرورش کی کٹھنائیاں بھی اس کے من سے علم کی پیاس کو ختم نہ کر پائیں۔
سسر کا اصرار بڑھا تو اس نے اپنے مجازی خدا کے سامنے اس خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ کالج میں داخلہ لینا چاہتی ہے
یہ سن کر ایک لمحے کو سیاں جی پہ سکتہ طاری ہو گیا۔۔
اسے پتہ تھا کہ بیگم کی اس خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا مطلب اپنی آزادی کو قربان کرنا ہو گا
بیگم تو پڑھ جا ئے گی مگر اسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی کالج سے آنے تک بچوں کو سنبھالنا ، پھر گھر داری میں ہاتھ بٹانا۔
خیر ابا جی کے احترام اور زوجہ کی محبت نے اسے یہ بھاری پتھر اٹھانے کا حوصلہ دے دیا
زینب نے گورنمنٹ گرلز کالج گلیانہ میں سال اول میں داخلہ لے لیا یوں اس کی تعلیم کا سلسلہ پھر سے جڑ گیا
شب و روز گزرتے گئے۔
صبح سب کو ناشتہ کروا کے یہ کالج روانہ ہو جاتی اور بچوں کے ابا انہیں بہلانے کی کوشش میں لگے رہتے۔کالج سے واپسی پر بچوں کی دیکھ بھال گھر کے کام کاج اس کے ساتھ ساتھ پڑھائی،سسر صاحبِ فراش ہوئے تو اس کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ گئیں۔
کبھی بچے بھی بیمار پڑتے تو اس کا ضبط جواب دینے لگتا کئی بار ارادہ کیا کہ یہ نہیں ہو گا مجھ سے بہتر ہے پرائیویٹ تعلیم حاصل کر لوں۔لیکن کالج کی پرنسپل طیبہ حمید جو انتہائی شفیق اور ہمدرد خاتون ہیں اس لمحے اس کا حوصلہ بن گئیں ہر ممکن تعاون کیا اسے اپنی تعلیم جاری رکھنے کی تاکید کی اور ہر قدم اس کی حوصلہ افزائی و رہنمائی کرتی رہیں۔
اسی ہنگام اسے پڑھنے پر اکسانے والے مہربان سسر داغ مفارقت دے گئے۔۔
اب بچوں کے سکول جانے کی عمریں بھی ہو چکی تھیں کیسا خوش کن منظر ہوتا جب صبح سویرے بچوں کو اسکول کے لئے تیار کرنے کے ساتھ ساتھ اسے خود بھی کالج جانے کے لئے تیار ہونا پڑتا
کمال حوصلہ تھا اس کے خاوند کا صبح بچوں کو اسکول اور زوجہ کو کالج چھوڑنا پھر واپس لینا اور اس فرض کو لگا تار چار سال نبھانا۔
4 مئی 2021 کو جامعہ گجرات نے بی اے سالانہ امتحان 2020 کے نتائج جاری کر دئیے۔زینب کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کا نام لوح اعزاز پہ سب سے اوپر لکھا جا چکا ہے۔گورنمنٹ گرلز کالج کی پرنسپل صاحبہ نے فون کر کے اسے خبر دی کہ تم نے یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔یہ اعزاز تھا اس کی مادر علمی کا وہ بھی سرکاری کالج اور ایسے وقت جب بورڈز اور جامعات کے وکٹری اسٹینڈز پر نجی کالجز کا راج تھا۔یہ افتخار تھا اس گھرانے کا جہاں ایک سسر نے اپنی بہو کو پڑھنے کی ترغیب دی اور خاوند نے آزادی اور اعتماد۔
شاباش زینب !
تم نے اپنے سسرال کا نام روشن کر کے ایک نئی ریت کو جنم دیا
ہاں تم نے عورت کے ہر روپ کو توقیر بخشی ہے آج تمہارے دم قدم سے بہو ، بیٹی بیوی ماں سب رشتوں کو عروج ملا ہے
تم لفظ ” عورت ” کا مان ہو گھرانے کی شان ہو مشرقیت کی پہچان ہو
آج تمہیں پڑھتا دیکھنے کی آرزو لئے پیوند خاک ہو جانے والے شفیق سسر زندہ ہوتے تو اس کامیابی پر کتنے خوش ہوتے لیکن یقین کرو ان کی روح آج شاداں و فرحاں ہو گی۔
اور سچ پوچھو تو تمہارے اس کارنامے کا سارا کریڈٹ تمہارے سرتاج کو جاتا ہے جس نے ایثار محبت اور بھروسے کی قابل رشک مثال قائم کر دی کمال حوصلے سے بچوں کو سنبھالنے سے لے کر ہر ہر گام تمہارا ساتھ دے کر مردوں کو ایک راستہ دکھا دیا۔
نام نہاد آزادی کی چاہ میں عورت مارچ کے نام سڑکوں پر نکلنے والوں کو ایک بار تم سے ملنا چاہیے۔
تاکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں عورت کتنی آزاد ہے اور جب وہ اپنے وجود سے وابستہ مردوں کی انگلی تھام کر چلتی ہے تو نہ صرف سر اٹھا کر چلتی ہے بلکہ مینارہ نور بن جایا کرتی ہے۔
جگ جگ جیو زینب
تمہیں بہت آگے جانا ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں