کشمیر ۔ مذاکرات کا آخری دور (37)۔۔وہاراامباکر

کارگل جنگ کے بعد پاکستان بھارت مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹا۔ پارلیمنٹ پر حملے کے بعد 2002 میں پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے پر تھے۔ لیکن 2004 میں واپس مذاکرات کی میز پر واپس آ چکے تھے۔
انڈیا کی ہارڈلائن پوزیشن چترال تک تمام علاقے پر دعویٰ ہے۔ جبکہ سافٹ پوزیشن لائن آف کنٹرول کا عالمی سرحد میں تبدیل کئے جانا ہے۔ پاکستان کی ہارڈلائن پوزیشن کشمیر میں استصوابِ رائے کا انعقاد ہے۔
پاکستان نے جنوری 2004 میں نئے مذاکرات میں اپنی پوزیشن خاصی نرم کر لی تھی۔ اسوقت پاکستان کی مغربی سرحد پر جاری جنگ تھی۔ جس میں پاکستان کی فوج اپنے علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے لڑ رہی تھی۔ اور ساتھ بلوچستان میں بھی شورش جاری تھی۔
ان مذاکرات میں آٹھ نکات تھے۔
۱۔ امن اور سیکورٹی
۲۔ جموں اور کشمیر
۳۔ سیاچین
۴۔ وولر بیراج اور تلبل پراجیکٹ
۵۔ سرکریک
۶۔ دہشتگردی اور منشیات
۷۔ اقتصادی اور تجارتی تعاون
۸۔ دوستانہ روابط کا فروغ
انڈیا اپنے اس مطالبے سے پیچھے ہٹا تھا کہ وہ جموں و کشمیر پر کوئی بات نہیں کرے گا۔ پاکستان اپنے اس مطالبے سے پیچھے ہٹا تھا کہ جموں و کشمیر کے سوا کوئی اور بات نہیں ہو گی۔ اس وقت میں پاکستان اور انڈیا میں کشمیر کا مسئلہ عوام کے ذہنوں میں ترجیح نہیں تھا۔ ان مذاکرات کے پانچ راونڈ ہوئے۔ کوئی بڑا بریک تھرو تو نہیں ہوا لیکن تعلقات کی نوعیت اور لب و لہجے میں نمایاں فرق آنے لگا۔
بات چیت 2006 میں مزید آگے بڑھی جب پاکستانی صدر نے کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے لئے نئے حل ڈھونڈنے کو تیار ہیں۔ یہ پاکستان کی طرف سے دکھائی گئی بڑی لچک تھی۔ نئے زیرِغور حل میں پاکستان کی طرف سے علاقے کو سات الگ حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز تھی۔ شمالی علاقہ جات، آزاد کشمیر، مشرقی جموں، مغربی جموں، وادی کشمیر، لداخ اور کارگل۔ تجویز یہ تھی کہ ان کو الگ الگ خودمختاری دے دی جائے۔ انڈیا نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ پاکستان نے پھر گلگت اور بلتستان کو بھی الگ حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دے دی۔
دسمبر 2006 میں پاکستان نے چار نکاتی حل پیش کیا۔ جس میں
۱۔ موجودہ سرحدوں میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے
۲۔ سرحد اور لائن آف کنٹرول غیرمتعلقہ کر دئے جائیں
۳۔ آہستہ آہستہ علاقے کو فوج سے خالی کر دیا جائے
۴۔ علاقے کو خودمختاری دی جائے جس کی نگرانی مشترک ہو۔
پاکستان کی طرف سے غیرمعمولی تجویز یہ تھی کہ اگر انڈیا اسے قبول کرنے کو تیار ہے تو پاکستان اس پر تیار ہے کہ کشمیر پر اپنے حق کا دعویٰ ختم کر دے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ جوائنٹ نگرانی کی کوئی عملی صورت پاکستان اور انڈیا، دونوں کے لئے ہی مشکل ہوتی۔ کیونکہ آپسی تعلقات جو 1965 میں ٹوٹ گئے تھے، ان کی اور اعتماد کی بحالی آسانی سے نہیں ہو سکتی تھی۔
دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ انڈیا کے وزیرِاعظم خود سیاسی لحاظ سے کمزور پوزیشن پر تھے۔ انہیں اعتماد نہیں تھا کہ وہ اتنی بڑی تجویز پر اپنے ملک میں حمایت لے سکیں گے۔ لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان مذاکرات میں انڈیا اور پاکستان اس طویل مسئلے کے حل کے بہت قریب تھے۔ جزئیات پر بات چیت ہو رہی تھی۔ رفتار سست تھی۔
اگرچہ انڈیا اور پاکستان کے سربراہان اس پر بڑی حد تک متفق تھے لیکن کیا وہ اپنے ملک میں سیاسی قوتوں کو اس پر راضی کر سکتے تھے؟ چونکہ ایسا ہوا نہیں تو ہم اسے کبھی جان نہیں پائیں گے۔
چھبیس نومبر 2008 کو یہ مذاکرات معطل ہو گئے۔ ممبئی پر دہشتگردوں نے خوفناک حملہ کیا۔ اس نے پاک بھارت مفاہمت کا کوئی بھی امکان ختم کر دیا۔ شدید عوامی غصے کے سبب انڈیا کے لئے مذاکرات کی میز پر واپسی ممکن نہیں رہی۔
ایک اور پہلو یہ رہا کہ ایک طرف انڈیا کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی جبکہ پاکستان کی نہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈیا کو پاکستان سے معاملات طے کرنے کی ترغیب نہیں رہی تھی۔ اس کے بعد کوئی بامعنی پاک بھارت مذاکرات نہیں ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان اور بھارت کے آپس کے تعلقات بہت محدود ہیں۔ پاکستان اور انڈیا، دونوں میں بااثر باڈیز ہیں جن کا مفاد اس سے نہیں کہ یہ تعلقات بہتر ہوں۔ چونکہ اعتماد کا فقدان ہے، اس لئے دونوں اطراف کا زیادہ زور دوسرے کو غلط ثابت کرنے اور ماضی کی طرف اشاروں میں رہا ہے۔ ایسا تاثر بھی ہے کہ دونوں ممالک کے عوام مسئلے کا حل نہیں چاہتے۔
اس کشمکش میں دو چیزوں کو فراموش کیا جاتا رہا ہے۔ ایک تو کشمیر کے لوگ جبکہ دوسرا یہ کہ یہ رقابت خود کس قدر مہنگی پڑی ہے۔
اعتماد کی کمی کی وجہ سے “بیرونی ہاتھ” کا (ٹھیک یا غلط) الزام اپنی نااہلی چھپانے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن ناکامی کی دوسری وجوہات بھی ہیں۔
سب سے بڑی وجہ یہ کہ دونوں قوموں کے پاس ٹھیک وقت پر ٹھیک لیڈر نہیں رہا، جو اپنی سیاسی طاقت کے ذریعے آگے کا راستہ طے کرنے کی صلاحیت رکھے۔ دوسرا یہ کہ بڑی حد تک یہ دونوں ممالک ٹھیک ٹھاک چلتے رہے ہیں اور یہ علاقہ عام لوگوں کی نظر میں نہیں آتا۔
کامن سینس کہتی ہے کہ بھارتی، پاکستانی اور کشمیری، سبھی اس تنازعے کے حل سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن دونوں ممالک کے لئے حل نہ ہونے کی وجہ صرف پڑوسی ملک کی ہٹ دھرمی ہے۔
پاکستان اور انڈیا ماضی کا اتنا بھاری سامان اٹھائے ہوئے ہیں کہ اگلی نسل کے نوجوان لیڈر ہی کوئی پیشرفت کر سکتے ہیں جنہیں اس بھاری سامان کا علم نہ ہو۔
اور یہاں پر یہ بھی نوٹ کرنے والی بات ہے کہ بالفرض اگر تنازعہ کشمیر حل ہو جائے تو کوئی گارنٹی نہیں کہ پاک بھارت تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ تلخیاں بہت سی ہیں اور بہت پرانی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف کشمیر میں خودمختاری کی تحریک کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تنازعے کا سب سے زیادہ نقصان یہاں رہنے والوں کو رہا ہے۔ 2009 میں پہلی بار سروے کر کے یہاں رہنے والوں کی رائے لی گئی تھی جس میں جموں، لداخ، کشمیر اور آزاد کشمیر کے علاقے شامل تھے۔ آزاد کشمیر کے 1400 میں سے 44 فیصد لوگ خودمختار کشمیر کی خواہش رکھتے تھے۔ لداخ کے لییہ کے علاقے میں 30 فیصد، کارگل میں 20 فیصد، اننت ناگ میں 74 فیصد، بٹگام میں 75 فیصد، بارہمولہ میں 95 فیصد، سرینگر میں 82 فیصد جبکہ جموں میں یہ شرح ایک فیصد سے کم تھی۔
اگر پوری ڈوگرہ ریاستِ جموں و کشمیر کو ملک بنا دیا جائے تو یہ رقبے میں بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا جیسے ممالک سے بڑا ہو گا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ریاست کے مختلف علاقوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ یہ اکائی نہیں بن سکتی۔ اور جیسا کہ بھوٹان اور نیپال کو تجربہ رہا ہے کہ اس قسم کے ملک کے لئے، جہاں کوئی بندرگاہ نہ ہو اور وسائل محدود ہوں، آزاد رہنا بہت مشکل ہے۔
کئی کشمیری مشرقی تیمور کی مثال دیتے ہیں جہاں آزادی کا ریفرنڈم ہوا اور اس کو آزادی مل گئی۔تاہم اس ریفرنڈم کو خود کنٹرولنگ طاقت، انڈونیشیا، نے تجویز کیا تھا۔ اور دنیا کے بڑے ممال کے حمایت کی تھی۔ کشمیریوں کے لئے کسی بھی طرح کے ریفرنڈم کی حمایت کرنے والا دنیا میں واحد ملک پاکستان ہے اور وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ اس پر عملدرآمد کروا سکے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply