ہرلمحہ تغیّر سے عبارت ہے زمانہ۔۔خنساء سعید

یہ دنیا تضادات کا مجموعہ ہے ۔اس دنیا میں اگر زوال کا وجود ہے تو عروج بھی ہے ،پھول ہیں تو کانٹے بھی پھولوں کے ساتھ ہی ہیں ،سیاہ ہے تو سفید بھی ہے ،بہار ہے تو خزاں بھی ہے ،دن ہے تو رات بھی ہے ،سردی ہے تو گرمی بھی ہے ،اس دنیا میں اگر مومن ہیں تو کافر بھی اس دنیا کا حصہ ہیں ،غرض عالم ،جاہل ،صالح ،فاسق،خوشی ،غم ،ظلمت ،نور ،سب ایک دوسرے کی ضد میں اس دنیا میں موجود ہیں ۔اگر قنوطیت (نااُمیدگی ،محرومی ِامید)کے دعویداراس دنیا کو شر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں ،کہ غم و حزن اور ملال کے علاوہ اس دنیا کی کوئی حقیقت نہیں تو رجائیت (خوش گمانی ،پُر امید ہونا )کا پرچارکرنے والے اس دنیا کو بہترین جگہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ غم و الم تو محض منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہیں ورنہ جتنی راحت اس دنیا میں ہے کہیں نہیں ۔تغیر یا تبدل کائنات کی وہ خوبی ہے جس کو ہم کسی طرح سے بھی نہیں بدل سکتے ،تغیر وہ قدریں ہوتی ہیں جو مخلوق کو باندھے رکھتی ہیں ۔ہر ساعت ہر لمحہ تبدیلی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ تغیر اور تبدیلی کے پیچھے کو ئی ایسی طاقت ہے جس میں تغیر اور تبدل نہیں ہے ۔

اگر ہم انسان کی بناوٹ اور ساخت پر غور کریں تو بچپن سے لے کر جوانی ،جوانی سے بڑھاپے اور پھر بڑھاپے سے موت تک انسان کی زندگی کا ہر لمحہ تغیر و تبدل کا بہترین نمونہ ہے ۔ابتداء میں انسان قدرتی غذا سے گزر بسر کرتا تھا ،پھر انسان نے تیل ،گیس ،لکڑیاں ،آگ دریافت کر لی اور آج کا انسان جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی کے دور سے گزر رہا ہے ۔پہلے انسان اپنے دفاع کے لیے پتھر وں ،اور ڈنڈوں کا استعمال کرتا تھا آج انسان نے اپنے دفاع کے لیے طرح طرح کے ہتھیار اور ایٹم بم کا استعمال کر نا شروع کر دیا ہے ۔گزشتہ زمانے میں انسان غار ،صحرا ،جونپڑی ،اور ٹاٹ کے بنے ہوئے مکانوں میں زندگی گزارتا تھا اب انسان نے اپنے رہنے کے لیے عالیشان محل بنا لیے اور خوبصورتی سے سجائے گئے گھروں میں رہنے کا عادی ہو گیا ۔یعنی زندگی کا ایسا کوئی بھی شعبہ نہیں جس میں تغیر یا تبدل نا ہوا ہو یہ عین فطری تقاضوں پر مبنی ہے ۔

سکُوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں

قوموں کی زندگیاں تغیر و تبدل سے ہی سنورتی ہیں تغیر کے بنا قومیں جمود کا شکار ہو جاتی ہیں اور جمود موت کی علامت ہوتا ہے ۔جس طرح بہتے پانی کو روکنے سے وہ زہریلا ہو جاتا ہے اسی طر ح تغیرکے بغیرزندگی مفقود ہوجاتی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے اپنی اجتماعی زندگی میں انقلاب کی آرزو نہیں رکھی وہ جمود و تعطل کا شکار ہو کرشجر زمانہ سے ٹوٹ کر اس طرح آغوشِ فنا میں گر جاتی ہیں کہ جیسے خزاں کے موسم میں درختوں کے سوکھے پتے ہوا کے ایک جھونکے سے جھڑ کر ختم ہو جاتے ہیں ۔جو باغباں اشجارِ ثمرور (پرُمیوہ درخت) کا تذکیہ نہیں کرتا ان میں برگ و بار لانے کی قابلیت نہیں رہتی اسی طرح جو قوم اپنا تذکیہ نہیں کرتی وہ شجر بے برگ و بار کی طرح ناکارہ ہو جاتی ہے ۔تغیر ہر چیز کی تقدیر ہے ۔انسان اگر مشاہدہ کرے تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ سنگین چٹانوں سے جاندار کیڑا ظاہر ہو تا ہے ہرے بھرے درختوں سے چنگاریاں جھڑتی ہیں اور حقیقیت تو یہ ہے کہ اگر تغیر نہ آئے تو ہماری زندگی ہٹلر کی ایک پارٹی والی پارلیمینٹ بن کر رہ جاتی ہے ۔آپ دیکھیے کہ ایک ہی آسمان کے نیچے ایک ہی وقت میں مختلف و متضاد تماشے ہوتے ہیں ۔ایک خطے میں نشاط و شادمانی کا ہنگامہ برپا ہوتا ہے تو دوسرے کسی خطے میں تیز کانٹوں پر خوں چکاں لاشیں تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہو رہی ہوتی ہیں کشمیر اور فلسطین اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔اس دنیا میں اگر غریبی کا کوئی وجود نہ ہوتا تو امارات کی قدر کس کو ہوتی ؟یہاں تو ضد سے ضد کا وجود ہوتا ہے صحت کے ساتھ بیماری اور بیماری کے ساتھ صحت منسوب ہیں یہاں تک کہ وقت انسان کے چہرے تک کو بدل کر رکھ دیتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ولنگٹن واٹرکا فاتح اعظم نپولین کو شکست دیتا ہے عوام اس کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے کچھ دن بعد لندن کی گلیوں میں یہ ہی عوام پتھروں سے اس کے مجسمے کو توڑدیتی ہے ۔جولیس سیزر کبھی دنیا پر حکومت کرتا ہے مگر اپنے ہی احسان فراموش دوستوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے ۔سکند رِ اعظم پوری دنیا کا فاتح مگر اُس کا لاشہ بے گوروکفن پڑا رہتا ہے ۔ ہر لمحہ تغیر ،حالات کا بدلنا ہی قانون فطرت ہے ۔جس طرح پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کے تودے ہمیشہ جمے نہیں رہتے سورج کی روشنی اُن کو پگھلا ہی دیتی ہے ،جس طرح درخت ہمیشہ بے ثمر نہیں رہتے گزرتا وقت اُن کو پھل دار بنا ہی دیتا ہے ،جس طرح عروج ہمیشہ حیات نہیں رہتا زوال کی شکل میں اُس کو فنا حاصل ہے ،اسی طر ح نہ ہم ہمیشہ کرونا وائرس کی لپیٹ میں رہیں گے اور نہ ہی عمران خان ہمیشہ ہم پر حکومت کرے گا اس لیے پر اُمید رہیں کیوں کہ دنیا کی نمود رنگِ تغیر سے ہی ہوئی ہے اور ثبات صرف خدائے واحد کی ہستی کو حاصل ہے ۔

Facebook Comments