شیخ چلی اور جدید دنیا کے روبوٹ۔۔مجاہد خٹک

بچپن میں جب رات کو نیند نہیں آتی تھی تو چھت کو تکے رہنا ایک معمول تھا۔ وہاں بہت معمولی سے ابھار جگہ جگہ موجود تھے جو بہت غور سے دیکھنے پر ہی دکھائی دیتے تھے۔ روزانہ سونے سے پہلے ان ابھاروں کو تکتا رہتا تھا یہاں تک کہ وہ مختلف شکلیں اختیار کر کے حرکت میں آ جاتے تھے اور ایک دلچسپ کہانی شروع ہو جاتی تھی۔
سفید چھت پر کبھی بچھو اور سانپ مختلف جانوروں کی تاک میں بیٹھے نظر آتے تو کبھی پرندوں کے جھنڈ آسمان پر اٹکھیلیاں کرتے دکھائی دیتے تھے۔ کبھی اس میدان میں جنگ و جدل کا میدان گرم ہوتا تو کبھی اتحاد اور محبت کے چشمے پھوٹتے دکھائی دیتے تھے۔ پھر دھیرے دھیرے نیند کی پری آنکھوں پر اپنے پر پھیلا دیتی اور یہ کہانیاں بے جان چھت سے اتر کررنگارنگ خوابوں کی نگری میں منتقل ہو جاتیں۔
بچپن رخصت ہوا تو تمام کہانیاں بھی ساتھ ہی چلی گئیں مگر وراثت کے طور پر جاگتے ہوئے بند آنکھوں میں خواب بننے کی عادت دیتی گئیں۔ زندگی کے مختلف مرحلوں میں یہ خواب تبدیلی ہوتے گئے مگر روایت جاری رہی۔
زندگی تو خیر ایک کار دشوار ہے، سبھی کے لیے، چاہے وہ شاہ ہو یا گدا ہو۔ مگر تخیل میں اپنے آدرش کو پا لینا، خوابوں کو حقیقت کی شکل دینا، ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدل دینا، ٹھکرائے جانے کی تکلیف کو چاہے جانے کے مرہم سے ڈھانپ دینا۔۔ اس غیرحقیقی دنیا میں سب تلخیاں شیرینیوں میں ڈھل جاتیں اور خوابوں میں وہ سب کچھ پا لیا جاتا تھا جو حقیقی زندگی میں دسترس سے بہت دور تھا۔
تعلیم اور کتابوں سے شغف شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک عادت بد ہے جسے “ہوائی قلعے تعمیر کرنا” یا پھر “شیخ چلی کے خوابوں” جیسے تحقیر آمیز الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ کامیاب شخص وہ ہے جو اپنا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرے اور مسلسل کام میں لگا رہے۔ جب آنکھیں بند کرے تو اسی وقت نیند آ جائے۔ اگر نیند نہ آ رہی ہو تو بہت سی کتب میں بے شمار طریقے بتائے گئے تھے۔ یہ عملی آدمی زندگی کا آئیڈیل ٹھہرا مگر اس کا حصول ہمیشہ ناممکن ہی رہا۔
یہ حقائق سامنے آئے تو تخیل میں حصول اور کامیابی کا لطف غارت ہونا شروع ہوا۔یہ عادت تو نہ گئی اور نہ ہی کبھی سنجیدگی سے اس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی مگر جب خیالوں کی مثالی دنیا سے حقیقت کی بھدی ، نفرت انگیز زندگی کی جانب مراجعت ہوتی تھی تو دونوں دنیاؤں کے درمیان اتنے بڑے تفاوت کی وجہ سے احساس جرم بھی ہوتا تھا اور احساس کمتری بھی طاری رہتا۔یہ بہت تکلیف دہ عمل تھا جس سے ہر صبح اٹھ کر گزرنا ہوتا تھا۔
اس بات کو سمجھنے میں ایک طویل عرصہ لگا کہ مغرب سے درآمد مادی کامیابیوں کی سحر انگیزی نے مشرق کے اس تخیل کی شراب میں بھی ملاوٹ کر دی تھی جس کے سہارے ہزاروں سال سے مشرقی دنیا اپنی تہذیب، فکر، ثقافت اور تاریخ کی نمو کرتی رہی ہے۔
ایک لمبے عرصے تک خود کو کمتر مخلوق سمجھنے کے بعد سمجھ آئی کہ مشرق ہو یا مغرب، انسانیت نے اگر ترقی کی ہے تو وہ ان شیخ چلیوں کی وجہ ممکن ہوئی ہے جنہوں نے جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھے۔ جس مثالی انسان کو موٹیویشنل کتب نے پیش کیا تھا، وہ تو انتہائی کمتر درجے کی مخلوق تھی جس کا انسان کے سماجی ارتقا میں کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ وہ فقط اپنے لیے جیتا اور مرنے کے بعد اپنی عملی زندگی سمیت مٹی میں مل جاتا تھا۔
اس دنیا کو آگے بڑھانے میں ہوائی قلعے تعمیر کرنے والوں کا بنیادی کردار تھا۔ یہ بات ضرور ہے کہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے والا ہر شخص کسی شعبے میں انقلاب نہیں لا سکتا مگر جنہوں نے اپنی زندگی، اردگر کے ماحول یا پھر پورے سماج کی شکل تبدیل کی ہو وہ لازمی تخیل کی نگری میں مثالی دنیا تخلیق کرتے رہے ہیں۔وہ چھت پر نظر آنے والے سیمنٹ اور چونے کے ابھاروں میں ہر روز نئے افسانے تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
تخیل میں بسائی گئی کہانیوں کو عمل میں لانے کے لیے یقیناً غیرمعمولی عزم اور توانائی درکار ہوتی ہے لیکن اگر ان خوبصورت خوابوں کو تحقیر اور خواب دیکھنے والوں کو تذلیل کی نظر سے دیکھنے والے دنیا دار سوائے اپنی محدود اغراض کو پورا کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔
یہ بھی علم ہوا کہ معاشرہ جمود کو پسند کرتا ہے، جس ثقافتی اور تہذیبی خول کو اس نے طویل عرصے کے بعد تخلیق کیا ہے وہ اسے توڑنے سے خوفزدہ رہتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اس خول کی تشکیل میں خواب دیکھنے والوں کا ہی اصل کردار تھا۔ ہر بار یہ لوگ نئے خواب دیکھ کر تازہ خول تشکیل دیتے ہیں جسے آنکھیں بند کرتے ہی سو جانے والے اوڑھ لیتے ہیں اور پھر اسے خزانہ جان کر سانپ کی طرح پہرہ دینے لگتے ہیں۔
یہی لوگ خواب دیکھنے والوں کو شیخ چلی اور ہوائی قلعے تعمیر کرنے جیسے تضحیک آمیز القاب سے نوازتے ہیں کیونکہ وہ ان سے خوفزدہ بھی ہوتے ہیں اور ان سے حسد بھی رکھتے ہیں۔ انہیں غیرشعوری سطح پر اپنے کمتر ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے اور اس لطف سے محرومی کا اندازہ بھی جو جاگتی آنکھوں کے ساتھ خواب دیکھنے والوں کے اردگرد مقدس ہالے کی طرح موجود رہتا ہے۔
یہ علم ہونے کے بعد کبھی بھی جاگتے ہوئے خواب دیکھنے کی عادت کو برا نہیں سمجھا اور اسے قائم و دائم رکھا۔ اس تحریر کا مقصد بھی آپ کو یہی بتانا تھا کہ اگر آپ آنکھیں بند کرتے ہی سو نہیں پاتے اور خواب بننا شروع کر دیتے ہیں تو اس پر احساس جرم میں مبتلا ہونے کے بجائے اللہ کا شکر ادا کریں۔
البتہ ان خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے بھی سعی کرتے رہیں۔ اس کے لیے جو محنت آپ باآسانی کر سکتے ہیں وہ لازمی کریں لیکن خود کو کمتر سمجھنا چھوڑ دیں۔ اپنی اس عادت کو قدرت کا عطیہ سمجھیں اور اس کی قدر کریں کیونکہ یہ آپ کی زندگی بدلنے اور سماج میں بہتری لانے کی پہلی سیڑھی ہے۔
اس بنیاد کو منہدم کر دیں گے یا اس کی ناقدری کریں گے تو یہ نعمت آپ سے چھن جائے گی اور آپ جدید مادی دور کا وہ روبوٹ بن جائیں گے جس پر معاشرے نے مثالی انسان کی تہمت لگائی ہوئی ہے۔
(مجاہد خٹک)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply