تم سارا دن آخر کرتی ہی کیا ہو؟۔۔یاسر پیرزادہ

Nobody in history has gotten their freedom by appealing to the moral sense of the people oppressing them. Assata Shakur

یہ عورتیں بےحیائی پھیلا رہی ہیں، ہم جنس پرستی کا پرچار کر رہی ہیں، جسم فروشی کو قانونی حیثیت دینا چاہتی ہیں، این جی او چلاتی ہیں جس میں بیرونی فنڈنگ آتی ہے، مغرب کا ایجنڈا ہے کہ ہمارا عائلی خاندانی نظام تباہ کیا جائے اور عورتوں کو مادر پدر آزادی دے کر ہماری اقدار اور تہذیب کو پامال کیا جائے.

استحصال تو مرد اور عورت دونوں کا ہوتا ہے تو صرف عورت کو ہی مظلوم کیوں سمجھا جائے، ہمارے ہاں تو عورت ہر روپ میں عزت دار ہے، مطالبات ٹھیک ہیں نعرے غلط ہیں، ویسے اِن مطالبات کی کیا ضرورت جب یہ تمام حقوق آئین میں لکھ دیے گئے ہیں اور پھر تم سارا دن آخر کرتی ہی کیا ہو؟ یہ ہے عورت مارچ والوں کے خلاف چارج شیٹ کا خلاصہ۔

یوں لگ رہا ہے جیسے ملک میں جنگ ہو رہی ہے، خدانخواستہ نیٹو افواج نے حملہ کر دیا ہے اور اب وہ اپنا مغربی ایجنڈا بزور طاقت ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں یا پھر امریکہ نے الٹی میٹم دے دیا ہے کہ اگر فلاں تاریخ تک پورے پاکستان میں ہم جنس پرستی اور جسم فروشی کو قانونی حیثیت نہ دی گئی تو وہ حملہ کرکے ہمارا تورا بورا بنا دیں گے۔

یادش بخیر، ہمارے ملک میں اس قسم کے الٹی میٹم دیے جاتے رہے ہیں مگر وہ طالبان کی طرف سے ہوا کرتے تھے، آج عورتوں کے خلاف جن دانشوروں کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے اُس وقت یہ دانشور طالبان کو پچکارتے تھے اور انہیں اپنا بھٹکا ہوا بھائی کہہ کر اُن کا ہر گناہ معاف کرنے کو تیار تھے، 26,689 بےگناہ پاکستانیوں کی جانیں لینے کا گناہ بھی۔

کاش اُس وقت ہمارے یہ محترم لکھاری اپنے قلم سے ایسے ہی جہاد کرتے جیسے یہ آج کل عورت مارچ کے خلاف کر رہے ہیں تو ہماری فوج، پولیس اور سیکورٹی اداروں کے جوانوں کی اتنی شہادتیں نہ ہوتیں مگر افسوس کہ اُس وقت تو یہ بحث ہوا کرتی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاں بحق ہونے والے ہمارے جوان شہید بھی کہلائیں گے کہ نہیں۔

کسی کو یاد ہے یا سب بھول گئے! ’آبلے پڑ گئے زبان پہ کیا‘۔ چلیں کوئی بات نہیں، برا وقت تھا، گزر گیا، اِن میں سے بہت سے قابلِ احترام حضرات کو تو احساس ہو گیا کہ وہ غلطی پر تھے، یہ اور بات ہے کہ کسی نے اِس غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔

آپ اگر عورت مارچ کے خلاف تمام الزامات کو اکٹھا کرکے پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ الزامات لگانے والے خود کس قدر الجھن کا شکار ہیں، ایک طرف انہیں کہنا پڑتا ہے کہ ہاں وہ عورتوں کے حقوق کے حامی ہیں مگر دوسری ہی سانس میں کہتے ہیں کہ تمام حقوق تو آئین نے دے رکھے ہیں اب یہ کیا مانگتی ہیں، ایک طرف کہتے ہیں کہ بیہودہ نعروں نے عورتوں کی تحریک کو نقصان پہنچایا ہے تو دوسری طرف وہ انہی بیہودہ نعروں کی وجہ سے کالم پہ کالم لکھنے پر مجبور ہیں.

ایک جانب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں عورت کا استحصال ہوتا ہے، دفاتر میں ہراساں کیا جاتا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، زبردستی شادی کی جاتی ہے مگر دوسری جانب دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری اقدار اور تہذیب اس قدر شاندار ہے کہ یہاں عورت کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے، ماں کو تقدیس حاصل ہے، بہن کی حفاظت کے لیے بھائی موجود ہیں، بیوی کو شہزادی کی طرح رکھ کر مرد دن رات کام کرتا ہے، بیٹیوں پر ہم دل و جان نچھاور کرتے ہیں اور محبوبہ کے لیے جائیدادیں لٹا دیتے ہیں۔ اگر سب کچھ ایسا ہی تو پھر مسئلہ کیا ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ ہم مردوں کو یہ بات ہضم ہی نہیں ہو رہی ہے کہ عورتیں دبنگ انداز میں اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکتی ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی عورت کہے کہ ’میرا جسم میری مرضی‘ اور ہم مرد یہ برداشت کر لیں، آخر یہ ہم مردوں نے ہی تو طے کرنا ہے کہ عورت کو اپنے حقوق کیسے مانگنے ہیں، عورت کون ہوتی ہے اپنی مرضی سے نعرے لگانے والی، اُس کی اتنی جرات!

نعرے پر اعتراض کرنے والے خواتین و حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ مغربی ممالک میں عورتوں کے حجاب پہنے پر جب پابندی عائد ہوتی ہے تو ہم مسلمان یہی دلیل تو دیتے ہیں کہ اُس کا جسم اُس کی مرضی، وہ حجاب پہنے یا برقع، یہ مغرب والے کون ہوتے ہیں پابندی لگانے والے مگر یہی بات اپنے یہاں قبول نہیں، منافقت کے نمبر دس میں سے دس۔

اور یہ بیرونی فنڈنگ والی بات بھی خوب ہے، پورا ملک ہمارا بیرونی امداد پر چل رہا ہے، ہر سال اِس امداد پر حکومت پاکستان اربوں روپے سود ادا کرتی ہے، سو یہ کیا الزام ہوا کہ فلاں کو بیرونی امداد ملتی ہے، اگر ملتی ہے تو زیادہ سے زیادہ آپ آڈٹ کروا لیں کہ یہ کہاں اور کیسے خرچ ہوتی ہے، کیا کسی کی عیاشیوں کی نذر تو نہیں ہوتی!

ہماری اقدار اور تہذیب کی بات تو رہ ہی گئی، اسے بہت خطرہ ہے، خدا نخواستہ اگر یہ مٹھی بھر عورتیں کامیاب ہو گئیں تو بائیس کروڑ پاکستانیوں کو گمراہ کر دیں گے اور وہ اپنی عقل، دماغ، فہم سب چھوڑ چھاڑ کر اِن کے پیچھے لگ جائیں گے اور مغربی اطوار اپنا کر اپنا خاندانی نظام، نکاح، شرم و حیا سب ترک کرکے فحاشی اور عریانی کی راہ پر چل نکلیں گے۔اِس بات پر قہقہہ لگانے کو دل کرتا ہے۔

میں نے عورت مارچ والوں کا منشور پڑھا ہے، اِس میں وہ تمام باتیں لکھی ہیں جس کا رونا ہم سب پاکستانی دن رات روتے ہیں اور جن سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا، نہ جانے یہ جسم فروشی اور ہم جنس پرستی کی اجازت کس نے مانگی ہے؟ جب میں یہ بات کرتا ہوں تو جواب میں کچھ لوگ فحش پوسٹر بھیج کر پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کو یہ فحاشی نظر نہیں آتی، میں انہیں کہتا ہوں کہ مجھے صرف عورت مارچ کے آفیشل پیج سے شیئر کی ہوئی کوئی ایسی چیز دکھائیں کیونکہ سوشل میڈیا پر زیادہ تر جعلی چیزیں گردش کر رہی ہیں، اینکر منصور علی خان بھی ایسی ہی جعل سازی کا شکار ہوئے، اس کے جواب میں آئیں بائیں شائیں یا گالیاں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جعلی تصاویر پھیلانے والے فحاشی پھیلا رہے ہیں یا عورت مارچ والے؟ مسئلہ سوائے اِس کے اور کچھ نہیں کہ عورتوں نے اِس مرتبہ جرات سے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے اور یہی درست طریقہ ہے ورنہ تمام عمر گھر چلانے کے بعد بھی عورت یہی طعنہ سنتی آئی ہے کہ آخر تم سارا دن کرتی ہی کیا ہو؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply