ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری کا تحفظ۔۔محمد نوید عزیز

ملکی سلامتی سے مراد ملک کا امن و امان اور ملک کا صحیح سالم زندہ رہنا ہے اور قومی خودمختاری سے مراد ایک ایسی قوم ہے جو اپنی آزادی رائے کا اختیار رکھتی ہو اور وہ اپنی تجاویز اور مشوروں کو احکامِ بالا تک آسانی سے پہنچا سکتی ہو۔ خودمختاری کا تحفظ کسی بھی آزاد ملک کی اوّلین ترجیح ہوتی ہے۔

پاکستان اپنے قیام کے 73 سال بعد بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ یہ صورتحال بے حد تشویش ناک اور ملکی سلامتی کے لئے بہت خطرناک ہے مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ محرومی 73 سال گزرنے کے بعد ابھی تک کیوں  قائم ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بنیادی نظریہ ہمیں دیا گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ اس پر مسائل پیدا کر دیے گئے ہیں۔ ابھی تک یہ پوچھا جا رہا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ کا پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟ انہوں نے یہ الگ وطن کیوں حاصل کیا؟ کیا یہ سب کچھ واضح نہیں ہے، کہ ہم کس طرف چل پڑے ہیں۔ یہ ان کی روحوں کے ساتھ مذاق ہے، جنہوں نے پاکستان کی آزادی میں اپنے خون سے رنگ بھرا تھا۔

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا امن و امان تباہ کیوں ہوا؟ہمارا نوجوان کیسے دہشت گردوں کے ساتھ ملا؟ ہم کیوں گمراہی کی طرف دھنستےجا رہے ہیں؟ یہ سبق اسے کسی مذہب نے نہیں سکھایا، یہ سبق اسے کسی دین نے نہیں بتایا۔

ہمارے تعلیمی ڈھانچے کا کھوکھلا پن، بے انتہا کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال وہ خوفناک مسائل ہیں جو نوجوان کو اس طرف لے کر گئے ہیں مگر بدقسمتی سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملکی سلامتی کو خطرہ اسلام کی وجہ سے ہے

حالانکہ قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سب سے زیادہ   امن وامان پر زور اسلام  دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کے وقت جو سب سے پہلے دعا مانگی وہ اپنے ملک کا امن و امان اور نظریے کی مضبوطی مانگی۔

سورۃ ابراہیم (آیت نمبر 35 ): ” اور یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ یا رب! اس شہر کو پر امن بنا دیجئے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچائیے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔ ”

اس دعا سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ کسی ملک کا نظریہ اور ملک کا امن کتنی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ نظریے اور امن کے بغیر ملک چل ہی نہیں سکتا۔
مگر افسوس اس بات پر ہے کہ ہم اپنے ملک کا امن تباہ کرنے میں خود ملوث ہیں۔ ایک حادثہ لاہور میں دسمبر 2019 میں پیش آیا۔ جو ایک خطرناک تصادم تھا۔ جو سوسائٹی کے دو اعلی طبقوں کے نمائندوں کے درمیان ہوا۔ وہ طبقے جنہیں انسانیت، تہذیب اور شائستگی کی اعلی ترین مثال ہونا چاہیئے۔ یعنی انسان کی جان بچانے والے ڈاکٹر اور معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کو یقینی بنانے والے وکلاء۔

مسئلہ  سفید کوٹوں اور کالے کوٹوں کے تصادم کا نہیں، معاشرے کی اقدار کےتہہ و بالا ہو جانے کا ہے۔ یہ سب مسائل قرآن و سنت کی دوری کی وجہ سے ہیں ورنہ اسلام تو ہمیں ہر انسان کا احترام کرنے کا سبق سکھاتا ہے۔ ہر مذہب اور مسلک کو حقوق دینے پر پابند کرتا ہے۔ اور پاکستان کا قیام بھی تو اسی مقصد پر ہوا تھا کہ تمام لوگوں کو مکمل حقوق ملیں گے۔پاکستان کا قیام انصاف اور حق پر مبنی معاشرہ اور ریاست قائم کرنے کے لئے تھا۔ ظلم اور استحصال کے راج کے لئے نہیں۔

اس کے ساتھ ملک کی سلامتی کے لیے ہمیں اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی فوج کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا ہوگا۔ موجودہ دور میں جس دفاعی شعبے میں جدت آئی ہے، ان سب میں ہمیں بھی جدت لانا ہوگی
کیونکہ قرآن کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے۔
سورہ انفال (آیت نمبر: 60) : اور مسلمانوں! جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کے لئے تیار کرو جن کے ذریعے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن پر بھی ہیبت طاری کر سکو۔ اس کے علاوہ دوسروں پر بھی جنہیں تم ابھی نہیں جانتے مگر اللہ انہیں جانتا ہے اور اللہ کے راستے میں تم جو کچھ خرچ کرو گے وہ تمھیں پورا پورا دے دیا جائے گا اور تمہارے لئے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔

اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ کا حکم ہے کہ ہم اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کریں یعنی یہ اللہ کا حکم ماننے کا ثواب بھی ملے گا اور جو ہم خرچ کریں گے وہ اللہ کی طرف سے ہمیں لوٹا دیا جائے گا۔ اسلام کا اصول ہے اسلحہ کے استعمال سے زیادہ اس کا اظہار پسندیدہ ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ نے اسی آیت کی روشنی میں 21فروری 1948کو بری فوج سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اسلحہ اور سازوسامان کو جدید ٹیکنالوجی کے مطابق رکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم اپنے کسی پڑوسی کے خلاف بری نیت رکھتے ہیں بلکہ یہ اس لیے کہ ہماری سلامتی کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہم کمزور نہ ہیں۔

اب آتے ہیں قومی خود مختاری کی طرف ہماری قومی خودمختاری حکمرانوں کے صدقے دم توڑتی جا رہی ہے۔پوری معیشت آئی ایم ایف کے اشاروں پر منحصر کر دی گئی ہے۔ اور عالمی اداروں سے متعلقہ افراد کو معیشت کی باگ ڈور سونپ دی گئی ہے۔ حکمرانوں کے اعداد و شمار کے جادوگر بتاتے ہیں پاکستان کا ہر شہری آئی ایم ایف کا مقروض ہےاس بات پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

شرم آتی ہے ہمیں اس ملک میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارہ نہ ہو۔

جس ملک میں قوم سے ان کی آزادی رائے اور ان کی مرضی چھین لی جائے تو اس قوم کی حیثیت کسی پنجرے میں بند قیدی کی طرح ہوتی ہے۔

ہمارے ساتھ بھی قیام پاکستان سے اب تک قومی خود مختاری کا مسئلہ چمٹا ہوا ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو دنیا کی ایک بڑی طاقت کی گود میں ڈال دیا ہے۔ نام نہاد امدادی قرضوں کے عوض ہم اپنی قومی خودمختاری کھو بیٹھے ہیں۔ ہم اپنے ملک کے اندر کوئی بھی فیصلہ، قانون سازی اس کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتے۔ ہمارے حکمران خود بھی ڈرتے ہیں اور اپنی قوم کو بھی دنیا کی ایک بڑی طاقت سے ڈراتے ہیں۔

حکمران کہتے ہیں کہ معیشت ترقی کر رہی ہے، غربت ختم ہو رہی ہے، کشکول ٹوٹ گئے ہیں، مگر عوام پریشان ہیں کہ معیشت ترقی کر رہی ہے؟ غریب کا چولہا بجھ رہا ہے۔ کشکول ٹوٹ گئے ہیں؟ روپے کی قیمت گرتی گرتی کہاں آ کھڑی ہوئی ہے۔

خود مختاری کے تحفظ کے لئے ہمیں اپنی معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے آزاد کرانا ہوگا اور اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے سود سے بھی پاک کرنا ہوگا۔
کیونکہ سود کے بارے میں قرآن میں وعید موجود ہے۔
(سورۃ البقرہ279 ) : پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو۔ اور اگر تم (سود سے ) توبہ کرو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔

اور حدیث میں بھی ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا (گناہ)میں یہ سب برابر ہیں۔
( صحیح مسلم4093 )
سود ایک ایسا عمل ہے جس کے خلاف اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ علمائے کرام سے سنا ہے کہ قرآن میں صرف سود ایک ایسا گناہ ہے جس کے خلاف اعلان جنگ کی دھمکی دی گئی ہےورنہ اور کسی گناہ کے لیے یہ الفاظ استعمال نہیں کئے گئے۔

سود زدہ ملک سے خیرو برکت اور خوشحالی اٹھا لی جاتی ہے۔ایک ایسا عمل جس پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت کی ہو وہ کیسے برکت اور خیر کا سبب بن سکتا ہے۔

ہمیں اپنے ملک کو قرضوں کے بوجھ اور سود سے پاک کرنا ہوگا کیوں کہ جب ملک مضبوط معاشی بنیادوں پر استوار ہو گا تو تب ہی کہیں جا کر قومی خود مختاری کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
اسلام نے جہاں مسلمانوں کو خودمختاری کی حالت میں دینی احکامات پر عمل کا پابند کیا ہےوہاں انہیں بے اختیاری کی حالت کے احکامات بھی دیے ہیں۔ انہیں بتایا ہے کہ اپنے وطن میں انہیں اگر دینی آزادیاں حاصل ہیں، جان مال اور آبرو کو خطرہ لاحق نہیں ہے تو انہیں وہاں ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے پرامن شہری بن کر رہنا اور اپنے دین پر عمل کرنا چاہیے۔

خود مختار اور آزاد اقوام ہی وہ واحد وسیلہ ہیں جن کی وجہ سے آزادی ہمیشہ قائم رہی اور امن ہمیشہ پروان چڑھا لہذا ہمیں سب سے بڑھ کر ہر صورت میں اپنی خودمختاری اور اپنی پیاری آزادی کی حفاظت کرنی چاہیے۔
علمائے کرام مسلمانوں کی زبو حالی اور تباہ حال کی وجہ دو چیزیں بتاتے ہیں : آپس کے اختلافات اور قرآن سے دوری۔

اگر ہم آپس کی نفرتیں غصہ، حسد اور ہر طرح کے اختلافات ختم کر دیں اور قرآن کو سمجھ کر پڑھیں ضابطہ زندگی کو قرآن کے اصولوں پر گزاریں
تو وہ وقت دور نہیں کہ اللہ تعالی نے ہمارے لیے جو عزت لکھی ہے۔ وہ اتنی شاندار ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ نے فرمایا تھا کہ” لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا”
انشاءاللہ جلد ہی پاکستان امت مسلمہ کا مرکز بنے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تعالی ان تمام لوگوں کا حامی و ناصر ہو جو اس پاکستان، اس کی عزت آبرو اور سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply