(تفصیلی رپورٹ )
ملک کے صفِ اوّل کے صحافی انصار عباسی نے دی نیوز میں ایک سٹوری بریک کی ہے جس میں وہ مندرجہ ذیل امور پر حکومت پنجاب کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں
1۔ حکومت پنجاب کے انسانی حقوق و اقلیتی امور ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو ہدایت کی ہے کہ وہ نصاب کی تمام کتابوں سے حمد و نعت اور سیرت سرور عالم ﷺ اور تمام اسلامی مواد کو نکال کر اسلامیات تک محدود کر دے۔
2۔ انصار عباسی کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق و اقلیتی امور ڈیپارٹمنٹ نے صوبائی کابینہ کی منظوری لئے بغیر ہی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو یہ چٹھی جاری کر دی۔
3۔ ہیومن رائٹس و منارٹیز افئیر پنجاب نے سپریم کورٹ کو نظر انداز کر دیا جس نے ابھی ان سفارشات پر کوئی فیصلہ کرنا تھا، جو One man Commission نے پیش کی تھیں۔
4۔ یکم اپریل کو انسانی حقوق و اقلیتی امور ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ایم ڈی کو خط لکھ کر 11 نومبر 2020 کو ہونے والی میٹنگ میں ون مین کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد کا کہا
انصار عباسی اپنی رپورٹ کے آخر میں خود لکھتے ہیں کہ ایم ڈی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو ون مین کمیشن کا فیصلہ یوں convey کیا گیا
Religious content must be excluded from the books of other subjects and must be restricted to the books specifically intended for religious knowledge ( Islamiyat / Ethics )
یعنی ون مین کمیشن نے سفارش کیا کہ
دیگر کتابوں سے تمام مذہبی مواد کو نکال کر صرف مذہبی تعلیم کے لئے مختص کتابوں یعنی اسلامیات اور اخلاقیات تک محدود کر دیا جائے۔
سوشل میڈیا پر طوفان
انصار عباسی کی اس رپورٹ پر آنا ً فاناً سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ پرنٹ میڈیا پر بھی ایک طوفان بپا ہو گیا ،تاثر یہ دیا جانے لگا کہ حکومت نصاب کے لازمی مضامین اردو انگریزی اور معلومات عامہ سے حمد و نعت سیرت مصطفے ﷺ ، خلفائے راشدین اور مسلم ہیروز بارے مواد کو نکال کر اسے اسلامیات تک محدود کرنے جا رہی ہے۔
حسب روایت اور حسبِ توقع دانشوروں نے عمران خان پر لعن طعن شروع کر دی کہ ایک طرف وہ ریاست مدینہ کے دعوے کرتے تھکتا نہیں اور دوسری جانب نصاب میں سے اسلامی مواد نکالا جا رہا ہے۔
مجھ کم علم و کم فہم کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سینئر ترین قلمکار اور لکھاری بھی حقیقت جانے بغیر وزیر اعظم اور پنجاب حکومت کو برا بھلا کہنے لگ گئے۔
سچ کیا ہے
یہ جاننے کے لئے پہلے دیکھنا ہو گا یہ ون مین کمیشن کیا ہے
2014 میں سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ایک رٹ دائر کی گئی تھی جس پر دئیے گئے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوا تو موجودہ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی خاطر ایک Implementation Commission تشکیل دے دیا جس کی سربراہی سابق آئی جی ڈاکٹر شعیب سڈل کو سونپ دی
مزید ایک تین رکنی کمیٹی بھی بنا دی گئی
ڈاکٹر شعیب سڈل نے کام شروع کر دیا اور اس ضمن میں کئی volumes پر مبنی اپنی سفارشات 30 مارچ 2021 کو سپریم کورٹ میں پیش کر دیں اور صوبوں کو ان پر عملدرآمد کے لئے ہدایات جاری کر دی گئیں۔
ڈاکٹر شعیب سڈل کی رپورٹ کیا ہے یہ ابھی منظر عام پر نہیں آئی لیکن ذرائع کے مطابق ان کی سفارشات میں شامل ہے کہ ملک کے اندر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کی خاطر ضروری ہے کہ نصاب میں لازمی مضامین میں سے اسلامی مواد کو نکال کر اسلامیات اور اخلاقیات تک محدود کر دیا جائے کیونکہ یکساں نصاب کی روشنی میں دیکھا جائے تو لازمی مضامین یعنی اردو انگریزی میں مذہبی مواد کی موجودگی ” مذہبی ہدایات ” دینے کے مترادف ہے اور کسی بھی غیر مسلم کو یہ مواد پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
ہیومن رائٹس و منارٹیز ڈیپارٹمنٹ پنجاب کا موقف
میں نے حقیقت جاننے کی خاطر لاہور رابطہ کیا تو میری بات ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز صاحب سے ہوئی، ان کا کہنا تھا
” ہمارے ڈیپارٹمنٹ کا کام ہی اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر متعلقہ اداروں اور محکموں سے رابطہ ہے بنیادی طور پر ہم Coordination کا کام کرتے ہیں سپریم کورٹ کے مقرر کردہ کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد ہمارا کام نہیں ہم نے متعلقہ محکموں تک convey کرنا ہوتا ہے پھر ان کا جائزہ لے کر ان سفارشات پر عملدرآمد ان کی صوابدید ہوتا ہے نصاب کے متعلق کمیشن کی ہدایات کو ہم نے سیکریڑی تعلیم اور پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ تک پہنچا دیا۔
میرا سوال تھا کہ آپ پر اعتراض ہے کہ صوبائی کابینہ کی منظوری لئے بغیر آپ نے ایم ڈی پنجاب بورڈ کو خط لکھ دیا
جس پر ان کا کہنا تھا کابینہ سے منظوری تو آخری مرحلہ ہوتا
سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ کابینہ سے منظوری ہماری صوابدید نہیں بلکہ یہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا کام ہے
ہم نے تو بس عدالتی کمیشن کی سفارشات کو من و عن آگے پہنچا دیا
سیکریٹری تعلیم پنجاب کا موقف
اس کے بعد میرا رابطہ ہوا سیکریڑی تعلیم پنجاب سے پوچھا کیا ماجرا ہے کیا واقعی نصاب کے لازمی مضامین سے حمد و نعت اور سیرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نکالے جانے کا خط آپ کے توسط سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو بھیجا گیا
اس پر انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا
متعلقہ کمیشن کی رپورٹ میری نظر سے گذری ہے اس کی wording ہر گز ایسی نہیں تھی اس میں کہیں یہ نہیں لکھا تھا کہ حمد و نعت سیرت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو Exclude کیا جائے
بلکہ اس میں سفارش کی گئی تھی کہ Religious content must be excluded،بس اس سے زیادہ ایسا کچھ بھی نہ تھا
اور یہ تو محض سفارشات ہیں کونسا ان پر عملدرآمد ہو گیا اور ابھی تو ان کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا یہ قابل عمل ہیں بھی کہ نہیں اور پھر چونکہ یہ مذہب سے متعلق معاملہ ہے تو اسے علما کونسل کو بھیجا جائے گا تاکہ ان کی حتمی رائے لی جا سکے جس کی روشنی میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا
ہمیں بھی معاملے کی حساسیت کا اچھی طرح سے اندازہ ہے یہ کروڑوں مسلمانوں کے احساسات اور جذباتی وابستگی کا ایشو ہے!
پاکستان نیشنل کمیشن برائے منارٹیز کا ردعمل
حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کمیشن برائے منارٹیز کے سربراہ سر چیلا رام کیولانی نے ڈاکٹر شعیب سڈل کے یک رکنی کمیشن کی رپورٹ کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے
خلاصہ کلام
1۔ سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے حقوق پر اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے ایک کمیشن مقرر کیا
2۔ کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل نے اس ضمن میں صوبوں کو دی جانے والی سفارشات سپریم کورٹ کو پیش کر دیں
3۔ رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی کہ بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کے لئے ضروری ہے کہ نصاب کے لازمی مضامین سے مذہبی مواد نکال کر اسلامیات اور اخلاقیات تک محدود کر دیا جائے
4۔ یہ سفارشات ہیومن رائٹس و منارٹیز افیئرز پنجاب تک پہنچیں اور پھر انہیں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ تک بھیج دیا گیا ہے
یہ سفارشات چونکہ براہ راست مذہب سے متعلقہ ہیں لہذا انہیں علما کونسل کے سامنے رکھا جائے گا
پھر آخری مرحلہ ہو گا کابینہ سے منظوری یا عدم منظوری لہذا یہ تاثر دینا قبل از وقت ہے کہ حکومت پنجاب یا ہیومن رائٹس پنجاب کچھ غلط کر رہے ہیں
پاکستانی کیا چاہتے ہیں
یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات کو روند کر ایسا کوئی فیصلہ کر سکتی ہے کہ لازمی نصاب میں سے حمد و نعت اور سیرت سرور صلی اللہ علیہ وسلم نکال دے
کیا آبادی کا 96.2 فیصد غالب حصہ ایسا ہونے دے گا ؟
جو ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا وہاں ایسی کوئی مذموم کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی
کمیشن کو جانے کیا سوجھی جو یہ تجویز پیش کر دی
کہاں کا جبر کہاں کی زبردستی اقلیتی طلبہ و طالبات کو آزادی حاصل ہے کہ وہ اسلامیات کی جگہ اخلاقیات Ethics کا مضمون اختیار کر لیں
اور یہ کیسی منطق ہے کہ اردو انگریزی اور دیگر مضامین میں سے مذہبی مواد نکال دیا جائے تو بین المذاہب ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی
کوئی ہے جو کمیشن کے سربراہ کو بتا دے
حضور امتیازی سلوک کی بنیاد تو آپ رکھنے جا رہے ہیں
یعنی ہماری حمد و نعت سے آپ کی رواداری پہ حرف آتا ہے تو ہم نے تو کبھی یہ کہہ کر انگلش لٹریچر پڑھنے سے انکار نہیں کیا کہ کیٹس ملٹن ورڈز ورتھ شیکسپیئر کو نصاب سے نکالا جائے
تو پھر اردو بطور زبان پڑھتے ہوئے آپ کو حمد و نعت پہ اعتراض کیوں ؟ یہ بھی تو سخن کی اصناف ہیں
آپ کو سیرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ کیوں ؟ خلفائے راشدین کے سنہری کارناموں پہ اعتراض کیوں
ہم بھی تو سکندر اعظم سیزر نپولین کے قصے پڑھتے ہیں
لازمی مضامین میں ایسے ابواب کتنے ہوں گے محض دو یا تین بس
تو ان کی تدریس سے رواداری اور اقلیتوں کے حقوق پہ کیا حرف آنے لگا ہے ؟
ایسا کرنے کی کسے مجال ہے؟
نظریہ پاکستان سے کھلا انحراف ہم نہیں ہونے دیں گے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں