وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ممالک بہترین انداز میں ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں جن کے ہمسائیہ ممالک کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہوں۔ اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے یورپی یونین کا قیام عمل میں آیا اور تمام یورپی ممالک جو کبھی آپس میں دست و گریبان تھے آج ایک دوسرے کی ترقی سے مستفید ہور ہے ہیں۔ چین نے بھی ہمیشہ اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دیا ہے۔ آج کے چین میں صدر شی جن پھنگ کی ولولہ انگیز قیادت میں چین کی ہمسائیہ سفارت کار شاندار انداز میں ترقی کر رہی ہے۔
اپریل 203 میں چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے بو آو ایشیائی فورم کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی تصورات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چین خوشگوار ہمسائیگی کو مضبوط بناتے ہوئے باہمی فائدے کی بنیاد پر تعاون کو فروغ دے گا اور ہمسایہ ممالک چین کی ترقی سے مستفید ہوں گے ۔
چینی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کےانسٹی ٹیوٹ آف ایشیاء پیسیفک اور عالمی حکمت عملی کے محقق شو لی پھنگ نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ آٹھ برسوں میں خوشگوار ہمسائیگی سے لے کر ” دی بیلٹ اینڈ روڈ : انیشیٹو تک چینی خارجہ امور کے حوالے سے شی جن پھنگ کے نئے تصورات اور نئے اقدامات سے چین کی سفارت کاری کو ایک نئی بلندی حاصل ہوئی ہے ۔
چین کی خارجہ امور یونیورسٹی کے سینٹر برائے اسٹریٹجک اینڈ پیس ریسرچ کے ڈائریکٹر سو ہاو نے واضح کیا کہ گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران ، چین اور کمپوڈیا ، لاؤس ، پاکستان اور قازقستان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک نے دو طرفہ اتفاق رائے کی بنیاد پر ہم نصیب معاشرے کی تشکیل کی کوشش کی ہے ، اور اس قسم کے ہم نصیب معاشرے کا قیام در اصل علاقائی تعاون کے ایک مجموعی ڈھانچے کے تحت کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح ایشیا کے معاملات سے ایشیائی لوگوں کے مشترکہ طور پر نمٹنے اور ایشیا کے فروغ کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کیا جائے گا ۔
چینی اکیڈمی برائے سوشل سائنسز کی جانب سے حال ہی میں جاری ” چین اور ہمسایہ ممالک کے تعلقات کے حوالے سے بلیو پیپر ” کے مطابق ، نوول کورونا وائرس کی وبا کے مسلسل اثرات کے تحت رواں سال تعاون کے ذریعے وبا کا مشترکہ مقابلہ بدستور چین اور ہمسایہ ممالک کا ایک اہم مواد ہے۔
سن 2013 کے بعد سے ، چین نے اپنی ہمسایہ سفارت کاری کی فعال طور پر منصوبہ بندی کی ہے ۔ایک طرف اس نے موجودہ باہمی اور کثیر الجہتی تعاون کے طریقہ کار کے مستقل نفاذ اور ترقی کو فروغ دیا ہے۔دوسری طرف اس نے نئی صورتحال اور نئی ضروریات کے مطابق مزید تعاون کے نئے میکانزم اور پلیٹ فارم تیار کیے ہیں، اور پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی تعاون کو بڑھانے کے لئے مشترکہ مفادات کا قریبی نیٹ ورک قائم کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت چین اور پڑوسی ممالک کے مابین مفادات کا انضمام ایک نئی بلندی پر پہنچ چکا ہے۔
چین کی خارجہ امور یونیورسٹی کے سینٹر برائے اسٹریٹجک اینڈ پیس ریسرچ کے ڈائریکٹر سو ہاؤ نے نشاندہی کی کہ چین مشرقی ایشیاء 10 + 3 ، شنگھائی تعاون تنظیم ، بوآؤ ایشیائی فورم اور دیگر فریم ورک کے تحت موجودہ تعاون کو مزید گہرا کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقائی تعاون کو فعال طور پر بڑھانے کےلیے نئے پلیٹ فارم کے قیام کی کوشش بھی کی گئی ہے ۔
چین آج کی دنیا میں تعاون کو ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتا ہے۔ چین نے ہمسائیہ تعاون کے اپنے تصور کو “دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو” کی صورت میں مزید آگے بڑھایا ہے۔ آج پوری دنیا چین کے اس ترقیاتی تصور سے استفادہ کررہی ہے۔ وبا کے بعد جب دنیا کساد بازاری کا شکار تھی اور عالمی سطح پر معیشت جمود کا شکار ہو چکی تھی، چین نے بھر تعاون کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپلائی چین کو قائم رکھا اور اب چین ویکسین تعاون کے ذریعے عالمی اعتماد کو بڑھا رہا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک خصوصاً ترقی یافتہ مغربی ممالک کو چین کے اس جذبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں