میں کہاں کہاں سے گذر گیا ۔۔۔۔ظفر الاسلام سیفی/قسط3

گھر میں ایک اہم کام یومیہ بنیادوں پر بکریاں چرانا ہوتا تھا،تفصیل اس ابہام کی یوں ہے کہ بھاگ دوڑ کے ہرکام کی طرح بکریاں چرانا بھی  ہر گھر کے ہر بچے کے مثل، ہمارے گھر میں بھی ہمارا ہی  کام سمجھا جاتا تھا،سورج کی تمازت تھمتے ہی اپنے تایا زاد بھائی کی معیت میں بڑھتی گھٹتی بکریاں لے کر ”عازم چراگاہ“ ہوجاتا،ایک رسی کے ساتھ کمال مہارت سے دوبکریوں کو باندھے، راستے کے نشیب وفراز کو، ہم کسی موج دریا کی طرح  اس قدر سرعت سے کاٹتے گویا کوئی ہوائی جہاز فضا میں کسی منزل کی جانب رواں ہو، ”آہستہ وباوقار انداز سے چلنا“ ہماری نظر میں ایسی باتیں کتابوں میں لکھنے یا بیان میں بتلانے کے لیے ہوتی تھیں، ہمارے چلنے کی چال ڈھال سے بکریاں یقیناً  ہم سے ” مہذب“ لگتیں ،چراگاہ کو ہم اپنی زبان میں ”رکھ“ کہتے تھے اور یہی وہ مقام تھا جسے ہماری دن بھر کی شرارتوں کی جائے معراج ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔

پگڈنڈیوں کے جلو میں ایک بہتا ”کس“ ہر روز ہم شریف زادوں کو عجب ”گدگدی“کرنے لگتا،ظاہر ہے کہ دھماچوکڑی نے تو مچنا ہی تھا، چنانچہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں بہتے ”کس“ کے ساحل سے یوں اٹھاتے جیسے ”رمی جمرات“ ہونے کو ہے،اور پھر ”کس“ کے پیٹ میں گدگدی کرنے کے لیے کنکری اس زور سے مارتے کہ چھینٹیں دوسری سمت کھڑی ”بی ٹیم“کا سینہ چاک کر کے رکھ دیتیں،بکریاں اسوقت کیا کرتی تھیں یہ تو یاد نہیں البتہ ہم جو کرتے تھے وہ اچھی طرح یاد ہے۔

اکثر ایسا ہوتا کہ سکول کا ہوم ورک مکمل ہونے سے قبل ہی ہماری بکریاں چرانے کا الارم بج جاتا،ایمرجنسی کی اس حالت میں ہم اپنا بیگ یا مقررہ کتاب اپنے ہمراہ ہی لے آتے، ”رکھ“ گھر کے کچھ فاصلے پر ہی تھی،ہمارے لیے چراگاہ کا  حدود اربعہ بیان کردیا گیا  تھا مگر ہم نے کونسا کام دائرے کے اندر کیا جو یہ کرتے ،سو ”رکھ“ سے متصل جنگل ہم نے اپنے بچپن کے ” صوابدیدی اختیارات “ استعمال کرتے ہوئے ”جزو رکھ “ بنالیا تھا۔

جنگل بے حد گھنا اور نہایت خوبصورت تھا،قطاراندر قطار چیڑ کے درختوں کی دلفریبی ایک خوبصورت کیف طاری کیے ہوئے ہوتی، خاموش فضا میں پرندوں کی چہچہاہٹ عجب سماں باندھ دیتی،چیڑ کے درختوں سے گرتی ”نر کونیں ومادہ کونیں“ جنہیں ہم ”کھنگلا “ کہاکرتے جابجا پڑے ہوتے،جنگلی گھاس کو ہم اپنی بدوی بولی میں ہونٹوں کا ایک سرکل بنا کر تکلفاً  ” چیمپوتل “ کہا کرتے،اس گھاس کی خوبی تھی کہ چلنے والے کو ذرا بے احتیاطی پھسلا کردور کہیں پھینکنے میں ایک گھڑی نہ لگاتی،بہار کے موسم میں جنگل کسی دلہن کی طرح سج جاتا،اسکی خاموش فضائیں کسی نخرے بازمعشوقہ کی طرح دم بخود کردینے والی ہوتیں،ہمارا دل نجانے کیسے جنگل کی خاموش اداؤ ں پر آگیا،پیڑوں کا دامن کسی ” پینگھوڑے “ سے کم نہ ہوتا، جنگلی گھاس مخملیں فراش بن کر ہمیں گود سلاتیں اور صنوبر کی نرکونیں ازخود سرکتے ہوئے ہمارے لیے تکیہ بن جایا کرتی۔

ہم بکریوں کے گلے میں لمبی رسی ڈال کر کسی چیڑ سے باندھ دیتے اور خود دور کسی پیڑ پر چڑھ کر بآواز بلند اپنے سکول کی کسی کتاب کا سبق یادکرنے لگتے،لکھنے کاکام اکثر درختوں کی اوٹ لے کر کرتے کہ مباداکسی کی حس ظرافت پھڑکے اور ہمارے کام کی ایسی کی تیسی ہوجائے،ہوم ورک ہوتا تو جنگلوں میں تھا مگر آج کل کے ٹیوشن انسٹیٹیوٹس سے بدرجہا بہتر تھا،کرنے کاکام کبھی نہ کیا ہو ایسا مجھے یاد نہیں،پڑھائی میں ڈنڈی مارنا ہمیں نجانے کیوں اچھا نہیں لگتا تھا،میں جتنا شرارتی تھا پڑھائی میں اسی قدر سنجیدہ ومحنتی بھی تھا،شاید  اسکی وجہ وہ واقعہ تھا جو گرمیوں کی اس دوپہر پیش آیا ۔۔۔

جس میں سکول وقت کے اختتام پر  جملہ طلباء کی تختی چیکنگ بابت  ایک گرینڈ آپریشن ہوا، مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ یہ اہتمام ہمارے استاذناالمکرم ماسٹر صغیر صاحب کے حوالے ہوا، ماسٹر صاحب موصوف نہایت اصولی اور تعلیمی امور میں بے حد سخت تھے،لائن میں کھڑے طلباء ایک ایک کرکے استاذی کی طرف بڑھ رہے تھے،تختی کی دونوں سائیڈز پر لاٹھی کی بجنے والی ”ٹھاہ“کام کے تسلی بخش ہونے اور چھٹی کر لینے کی علامت تھی،طلباء یکے بعد دیگرے کام چیک کروا کر نکلتے جارہے تھے،ہم اتفاقا ً اس دن اپنے ماموں جان کے ہاں سے  بجائے گھر جانے کے سیدھا سکول آگئے،بستہ پاس تھا نہ تختی،چنانچہ تہی دست لائن میں کھڑے آیت الکرسی کا ورد کر کے استاذجی پر پھونکے جارہے تھے،اچانک مار سے بچنے کے لیے ایک تدبیر سوجھی،اپنے عقب میں کھڑے طالب علم ساتھی کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ اپنی تختی مجھے دے دیں،میں چیک کرواکر سکول کی دوسری سمت سے آکر اسے تھما جاؤں گا،وہ بیچارہ سادہ لوح تھا یا دل کا اچھا  بہرحال راضی ہوگیا،میں اپنے نمبر پر تختی چیک کروانے کے بعد جب سکول کا عقب پھلانگ کر دوسری سمت سے آنے لگا تو دیکھا کہ وہ بند ہے،اب وہ ساتھی مارکھائے یہ بات بہرحال مناسب تھی نہ لگی

چنانچہ اسی سمت واپس آکر اس کا انتظارکرنے لگا،نمبر آنے پر میں آگے بڑھا اور استاذجی سے کہا کہ یہ اسکی تختی ہے،استاذ جی نے ترکی بہ ترکی جواب کیا بلکہ سوال داغا کہ پھر تیری کہاں ہے؟ظاہر ہے جواب ”چوں چوں “ کے سوا ہوتا تو دیتا،استاذ جی غضبناک لہجے میں بولے۔۔۔ کیا کہتا ہے؟ مگر جواب ندارد،پھر ظاہر ہے کہ ”دغادغڑ “ کے سوا کیا ہونا تھا جو ہوتا۔میرے تعلیمی دورانیے کی یہ پہلی مار تھی اور شائد اس سکول میں آخری بھی کہ اس کے بعد مار کھانا یاد نہیں  ہے۔ایسا نہیں تھا کہ مجھے اس مار کا درد کچھ ضرورت سے  زیادہ ہوا اور اسکا خوف رہنے لگا بلکہ میرے نزدیک جو چیز زیادہ سنگین،تکلیف دہ اور باعث تشویش تھی وہ مار کے ضمن میں ہونے والی وہ تذلیل تھی جو عموما ًنالائق ونااھل بچوں کا مقدر ہوا کرتی ہے۔

فکرمندی،سنجیدگی اور ذمہ داری کا یہ احساس ہی تھا جو ”رکھ“ میں بھی ہمیں یومیہ تعلیمی کام کی تکمیل کی طرف متوجہ رکھتا،چنانچہ کسی پیڑ پر چڑھ کر ہو یا کسی درخت کی اوٹ لے کر ہو۔۔۔۔۔ پڑھنے کاکام ہمیں پورا کرنا ہی ہوتا تھا جو ہم کرتے۔
سکول ہوم ورک بالکل ہی نہ ہونے کی صورت میں یا مکمل کرلینے کی صورت میں ”رکھ“ کے اسی مقام پر وہ ”ہائے ہو“ مچتی کہ الامان والحفیظ ، ایسا لگتا کہ ہم بکریاں چرانے نہیں بلکہ بکریاں ہمیں کھیل کھلانے آتی ہیں، تب یوں لگتا کہ ”رکھ“ صرف بکریوں کی چراگاہ ہی نہیں بازیچہ اطفال بھی ہے۔

صنوبر کے نرکونین یعنی کھنگلے توپ کے گولے سا کام دیتے،فریق مخالف میں اصلاح کی ہر کوشش بے سود دیکھنے کے بعد ہمارا آخری ہتھیار سرپر کھنگلا ہی دے مارنا ہوتا تھا،میرے ساتھ آنے والا میرا تایازاد بھائی عمر میں بلکہ قد میں بھی مجھ سے بڑا   تھا،لڑنے بھڑنے میں بے خوف ہونے کے باوجود میں اس سے نہیں لڑتا بھڑتا تھا،وہ شاید اسے میری کمزوری سمجھ کرہردوسرے تیسرے دن مجھے ”ٹھوک ٹھوک کے ٹھوکتا “ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ میں کیسے اونچا اونچا روتے ہوئے گھر واپسی کرتا،امی جان سمجھاتی اور مجھے تسلیاں دیتی،امی جان کی عادت تھی کہ وہ سخت ناگواری والی بات پر فرمایا کرتی ”ظفربندے قتل داکیس اے “یعنی ظفربندے قتل کا کیس گویا تم پر ہے،اتنی بڑی بات پر ظاہر ہے کہ پھانسی کے لیے تیار ہونا ہی بنتا ہے جو ہم ہوتے تھے۔امی جان جب تایازاد بھائی کے حوالے سے فرماتی کہ ”آنے دو اسے اس پر قتل داکیس اے“ تب ہمیں تسلی ملتی کہ اب کی بار امی لازماً  کچھ کریں گی،طرفہ تماشا یہ تھا کہ اس بھائی سے امی جان نے کبھی پوچھا نہ وہ ہمیں کبھی مارنے سے باز  نہ آیا،کچھ دنوں بعد ہمیں بھی یقیں ہوگیا کہ امی جان اس عنوان پر وہ پنجاب پولیس ہیں جن کا کام باتیں کرنے سے زیادہ کچھ نہیں۔

بکریاں چراتے ہوئے ایک کام جو مزید ہوتا وہ ”پٹھو پٹھو “ کھیلنا ہوتا تھا،ہم اتنے لوگ ہوتے تھے کہ دوٹیمیں بآسانی بن سکیں، پٹھو کے لیے کسی ہموار زمین کا انتخاب ہوتا،اس میں چھ یا سات پتھریاں بالترتیب ایک دوسرے کے اوپر رکھ دی جاتیں،ظاہر ہے کہ ہموارزمین مشکل تھی نہ چھ سات پتھریاں،گیند بنانے میں البتہ ہمیں تکلف کرنا پڑتا تھا،گھر میں پڑے جرابوں کے ریڑھی پر لگی سیل سے خریدے گئے پرانے جوڑے ہم کسی قیمتی سرمایے کی طرح نکال لاتے اور بیٹھ کر ”اجتماعی گیند“ بناتے،ازاں بعدایک ساتھی بالترتیب رکھے پتھروں کو گیند مارکر گراتا اور پھر وہ گیند مخالف ٹیم کے پا س چلی جاتی،مخالف ٹیم والا اس کو گیند مارنے کی کوشش کرتا اور وہ خود کو گیند لگنے سے بچاتے ہوئے ان گرے ہوئے پتھروں کو ازسرنو ترتیب سے لگانے کی کوشش کرتا،اگر وہ گیند لگنے سے پہلے ہی اس کوشش میں کامیاب ہوجاتا تو اتنے زور سے ”پٹھو“ کہا کرتے کہ کانوں سے ”شوں شوں“ کی آوازیں آنے لگتی،بعض اوقات کھیلنے والوں میں سے کوئی ازراہ شرارت پہلے ہی ”پٹھو“ کہہ دیتا تاکہ گیند مارنے کی کوشش ہی نہ کی جائے،ایسی صورت میں ہم مسکین بجائے تسلی کرلینے کے کہ پہلے بولا یا بعد ”شوں شوں“ کرتے کان پکڑ کر بیٹھ جاتے۔

بکریاں چری ہوتی یانہیں البتہ ہم جی بھر کر کھیل چکے ہوتے،شام کو سورج کے ڈوبنے سے پہلے ہی گھر نکل کھڑے ہوتے،راستے میں بہتی آبشار کے ساتھ چند منٹ کی اٹھیلیاں کرکے اس تیزی کے ساتھ بھاگتے گھر پہنچتے کہ راستے کے نشیب کا احساس ہوپاتا تھا نہ فراز کا،آہ کتنی پرکٹھن زندگی کتنی حسین ہوتی تھی،گذرگئی مگر احساس ہی نہ ہونے دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ظفر الاسلام
ظفرالاسلام سیفی ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب ہیں ، آپ اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھتے ہیں ،شاعر مصنف ومحقق ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply