فجر کا وقت(2،آخری قسط)۔۔روبینہ فیصل

اس عورت کے پیچھے چلتے ہو ئے فاطمہ کی ایک اور پرانی دوست کو فاطمہ کے مشہور ِ زمانہ قہقہے یاد آنے لگے۔
پرانی دوست: “امی کہہ رہی تھیں کہ فاطمہ ابھی دروازے سے داخل ہی ہو تی ہے کہ اس کا قہقہہ پہلے ہی باورچی خانے تک پہنچ جا تا ہے۔ ”
ایک اور دوست: “ہم سب کا یہی حال ہے۔”
فاطمہ: “تو اور کیا،ہنسے بغیر بھی کوئی زندہ رہ سکتا ہے؟ ”
اور سب دوستیں اونچی اونچی ہنسنے لگیں ان سب میں سے فاطمہ کا قہقہہ زندگی سے بھر پور اور بلند تھا۔ اس منظر کے بعد فاطمہ کے مردہ چہرے پر ہنسی کا ایک اور گھیرا بڑھ گیا۔
اب اس کی ماں اس کے سرہانے کھڑی  بلک بلک کر رو رہی تھیں۔۔ کئی عورتیں انہیں سہارا دے رہی تھیں۔ اسے اپنی ماں سے بہت پیار تھا۔ لیکن اسے ہمیشہ یہ لگتا تھا کہ اس کی ماں کہیں ہجوم میں گم ہو گئی ہے۔ اس کی کئی ضرورتیں اور کئی خواہشیں بہن بھائیوں کی قطار میں کہیں پیچھے رہ جا تی تھیں۔ ماں اس کے لئے اہم تھی مگر وہ ماں کی زندگی کے منظر نامے میں کسی دھندلی تصویر سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی تھی، وہ تصویر جس کو ماں حسب ِ ضرورت ایک آدھ مرتبہ جھاڑ کر دیکھ لیا کرتی تھی۔ ماں کو روتا دیکھ کر اسے دکھ ہو نا چاہیے تھا مگر اس کے اندر ایک کمینی سی خوشی کی لہر اٹھ رہی تھی، بالکل ویسی ہی خوشی جیسی اسے باجی کو اپنے لئے روتا دیکھ کر ہو رہی تھی۔ آخر کار ماں کو ا س کی بھی فکر ہو ئی۔ وہ اس کے لئے بھی روئی۔

اب جو منظر اسے نظر آرہا تھا اس میں ماں کچن میں کھڑی کچھ پکا رہی تھی،وہ ساتھ کھڑی برتن دھو رہی تھی اور اسے اپنی آواز سنائی دی جس میں فکر سے زیادہ غم تھا؛”ماں میں کیسے اتنا زیادہ کرایہ دوں گی۔بھائیوں کے پاس تو پیسے ہیں،ہمارے پاس تو نہیں ابھی۔ ” اپنے شوہر کے ساتھ کینیڈا آنے کے بعد ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ آتے ہی کہیں الگ سے رہ سکتے اس لئے اسے ماں باپ کے گھر رہنا پڑا تھا۔
ماں: “ان کے پاس پیسے اسی لئے ہیں کہ طریقے سے چل رہے ہیں، ایسے ہی اِدھر اُدھر ضائع کرتے رہے اور طریقے سے نہ چلے تو ان کے پیسے بھی ختم ہو جائیں گے۔ تم اور تمہارے بچے اب حسیب کی ذمہ داری ہو، میرے بیٹوں کی نہیں۔حسیب کی عادتیں نہ خراب کرو ”
فاطمہ: “مگر ماں اتنے زیادہ پیسے ۔۔تھوڑے سے تو کم کر دیں ابھی حسیب کی نوکری بھی پکی نہیں۔”
ماں:” بالکل بھی نہیں۔۔ مہینے کی مارگیج کی قسط جانی ہو تی ہے کیسے تمہارے بھائی پورا کریں گے؟ ”
فاطمہ: “ماں! پچاس ڈالر ہی کم کر دیں۔۔ ”
ماں نے اس فرمائش پر انکار کرتے ہو ئے اسے ایک لمبا حساب کتاب گنا دیا جس میں بچوں کے اضافی گراسری کے خرچے وغیرہ تھے۔ وہ خاموش ہو گئی۔ اس کا دل اندر سے چھلنی ہو گیا تھا۔
ماں:” اب ایسے کیوں چپ ہو گئی ہو جیسے کوئی بہت بڑا ظلم ہو گیا ہے۔”
فاطمہ ہنستے ہو ئے؛ “نہیں ظلم نہیں،احسان ہے آپ کا کہ مجھے اپنے گھر میں میاں اور بچوں کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔۔ ورنہ ہم کیا کرتے۔۔ ”
فاطمہ کے مردہ چہرے پر مسکراہٹ کا ایک دائرہ اور بڑھ گیا۔ ماں کی جھریوں میں کچھ آنسو اٹکے ہو ئے تھے، وہ اس کے مردہ چہرے پر گرنے لگے۔ وہ یونہی ہنس دیا کرتی تھی۔ ہر نا انصافی اور مشکل کے بعد یو نہی ہنس دیا کرتی تھی۔ مسکراہٹ اس کے چہرے کا مستقل حصہ تھی،اس کے دل کے تمام زخم چہرے تک پہنچ کر مسکراہٹ بن جا یا کرتے تھے۔ اسے کم ہی کسی نے اداس اور غم ذدہ دیکھا تھا۔۔ اس نے اپنی زندگی کی روایت مر نے کے بعد بھی قائم رکھی ہو ئی تھی۔۔ ہر تلخ یاد مسکراہٹ کے ایک دائرے کی صورت اس کے چہرے پر ابھر رہی تھی۔

اسی ہال کے ایک کونے میں اسے اپنے ابا نظر آئے۔ اس کے ابا کے چہرے پر ملال تھا، بوڑھا جسم جھکا ہوا تھا۔ اور آنکھیں آنسوؤں سے خالی تھیں۔ وہ بالکل گم سم ایک کونے میں فرشی دری پر دبکے بیٹھے تھے۔ ان کے پاس اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ چل کر اپنی بیٹی کا آخری دیدار کر سکتے۔ ان کا سر ان کے گھٹنوں تک جھکا ہوا تھا۔
ابا: “لڑکوں کے ساتھ پڑھنے یا نوکری کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے ساتھ چکر چلا لیا جائے۔”
فاطمہ: “ابا! میں نے کسی کے ساتھ چکر نہیں چلا یا۔ اس نے مجھ سے شادی کا کہا میں نے اسے رشتہ بھیجنے کا کہہ دیا، چکر کہاں سے آگیا۔”
بڑا بھائی: “شرم نام کی چیز ہے تمہارے اندر؟ بڑی بہن بھی کالج جاتی تھی، کبھی کچھ ایسا نہیں سنا، تم تو پتہ نہیں کیا چیز نکلی ہو،ہر دوسرے دن کوئی گھر پہنچا ہو تا ہے۔ ”
فاطمہ: “تو بھیا رشتہ لینے ہی آتے ہیں نا، میں کوئی غلط کام کروں تو چھپا کر کروں۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ فیصلہ کر یں۔۔جو بھی۔ ”
بڑا بھائی: “تو صبر کرو نا،اتنی کیا آفت آگئی ہے۔ ہمیں رشتہ ڈھونڈنے دو، خود کیوں اتاؤلی ہو رہی ہو اور الٹے سیدھے ہاتھ مار رہی ہو۔”
یہ بات سن کر فاطمہ کا چہرہ شرم سے سر خ ہو گیا۔ وہ پچیس سال کی ہو نے والی تھی۔ اس کی بڑی بہن کی شادی اکیس سال میں ہی کر دی گئی تھی۔ فاطمہ کو پڑھنے کا شوق تھا مگر اب پڑھ لیا تھا، نوکری بھی کر نے لگی تھی۔ اور اس کے رشتے یونیورسٹی کے زمانے سے آنے لگ گئے تھے۔ دفتر سے بھی کئی رشتے آئے تھے جس کی وجہ سے اس کے ابا اور بھائی اس سے ناراض رہنے لگے تھے۔
ابا: “فریدہ بیگم! اب جو بھی رشتہ آئے بس ہاں کر دو۔۔ روز روز کا تماشا بند کرو۔ ”
اس کی آنکھیں آنسو ؤں سے بھر گئیں؛” ابا کوئی بھی رشتہ؟ میں بیٹی ہوں آپ کی۔۔”
ابا نے اس کی طرف دیکھے بغیر اپنی بیوی کو پھر سے پکارا: “فریدہ بیگم سن رہی ہو میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔ ”
فریدہ بیگم: “جی جی سن لیا۔۔ وہ جو لڑکا ہے ندیم بہت پیچھے پڑا ہوا ہے اس کی ماں کوئی دس چکر لگا چکی ہے اسی کو ہاں کہہ دیتی ہوں۔۔ ”
فاطمہ چلا اٹھی: “اماں۔۔ وہ ایک نمبر کا نکما انسان ہے۔ یونیورسٹی میں نقلیں کر کر کے پاس ہوتا تھا، اہلیت نام کو نہیں۔”
اماں:” تو تمہاری تو اچھی جاب لگ گئی ہے نا ایسے ہی مل جل کے گھر چلتے ہیں۔۔ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا جب بچے ہو نگے۔ ”
فاطمہ رونے لگ گئی؛” اماں! میں آپ کی بیٹی ہوں؟ ”
اماں: “یہ باتیں تم نے تب سوچنی تھیں جب چکر چلا یا تھا۔۔ ”
فاطمہ: “اماں میرا کوئی چکر نہیں تھا۔۔۔”
“ہا ہا ہا۔۔۔” اماں کا طنزیہ قہقہہ۔۔ ابا کا غصہ اور بھائیوں کی تلملاہٹ۔۔۔

وہ تمام مناظر گزرے کئی سال گزر گئے۔۔ اس کے بعد کتنے منظر آئے اور اس کے چہرے پر اپنے نشان چھوڑتے چلے گئے۔ ایسے ہی کسی ایک منظر میں حسیب اس کی زندگی میں آگیا اور وہ اس کے ساتھ کینیڈا چلی آئی۔۔ جہاں اس کے دونوں بڑے بھائی،ماں باپ اور بہن بہنوئی پہلے ہی آکر آباد ہو چکے تھے۔۔
کینیڈا کے مناظر آپس میں گڈ مڈ ہو نے لگے۔۔ چہروں کے بدلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ اسے یاد ہی نہیں آرہا تھا کہ کون کب بدلا اور کس کے بدلنے کی وجہ کیا تھی۔ کتنی اہم باتیں کتنی صدمے سے بھر پو ر باتیں اور واقعات جن کی وجہ سے وہ پوری پوری رات جا گا کر تی تھی، جو ا سکے دل کو زخمی کرتے تھے، اب نہ جانے کہاں کسی دھند میں کھو گئے تھے۔ وہ ہنسنے لگی کیوں کہ اسے یاد ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ جو شخص اس کے اباکے پاس بیٹھا ہے اور جس کی آنکھیں رو رو کر سوجی ہو ئی ہیں وہ کون ہے۔۔ اس کے چہرے کے نقش و نگار میں فاطمہ تو کہیں نظر نہیں آرہی تھی تو یہ کون ہے جو اس کے ابا کے پاس بیٹھا ان کودلاسے بھی دے رہا ہے اور خود بھی رو رو کے ہلکان ہو رہا ہے۔ اس نے اپنے شوہر کو دیکھا، اس کے چہرے پر کتنے جانے پہچانے تاثرات تھے، جو اسے ازبر تھے، سالوں سے ایک جیسے۔ سپاٹ چہروں کے یہی تو فائدے ہو تے ہیں۔ حسیب، اب بھی وہی سپاٹ چہرہ لئے بیٹھا تھا۔ لیکن وہ شخص۔۔

دھندلے بادلوں میں سے ایک ہلکی سی آواز آئی جو اسی اجنبی شخص کے رونے کی آواز سے ملتی جلتی تھی، سسکیوں میں ڈوبی ہوئی آواز۔۔
اجنبی: “میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا، مجھے کبھی نہ چھوڑنا۔۔ “وہ اجنبی فاطمہ کے پیروں میں بیٹھا گڑگڑا رہا تھا۔
فاطمہ آنسوؤں سے ڈوبی آواز میں بول رہی تھی:” اب تو راستے بدل گئے، ہم اپنی اپنی منزلوں پر پہنچ چکے ہیں۔۔ اب چھوڑنے یا ساتھ رہنے کا سوال ہی کہاں۔۔ ”

“اوہ! اب یاد آیا۔۔ یہ تو وہ تھا جس سے فاطمہ نے اپنی روح کی تمام گہرائیوں کے ساتھ محبت کی تھی۔۔۔ اسفند۔۔اسفند۔۔” کالے بادلوں میں ہر طرف اسفند کی شبیہ ابھرنے لگی۔۔ کسی شبیہ میں وہ اس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھوم رہی تھی اور کسی میں ان کے ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست تھے۔۔ روح کے اندر سے ایک آواز ابھری زمانے کے ساتھ بدلنے والے بھی پچھتاوے کے آنسو بہاتے ہیں؟ وہ تو زمانہ ساز نکلا تھا۔۔ وہ، جس سے محبت، فاطمہ کے جسم کی نہیں بلکہ روح کی تنہائی کی ضرورت تھی۔ لیکن اتنے اہم مقام کے لئے کتنا کھوکھلا شخص اسے میسر آیا تھا۔۔ وہ شخص رو رہا تھا اور پچھتاوے کے کچوکے فاطمہ کو محسوس ہو نے لگے تھے۔ وہ اس کی زندگی کا کتنا گھٹیا باب تھا۔ فاطمہ نے آگے بڑھ کر اسے اپنے باپ کے پہلو سے اٹھایا اور اس کے منہ کو ورقہ ورقہ پھاڑ دیا۔۔ اب اسفند کا ناک، ہونٹ، آنکھیں لفظ لفظ فرش پر گر رہے تھے۔ فاطمہ مسکرا اٹھی۔ اطمینان کی لہر نے اسے اندر تک آسودہ کر دیا، سالوں سے دل کے اندر جمی گھٹن کسی گلئیشیر کی طرح پگھلنے لگی تھی۔
“میت کی تدفین کا وقت ہو گیا ہے۔۔”اس اعلان سے وہ چونک گئی۔۔”تو کیا نماز ِ جنازہ ہو گئی؟ کس کس نے پڑھی۔۔؟”
“تو کیا اب مجھے منوں مٹی تلے دفنا دیا جائے گا؟ میں ان سب لوگوں کو کیسے دیکھوں گی۔۔۔؟میرے بچے۔۔۔یا اللہ۔۔ کہاں ہیں میرے بچے۔۔؟ تو کیا انہیں یہاں لایا ہی نہیں گیا تھا؟یا اس کی نظروں سے ویسے ہی اوجھل تھے؟اور ابھی میں یہاں سے چلی جاؤں گی؟ بغیر بچوں سے ملے؟ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔۔۔ “۔فاطمہ کے دماغ میں ایک جھکڑ سا چلنے لگا یوں لگا پو رے ہال کمرے میں آندھی آگئی ہو۔لوگوں کی آنکھوں میں مٹی اڑ اڑ کر پڑنے لگی۔ فاطمہ کی آنکھیں بھی مٹی کے ذروں سے بھر گئیں۔۔ اسے اپنی آنکھیں کھولنا دشوار ہو گیا۔ اتنا اندھیرا۔۔ اس اندھیرے میں اسے اپنے بچو ں کے رونے کی آواز سنائی دی۔۔۔ “ماما، ماما۔۔۔!! سب سے چھوٹا چیخیں مار مار کر رو رہا تھا، سب سے بڑا سسکیاں بھر رہا تھا اور بیٹی چیخوں میں بار بار” ماں ماں ” پکار رہی تھی۔۔” ابھی چھوٹے تو تھے، ابھی تو ان کو میری ضرورت تھی۔۔ “فاطمہ کا کلیجہ پھٹنے لگا۔۔
“تدفین کہاں ہو گی؟ “ایک آواز اندھیرے میں اس کے قریب سے ابھری۔۔
“مسلمانوں کے قبرستان میں ہی اور کہاں۔۔۔” ایک اور آواز نے اسے دہلا دیا۔۔

“تدفین تدفین۔۔ تو یہ بچے؟ ماں کو دفنا دیا گیا تو ان بچوں کا کیا ہو گا۔۔ یہ جو سب لوگ کھڑے ہیں جن کے ہاتھوں میں ہمیشہ ہی ایک آرا پکڑا رہا اور اس سے میرا کلیجہ کاٹتے رہے،میت کے قریب کھڑے لوگوں میں سے کون ہے جو میرے ان معصوموں کو دیکھے گا۔۔ میری ماں؟ میری بہن؟ میرے بھائی؟ میرے دوست؟ میرا شوہر؟ کون آخر کون۔۔ ”
ایک آواز نے کہا؛ “شوہروں کا کیا جاتا ہے، وہ تو دوسری شادی کر لیں گے، ان چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا ہوگا۔۔؟”،تو کیا اس کے دل کی آواز وہاں کھڑے لوگوں تک بھی پہنچ گئی تھی یا یہ ایک رسمی سی تشویش تھی جو کسی بھی ماں کے مرنے کے بعد بچوں کے حوالے سے در آتی ہے؟
“شوہر شادی کر لے گا اور باقی؟ باقی کیا بچے گا؟۔۔۔۔ یہ سب ۔۔جو اس کے نہ ہو سکے۔۔ ”
“مجھے مرنے سے پہلے وصیت کر دینی چاہیے تھی ۔۔ مجھے لکھ کے مرنا چاہیئے تھا کہ میرے بچے کس کے پاس جائیں۔۔” یہاں کینیڈا میں تو بچوں کی حوالگی کی وصیت کی جاتی ہے،مگر کیا اسے پتہ تھا کہ اس کے بچے کس کے پاس جانے چاہئیں؟
وہ جھنجلا اٹھی؛ ” تو میں یہ وصیت کیوں نہ کر آئی کہ تمام مطلبیوں کو میرے جنازے میں آنے سے روک دیا جائے۔ جن لوگوں نے میرے جیتے جی میرے خلوص کو استعمال کیا اور وقت بدلنے پر یوں بدلے جیسے میں ہو ں ہی نہیں۔ان میں سے اگر کوئی میرے مر نے پر آیا تو مجھ سے برا۔۔۔۔ ” اسی وقت اسی کی نظر اپنی ماں، اپنی بہن، اپنے بھائیوں، اس اجنبی پر پڑی۔۔

“اور وہ لوگ۔۔۔ وہ لوگ جن کے دلوں پر ان کی انا کی وجہ سے دھند جمی رہی،جن کی جہالت نے مجھے پل پل اذیتیں دیں۔۔ بھیڑ کے روپ میں جتنے بھی بھیڑیے ہیں کو ئی نہ آئے۔۔ میرے مر نے پر کوئی نہ آئے۔ میرے اعتماد کا خون کر نے والوں کے دستانے اور ماسک تک مجھ سے دور ہٹا لئے جائیں۔۔یہ وصیت کیوں نہ کی میں نے۔۔۔؟ یہ کر دیتی تو آج چھانٹی ہو جاتی۔۔ آج جو بھی تدفین پر آتا کم از کم مجھے یہ اطمینان ہوتا کہ ان کے خلوص کی چھاؤں میں میرے بچے کچھ دیر سستا لیں گے۔ ”
“ہٹا ؤ۔۔ ہٹا ؤ۔۔ ان سب” زندہ مُردوں ” کو میری میت سے دور ہٹاؤ۔۔ ”

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ زور زور سے چیخنے لگی۔۔۔ مگر آواز حلق سے باہر نہیں آرہی تھی۔ اس کا سانس رکنے لگا، اس کا جسم ابھی تک نیند کے سحر میں تھا،ہلنے سے قاصر، مگر اس کا دماغ جاگ گیا تھا۔ ایک دفعہ ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا کہ ایسی حالت کو sleep paralysisکہتے ہیں۔ وہ ایک آدھ منٹ اس حالت میں رہی، پھر اس نے اپنے پو رے جسم کا زور لگایا اور اسے حرکت کر نے کے قابل بنایااور جب جسم میں جان پڑی تو وہ جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے بیڈ روم میں اندھیرا تھا۔ ساتھ سوئے ہو ئے شوہر کے بھیانک خراٹے اسے دنیا کی سب سے مترنم آواز محسوس ہو ئے۔ وہ بھاگ کر بچوں کے کمروں کی طرف گئی۔ تینوں بچے اپنے اپنے کمروں میں سکون کی نیند سو رہے تھے۔ چھوٹے بیٹے کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی اسے بجھا کر وہ اپنے کمرے میں لوٹی تو اس کا شوہر نیند سے جاگ چکا تھا۔ تھوڑی سی آنکھیں کھول کر بولا:
“اٹھ گئی ہو؟ ٹائم کیا ہوا ہے؟ صبح ہو گئی۔۔۔”
“ٹائم؟ صبح؟۔۔”وہ ہڑبڑا گئی۔۔ اس نے وقت تو دیکھا ہی نہیں تھا۔ نیند سے بیدار ہو تے ہی وہ جسم کو ادھر ااُدھر دوڑائے پھر رہی تھی۔۔
اس کو اپنے خیالوں میں کھویا دیکھ کر شوہر نے خود ہی ساتھ پڑا ہوا فون اٹھایا اور وقت دیکھا؛” اوہ فجر کاوقت ہو گیا ہے۔۔۔ ”
اور اس نے خوفزدہ ہو کر سوچا؛ “سنا ہے کہ فجر کے وقت کے خواب سچے ہو تے ہیں۔ “

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون