اگر آپ اردو زبان سے واقفیت رکھتے ہیں تو مندرجہ بالا محاورے اور اس کے مطلب سے بھی بخوبی واقف ہوں گے۔ ویسے تو یہ محاورہ مشکوک سا لگتا ہے کہ کاٹھ یعنی لکڑی کی ہنڈیا کا احوال جو ایک بار بھی چولہے پر چڑھ نہیں سکتی۔خیر۔۔یہ بحث پھر کبھی سہی ۔اب اصل قصے کی طرف رخ کرتے ہیں ۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میں شدید طور پر مالی بحران کا شکار تھا۔کاروبار کے نام پر گلی میں ہی ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان تھی جس کا احوال میں جون ایلیا کی زبان میں بس اتنا ہی بتا سکتا ہوں کہ اس میں نقصان تک نہیں تھا۔چند بوریاں چینی کی تھیں ۔اتنا عرصہ پڑی رہیں کہ ان میں سے ننھے ننھے گنے نکلنے لگے۔آلو پیازوں نے اپنی ناقدری دیکھی تو طیش میں آ کر ہرے بھرے ہونے لگے۔اس سے پہلے کہ پتی اپنی اصل حالت کو لوٹ جاتی اور میری دکان میں سری لنکا کا سماں بندھ جاتا میں نے حالات بدلنے کی ٹھان لی اور آپ کو علم ہی ہے کہ بندہ ٹھان لے تو کائنات کی ہر شے۔۔وغیرہ وغیرہ۔اور مجھ پر بھی قسمت کی دیوی مہربان ہو ہی گئی۔
ایک شام میں اپنی دوکان میں دھول اڑا رہا تھا کہ میرے دور پرے کے بھتیجے کا نزول ہو گیا۔اسے دیکھ کر میرا حلق کڑوا ہو گیا کہ خوامخواہ ایک ٹھنڈی بوتل کا انتظام کرنا پڑے گا۔مگر وہ تو مٹھائی کے ڈبے کے ساتھ آیا تھا۔۔۔میں حیران ہوا کہ یہ کیا سلسلہ ہو سکتا ہے۔۔مگر ڈبے کا حدود اربعہ خاصا تگڑا تھا اس لیے زیادہ غور و فکر سے پرہیز کرتے ہوئے میں نے اس سے گلے ملنے سے پہلے ڈبا اچکا۔اور ایک طرف رکھ کر احوال دریافت کیا۔۔”بس چاچا جی۔۔۔اللہ کے فضل سے وکیل ہو گیا ہوں ۔۔۔۔اور اسی لیے میں یہ مٹھائی بھی لایا ہوں ۔”اس نے سینہ اکڑا کر جواب دیا۔
میں نے رسمی مبارک باد دینے کے بعد ڈبا کھولا کہ اس سے زیادہ صبر محال تھا اور کھولنے کے بعد میں نے اس میں جو دیکھا ۔۔۔دل کیا کہ اس ناہنجار وکیل کو اسی کی عدالت سے فراڈ کے کیس میں اندر کروا دوں ۔پانچ کلو والے،ایک اعلی بیکری کے مٹھائی کے ڈبے میں ریڑھی سے لی ہوئی ہری پیلی ٹافیاں تھیں ” بمشکل میں نے اپنا غم وغصہ ضبط کیا اور پوچھا” تم تو غالبا مٹھائی لائے تھے پھر یہ ارتقائی تبدیلیاں کیسے آئیں “؟؟ وہ ہنسا۔۔۔مجھے دیکھا۔پھر ہنسا اور بولا چاچا جی آپ کو کس نے کہا کہ ٹافیاں نمکین ہوتی ہیں ۔میٹھے کی رو سے ہر میٹھی شے مٹھائی ہی ہوتی ہے”۔
اس سے پہلے کہ وہ مجھے قانون کے سیکشن اور سب سیکشن سنانے لگتا۔۔میں نے فورا سے پہلے اس کے منہ میں ایک ٹافی ڈال کر اسے بند کرنے کا بندوبست کیا۔ابھی میں اس کو بنا ٹھنڈا گرم پلائے رخصت کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ دکان کے باہر ایک زبردست دھماکہ ہوا اور ساتھ ہی میری سات پشتوں کی بخشش کا سلسلہ شروع ہو گیا۔بیچ بیچ میں آہ و فغاں کا تڑکا بھی لگ جاتا ۔ہم باہر کو بھاگے تو کیا دیکھا کہ چوہدری ۔۔اسحاق چوہدری دکان کے سامنے لم لیٹ ہے اور پگڑ کھل کر دور جا پڑا ہے۔دھوتی میں ملبوس ٹانگیں نامناسب حد تک پھیلی ہوئی ہیں اور نوکوں والے دیسی ساخت کے جوتے کیچڑ میں اوندھے منہ دھنسے ہیں ۔
لمحے کے ہزارویں حصے میں ،مَیں بات کی تہہ تک پہنچ گیا ۔۔چوہدری صاحب کے اس شان نزول کی وجہ وہ پانی کا پائپ تھا جو وکیل بھتیجے کی آمد پر میں بند کرنا بھول گیا تھا اور اس نے گلی کی کچی زمین کو اچھی طرح سیراب کر دیاتھا۔
میں آگے بڑھا اور چوہدری کو اپنا ہاتھ پیش کیا تا کہ وہ کھڑا ہو سکے۔۔چوہدری نے میرا ہاتھ قبول کیا اور کھڑے ہونے کے چند سیکنڈ بعد وہی ہاتھ میرے منہ کا احوال دریافت کر چکا تھا۔۔
چوہدری نے آج تک جتنے ککڑ چبائے تھے اور جتنی بھی دودھ کی دھاریں براہ راست بھینس سے وصول کی تھیں،ان سب کی لاج رکھتے ہوئے ایسا کرارا گھونسا جڑا کہ میرے سامنے کے دو دانت جو کہ محض میں نے فیشن کے طور پر سنبھال رکھے تھے ورنہ اتنے گھن کھائے ہوئے تھے کہ مسواک کرتے ہوئے میں احتیاط کرتا تھا۔۔وہ دونوں دانت تڑاق سے منہ کے باہر جا پڑے ۔۔۔میں نے پہلے تو دھیان نہ دیا اور جوابی کارروائی کے طور پر ایک ناتواں سا مکا چوہدری کو جڑا مگر اس کے دریائی گھوڑے جیسے تھوبڑے پر میرا مکا بے اثر ہی رہا اور وہ مجھے دو چار مزید لاتیں رسید کر کے چلتا بنا۔۔۔اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے گیا کہ میں اپنا ٹھکانہ داتا دربار اٹھا لے جاؤں ۔۔۔کیونکہ اب وہ میرا ٹھیلا مزید چلنے نہیں دے گا۔
میں سوچنے لگا کہ مشورہ تو چوہدری اچھا دے گیا ہے۔۔۔تین وقت کا کھانا آرام سے میسر ہو گا۔بھی میری سوچوں کے گھوڑے یہیں تک پہنچے تھے کہ بھتیجا جو اندر چھپا بیٹھا تھا اتنے زور سے چلایا کہ فضا گھوڑوں کی بریکوں کی چرچراہٹ سے گونج اٹھی “چاچا جی۔۔۔چاچا جی آپ کے دانت”وہ زور زور سے بولتا ہوا مجھے زمین پر گرے دو کنکر دکھانے لگا۔اب مجھے تشویش ہوئی ۔فوراً منہ کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ چوہدری میرے دانتوں کے ساتھ ہاتھ کر گیا ہے۔خیر کیا ہو سکتا تھا۔دانت واپس جڑنے سے تو رہے تھے۔
میں نے بھی صبر کا گھونٹ بھرا اور کہا”بھتیجے ۔۔دانت کتنا عرصہ چل سکتے تھے؟؟ویسے بھی دکھتے تھے۔ نکلوانے کی ہمت نہ تھی اچھا ہوا جان چھوٹی “۔وکیل صاحب کی جوش خطابت کو گویا چوتھا گئیر لگ گیا۔ اور اس نے تعزیرات پاکستان کے شجع خفیفہ کے ایسے سیکشن سے مجھے آگاہ کیا کہ خوشی کے مارے میں بے ہوش ہو گیا۔
بھتیجے نے قانونی موشگافیوں اور پیچیدگیوں سے لبریز،سیکشن سب سیکشن اور صفحہ نمبر فلاں فلاں کے مصالحے سے سجا ہوا ایک طویل مقالہ سنایا جس میں جو میرے پلے پڑا وہ صرف یہ تھا کہ کسی پاکستانی شہری کے دانت توڑنا ایک سنگین جرم ہے اور اس کا ہرجانہ دیت کا بیسواں حصہ ہوتا ہے۔میں جو منہ کھول کر سن رہا تھا،اس نقطے پر یونہی بول پڑا”ارے یار بھتیجے۔۔۔۔کتنا ہوتا ہو گا ہرجانہ اور اب میں کہاں دو سالخورده دانتوں کا مقدمہ معزز عدالت میں لے جاؤں ۔تم تو جانتے ہو آج کل عدالت کس قدر مشکل کیس کو دیکھ رہی ہے۔۔۔ملکی مفاد پر میں اپنے دو دانتوں کو ترجیح نہیں دے سکتا”۔
بھتیجا تو گویا الف ہو گیا اور کہا “چاچا جی۔۔۔آپ کس دنیا میں رہتے ہو؟؟آج کل کے دیت کے حساب سے دو دانتوں کا ہرجانہ کم سے کم بھی لاکھ روپے سے اوپر بنتا ہے”۔میرے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی اور الہ دین کا جادوئی قالین آ گیا”یعنی ۔۔تم۔۔تم یہ کہہ رہے ہو کہ ۔۔کہ۔۔۔میں خوشی سے گھگھیاتے ہوئے بول بھی نہ پا رہا تھا۔۔۔میری اس گھگھی کو بھتیجے نے ناگواری سے ملاحظہ کیا اور بولا۔۔”آہو چاچا جی۔۔۔آپ اگر چوہدری کو عدالت لے جائیں تو لاکھ روپے تو کہیں نہیں گئے “یہ سنتے ہی میں خوشی سے مرگی زدہ ہونے لگا اور فرط مسرت سے کیچڑ کو چومنے چاٹنے کے بعد وکیل بھتیجے سے کہا”بھتیجے ۔۔میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔میں عدالت جاؤں گا اور میرے وکیل بنو گے۔۔۔ تمم۔یہ کیس تمھارے وکیلانہ کیریئر کا ڈیبیو ہو گا”
وکیل بھتیجے نے تو پہلے کچھ دیر سوچا اور پھر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔”چاچا کیس تو میں لے لیتا ہوں پر پیسوں کا دس پرسینٹ میرا ہوگا۔میں نے ایک قہر بھری نگاہ اس پر ڈالی اور ہلکی آواز میں غرایا “ابے او احمق وکیل!!کیا تو جانتا نہیں کہ دس پرسینٹ کا دور گزر چکا ہے۔ہاں تیرے حال پر میں اتنا کرم کر سکتا ہوں کہ اپنی دختر نیک اختر،پری جمال و خوش خصال،رشک قمر و نور نظر شبانہ عرف شبو تیرے حبالہ عقد میں دینے کو تیار ہوں ۔کیس کی آخری پیشی پر بارات بھی لے آئیو۔”بھتیجا چند منٹ تو بالکل ہی پتھرا سا گیا اور پھر ایک دلدوز آواز کے ساتھ زمین پر گر گیا۔میں سمجھا وہ سجدہ شکر بجا لا رہا ہے۔۔۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ کسی قدیم افریقی قبیلے کی نافہم زبان میں کچھ بڑبڑائے جا رہا تھا۔۔۔
اب مجھے تشویش ہوئی کہ خوشی کے مارے کہیں جہان فانی کو الوداع ہی نہ کہہ دے۔۔۔میرا مقدمہ کون لڑے گا؟؟؟
میں نے اسے اٹھایا اور کہا”ارے بھئی کیا ہو گیا۔۔۔سنبھالو خود کو۔مانا کہ تم ایک ڈبے سے وکیل ہو مگر عزیز من ، ہو تو آخر میرے دور پرے کے خون ۔۔۔اور بات یہ بھی ہے کہ تاریخ نے ڈبہ وکیلوں کو سربراہ مملکت بنتے بھی دیکھا۔آخر اپنے ہی اپنوں کے کام آتے ہیں ۔تم رشتہ پکا سمجھو اور کیس دائر کرو۔” بھتیجے نے حواس واپس بلائے اور کہنے لگا”چاچا۔۔میں تیرا مقدمہ لڑوں گا بھی اور تن من،سر دھڑ بلکہ جتنے بھی میرے اعضائے ریسئہ و خبیثہ ہیں، ان سب کی بازی لگا کر جیتوں گا بھی مگر شرط اب یہ ہے کہ تو مجھے اپنی فرزندی میں لینے کا سوچے گا بھی نہیں “مجھے اس کی بدقسمتی پر افسوس تو ہوا کہ کیسا ہیرا ٹھکرا رہا ہے۔۔مگر میں کیا کر سکتا تھا۔۔۔میں نے شرط مان لی اور بھتیجا کیس کی تیاری کا عندیہ دیتا رخصت ہوا۔
گھر واپس آتے ہوئے میں مستقبل کے سہانے خواب بنتا رہا۔۔۔”اب چوہدری کو پتہ چلے گا ۔ عدالت میں گھسیٹوں گا۔۔۔بہت رلاؤں گا۔”میں فرعون صفت تاثرات بھی چہرے پر لانے کی کوششیں کرتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ منصوبے بناتا رہا کہ پیسوں کی وصولی کے بعد دکان،جو کہ قومی خزانے کا سامنظر پیش کرتی ہے،اس میں نیا مال ڈلواؤں گا اور اگر کچھ پیسے بچ رہے تو لکی ایرانی سرکس بھی دیکھ آؤں گا”انہی حسین خیالات کے جلو میں میں گھر پہنچا۔۔۔بیگم حسب معمول اندرون محلہ دورے پر تھیں ۔۔موقع غنیمت جان کر میں کمر سیدھی کرنے لیٹ گیا۔
کچھ دیر بعد بیگم کی بے سری بانسری سے آنکھ کھلی جو عین میرے سر پر بج رہی تھی۔۔'”ارے اٹھ بھی جاؤ۔۔۔یا اب ایک ہی بار اٹھو گے۔۔۔اے میں کہتی ہوں تمہارے ہاتھوں میں نقصان کے سوا کچھ اور بھی لکھ رکھا ہے کیا؟؟؟سرمایہ لٹاتے لٹاتے اب دانت ناک بھی گنوانے لگے “۔میں سمجھ گیا کہ میرے دانتوں کی بالجبر بے دخلی بیگم کے علم میں آ چکی ہے۔۔۔میں چونکہ نیا نیا لکھ پتی بننے والا تھا لہذا ایک بارعب پتی۔۔۔یعنی شوہر بننے کی ابتدا کرتے ہوئے پہلے تو میں نے بیگم کو نگاہ غلط انداز سے دیکھا اور تجاہل عارفانہ سے کہا “بیگم!!پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ دانت میرے ذاتی تھے،تمہارے ابا نے جہیز میں نہیں دیے تھے سو ان کا گنوانا یا سنبھالنا میرا ذاتی معاملہ ہے۔۔۔اور دوسری بات یہ کہ میں چند دنوں میں لکھ پتی ہونے والا ہوں اور تم اگر لکھ پتنی رہنا چاہتی ہو تو اپنے لہجے کے اطوار بدلو ورنہ تم بدل دی جاؤ گی۔۔۔قائم مقام بیگم کے لئے بہت سے نام زیر غور ہیں ”
بیگم بھونچکی ہو کر میری لاف گزانی سنتی رہی اور قبل اس کے کہ وہ کوئی موذی ہتھیار استعمال کر کے میرا دماغ ٹھکانے پر لانے کا بندوبست کرتی۔۔میں نے سارا واقعہ بمع اگلے قدم کے اس کے گوش گزار کر دیا۔جسے سن کر وہ خوشی کے مارے اچھلنے لگی ۔مگر اس کا گوبھی کے پھولوں کے کھیت سا وزن آڑے آ گیا۔۔
اگلے کچھ دنوں میں تھانے کچہری کے تلخ تجربوں کے بعد کیس داخل ہو گیا اور آنے والے ہفتے کو پہلی پیشی تھی۔
پہلی پیشی میں ابھی چار دن باقی تھے کہ بھتیجے نے پبلسٹی کا سوچا اور چار پانچ شرلی قسم کے صحافی میرے دروازے پر لے آیا۔یہ صحافیوں کی اس قبیل سے تعلق رکھتے تھے جن کے صحافتی کیریئر کا آغاز “ناظرین آیئے ہم آپ کو لئے چلتے ہیں ماسی سکینہ کے ڈربے میں ۔۔جہاں آپ ان کی چتکبری مرغی کو براہ راست انڈہ دیتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔۔ان روح پرور مناظر کو دیکھنے کے لئے ہمارے ساتھ رہیے ” قسم کی کوریج سے ہوتا ہے۔۔مگر یہ راز سمجھ سے باہر ہے کہ کچھ عرصہ بعد یہ عظیم صحافتی دھبے قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی میں کیسے پہنچ جاتے ہیں ۔شنید ہے کہ ان کے نام کچھ نامے آتے ہیں اور یہ مضمون بھانپ جاتے ہیں “لفافہ”دیکھ کر۔۔۔
خیر اس راز سے پردہ بعد میں اٹھا لیں گے۔۔۔ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ وہ شرلی صحافی چائے پانی کے عوض میرے مقدمے کی کوریج اور بیک گراؤنڈ سٹوری چلانے پر مامور ہو گئے۔۔۔اب خدا ہی جانتا ہے کہ دو دن میں ہی میں کتنا عاجز آ چکا تھا۔ہر دو گھنٹے بعد میرا منہ کھلوا کر فلم بنائی جاتی اور درد مندی سے لبریز الفاظ میں کہا جاتا” جی ناظرین! !یہ ہے وہ خلا جو ظالم چوہدری نے پیدا کی ہے اور اب اس کو دنیا کی کوئی شے نہ بھر سکے گی” یہ اور اس نوع کی دوسری بکواس سے میں ناکوں ناک عاجز آ چکا تھا۔۔ اور بقول بیگم میں راتوں کو سوتے میں بھی بلا وجہ باچھیں چیرتا رہتا تھا۔
خدا خدا کر کے آخر پہلی پیشی کی مبارک ساعت آن پہنچی اور میں اس شان سے عدالت روانہ ہوا “جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا” بیگم اور اہل محلہ نے مجھے گلی کے موڑ تک جلوس کی صورت الوداع کہا۔دوسری طرف چوہدری بھی مکمل تیاری کے ہمراہ رن کو گامزن تھا۔آج تو چوہدرانہ اکڑفوں کو آٹھ چاند مزید روشن کیے دے رہے تھے۔جی ہاں! چوہدری کے آٹھوں گانٹھ پورے آٹھ سپوت بھی اس کے ہمراہ تھے۔
بارے میں معزز عدالت میں پہنچا تو بھتیجا قانونی ہتھیاروں سے لیس میرا ہی منتظر تھا۔کچھ ہی دیر میں آواز پڑ گئی اور اب ہم جج صاحب کے حضور حصول انصاف برائے دندان ایستادہ تھے۔
معزز عدالت کے روبرو میں اور چوہدری پیش ہوئے اور جرح کا آغاز ہوا۔پہلے تو وکیل مخالف نے مجھ سے جرح کی۔۔میں نے بلا کم و کاست سارا ماجرا کہہ سنایا۔پھر بھتیجا آگے بڑھا اور اب چوہدری کی باری تھی۔وہ نہایت اطمینان سے کٹہرے میں کھڑا تھا۔
بھتیجا: “چوہدری صاحب! کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے وقوعہ کے روز باقر قریشی، یعنی میرے چچا محترم کے دانتوں پر ضرب شدید لگائی اور وہ اپنے اصل مقام سے جدا ہو گئے”؟؟
چوہدری مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے مسکرایا اور نہایت اطمینان سے صحت جرم سے انکار کر دیا۔۔اور کہا ” میں نے ایسا نہیں کیا،مجھے شک بلکہ یقین ہے کہ قریشی نے مجھے پھنسانے کے لئے چال چلی ہے اور دانت محض اس نے گوند سے چپکا رکھے تھے جو شاید چھینک مارنے سے منہ کے باہر گر گئے” مجھے بھتیجے پر تاؤ آیا کہ وہ تو چشم دید گواہ ہے پھر بھی اس دریائی گھوڑے سے پوچھ رہا ہے۔۔۔وہ تو انکار کرے گا ہی۔
پھر اس کے بعد بھتیجے نے ہر زاویے سے چوہدری کو گھسنے کی کوشش کی مگر وہ پکا ہو کر آیا تھا۔ہر سوال کے جواب میں وہ “میں نہیں جانتا۔۔میں نہیں جانتا” کا راگ الاپتا رہا۔۔یہاں تک کہ ایک موقعے پر جب بھتیجے نے سوال کیا کہ” سامنے کھڑے سپوت آپ ہی کے ہیں؟ ؟” تو چوہدری “میں نہیں جانتا” کہتے کہتے رہ گیا۔میں بہت دل برداشتہ ہوا کہ میرے پاس تو مزید کوئی گواہ بھی نہیں تھا۔لیکن یکدم بھتیجے نے ایسا پلٹا کھایا کہ پہلی پیشی پر ہی کیس کا فیصلہ ہو گیا۔۔اور یہ کچھ یوں ہوا کہ۔۔
بھتیجے نے یکدم مایوس ہوتے ہوئے کہا” آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں چوہدری صاحب! ! آپ نے باقر قریشی کے دانت نہیں توڑے۔۔۔آپ ایسا کر ہی نہیں سکتے” میں ہکا بکا سا اس میر جعفر کو دیکھتا رہا مگر وہ میری طرف دیکھے بغیر بولتا رہا”اصل میں آپ میں تو اتنی ہمت نہیں کہ درخت پر لٹکا آم توڑ سکیں ۔کجا دانت توڑنا؟ ؟یوں بھی آپ کے اس گیسی غبارے جیسے بدن میں صرف پھونک ہی ہے اور ۔۔” ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ عدالت چوہدری کی دہاڑ سے لرز اٹھی” اوئے۔۔او چوچے وکیل!!یہ تو نے گیسی غبارہ کس کو کہا۔۔؟؟اوئے میں نے توڑے ہیں دانت اس کے۔۔۔اوئے ۔۔میں تو ابھی تیرے دانت بھی توڑ سکتا ہوں ۔۔۔اوئے تو کیا چیز ہے۔۔۔میں تو جج کے بھی۔۔۔۔” اور پھر اس کے بعد صاف ظاہر ہے کہ معزز عدالت کو فیصلہ کرنے میں نہایت آسانی ہو گئی۔۔۔
معزز جج صاحب نے فیصلہ سنایا کہ میری دندان شکنی کے ہرجانہ میں چوہدری ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے مجھے دے گا۔معزز جج کی توہین کا ہرجانہ الگ سے دو لاکھ تھا۔چوہدری نیلا پیلا پڑتا رخصت ہوا۔ مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے، یہ تو سنا تھا مگر جھڑا ہوا دانت بھی اتنی ہی مالیت کا ہو گا اس کا اندازہ آج سے پہلے مجھے نہیں تھا۔عدالت سے باہر آتے ہوئے بھتیجے کو شاباشی دی اور یکدم مجھے خیال آیا۔۔” بھتیجے کیس تو ہم جیت گئے۔۔مگر یہ بتاؤ کہ تم نے شبو سے شادی کرنے سے انکار کیوں کیا”؟؟ بھتیجا شرما گیا اور شرماتے ہوئے وہ ایک خرانٹ اونٹ کے مشابہ لگتا تھا۔۔کہنے لگا”چاچا جی۔۔۔اصل میں میں اپنی کولیگ چھنو کو پسند کرتا ہوں ” میری پدرانہ غیرت ذرا جاگی اور میں نے کہا ” برخوردار! !میری شبانہ میں ایسا کیا نہیں جو اس چھنو میں ہے؟”” اس کائیاں وکیل نے میری طرف دیکھ کر کہا” چھنو کی آنکھ میں ۔۔دو نشے ہیں ”
میں اس نئی منطق پر منہ کھول کر اس کا منہ دیکھتا رہا۔۔اور کہا کہ چھنو کی آنکھ میں اک نشہ ہے۔۔اس کا علم تو میں بھی رکھتا ہوں مگر یہ نشہ دوگنا کب ہوا؟؟بھتیجے نے میری کم علمی پر مجھے افسوس بھری نظروں سے دیکھا۔۔اور بولا” چاچا جی۔میں وکیل ہوں ۔۔میں دلیل کے بغیر کوئی بات نہیں کرتا۔۔۔دیکھو “چھنو کی آنکھ میں اک نشہ ہے” مطلب چھنو کانی ہے لیکن میری چھنو کی دونوں آنکھیں سلامت ہیں ۔اس لئے چھنو کی آنکھ میں “دو نشے ہیں ” میں اس کی دلیلی لیاقت کا دل سے متعرف ہوا اور ہم گھر کو روانہ ہوئے۔
کچھ دن تو چوہدری سے وصولی اور محلے والوں سے مبارکباد وصول کرتے گزرے۔۔پھر میں نے دکان میں مال ڈلوایا۔بیگم کے ہمراہ سرکس بھی ہو آیا حالانکہ وہاں جا کر ناچتے شیر کو دیکھ کر مجھے اپنی حالت یاد آ گئی۔خیر۔۔چند دن تو میری شہرت کا طوطی خوب چہکا پھر بور ہو کر کہیں اور پرواز کر گیا۔۔میری شہرت سے متاثر ہو کر دانتوں والے ڈاکٹر نے مجھے آدھی قیمت پر مرحوم دانتوں کی جگہ نئے دانت لگا دیے۔یہ اور بات کہ وہ نئے نویلے دانت میرے سالخورده دانتوں سے میچ نہیں کرتے تھے اور ان میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے میں ہفتوں ان پر نسوار اور پان کا آمیزہ لگاتا رہا تا کہ وہ ٹاٹ میں مخمل کے پیوند کی طرح بہار نہ دکھلاتے پھریں ۔۔ زندگی معمول پر آ چکی تھی ۔۔میری گاہکی میں خوب ترقی ہوئی تھی اور چوہدری کے باڑے سے بھوری بھینس کی رخصتی ہوئی تھی۔جی ہاں یہ وہی بھینس تھی جسے بیچ کر چوہدری نے مجھے اور جج صاحب کو ہرجانہ ادا کیا تھا۔میں کاٹھ کی ہنڈیا چڑھنے پر بے حد مسرور تھا۔
مگر!! کہانی ابھی باقی ہے۔۔۔
میرے چند خیر خواہوں نے مجھے آگاہ کرنے کی کوشش کی کہ چوہدری نے مجھ سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنا لیا ہے اور اس ضمن میں وہ کرائے کے غنڈوں سے بھی ملاقاتیں کرتا پھر رہا ہے۔میں نے ایسی خبروں پر قطعاً دھیان نہ دیا کیونکہ میرے ذاتی خیال کے مطابق چوہدری دوبارہ سے قانون کو ہاتھ میں لینے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، ایک شام جب میں دکان سے لوٹ رہا تھا تو گلی کی نکڑ پر مجھے دو کن ٹٹوں نے گھیر لیا اور نہایت عزت و احترام سے اپنے ساتھ چلنے کی درخواست کی۔۔۔میں کبھی ان کی درخواست پر کان نہ دھرتا اگر انہوں نے مجھے دو چمکدار طمنچے نہ دکھائے ہوتے۔۔۔
میں لرزہ بر اندام ان کے ساتھ روانہ ہوا ۔۔آدھے گھنٹے بعد وہ مجھے ایک زیر تعمیر عمارت میں لے آئے اور ایک کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق بیٹھ گیا۔۔ایک کن ٹٹے نے مجھے باندھنے کا فریضہ سرانجام دیا اور دوسرا موبائل پر کال ملانے لگا۔۔۔”جی چوہدری صاحب! !جی جی قریشی کو لے آئے ہیں ۔۔جی جی۔۔۔ٹھیک ہے جی۔۔۔کارروائی دکھا دیں گے آپ کو۔۔” اف !!!تو خیر خواہ سچے تھے۔
چوہدری نے میری رخصتی کا پروگرام بنا لیا تھا۔ میں نے اللہ سے کردہ و ناکردہ گناہوں کی معافی مانگنی شروع کر دی۔پھر سوچا کہ جان بچانے کی ایک کوشش تو کرنی چاہیے۔”سنو بھائی!!تمہیں جو بھی چاہیے وہ لے لو اور مجھے جانے دو۔۔میں ہاتھ جوڑ کر ان سے درخواست کرنے لگا۔۔لیکن وہ تو جیسے کانوں میں روئی ٹھونس کر بیٹھے تھے۔۔۔میری فریاد کو ان سنی کرتے ہوئے ایک بدمعاش آگے بڑھا اور مجھے کھول کر کھڑا ہونے کو کہا۔۔۔”اٹھ قانون کی چہیتی اولاد۔وہ درشت لہجے میں بولا۔۔۔”اور یہ لباس فاخرہ اتار”وہ میرے کپڑوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔میرے سب دیوتا پرلوک سدھار گئے”نہیں نہیں ۔۔۔میں ایسی ذلت کی موت نہیں مرنا چاہتا۔۔۔تم لوگ مجھے گولی ہی مار دو”میں دہشت سے ہکلانے لگا مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور میرے ناتواں بدن سے کپڑے اتار لئے گئے۔بس اتنا ہی چھوڑا تھا کہ فرشتے شرمندہ ہو کر بھاگ کھڑے نہ ہوں ۔۔میں پھر سے باندھا گیا اور ایک غنڈے نے ہاتھوں پر دستانے چڑھاتے ہوئے قریب رکھی تھیلی اٹھا لی۔۔۔
میں سوچنے لگا شاید یہ مجھے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر چوہدری کو پیش کرنا چاہتا ہے۔۔۔وہ آگے بڑھا اور قریب آ کر تھیلی سے کوئی پاؤڈر نکال کر مجھے پر چھڑکنے لگا۔۔۔میں حیران ہوا کہ یہ کون سا تشدد کیا جا رہا ہے۔۔۔مگر مجھے زیادہ دیر حیران ہونا نصیب نہ ہوسکا۔۔ان کمبختوں نے مجھے پر کھجلی والے پاؤڈر کا چھڑکاؤ کیا تھا اور اس ضمن میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ فرشتوں کی حیا میں جتنا لباس مجھ پر رہنے دیا گیا تھا،اس کے اندر بھی پاؤڈر کی مناسب مقدار بہم پہنچائی گئی۔۔اف!! وہ روح فرسا تجربہ تھا۔۔میں ہاتھ پیر بندھے ہونے کے سبب حرکت کی برکت سے محروم تھا اور کرسی پر ایسے اچھل رہا تھا جیسے اکیلا چنا بھاڑ جھونکنے کی جدوجہد کر رہا ہو۔۔اور چونکہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں جھونک سکتا لہذا میں بھی کچھ دیر کی اچھل کود کے بعد نیم جاں کینچوے کی مانند ہو گیا۔۔
ظالموں نے اسی پر بس نہ کی ۔۔۔مجھے اچھلتا اور تڑپتا ہوا دیکھ کر وہ ہنس رہے تھے اور اس کارروائی کو چوہدری ویڈیو کال پر ملاحظہ کر رہا تھا۔۔کچھ دیر بعد انہوں نے تشدد کے دوسرے دور کا آغاز کیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ عالم فنا سے کوچ کا وقت آن پہنچا ہے۔۔
ان ظالموں نے چمڑے کی ایک ٹیوب میں ریت بھری،میرے منہ میں میری ہی جرابیں ٹھونسیں اور اس مہلک ہتھیار سے میرے جسم پر ضربات کلیمی لگانے لگے۔۔۔ہر چوٹ سے مجھے لگتا کہ میری چمڑی میں انگارے بھرے گئے ہیں ۔۔اور میں سوزوساز رومی سے محروم، پیچ و تاب رازی کھانے لگتا۔۔اور پھر ایک ایسی ضرب لگی جس کے بعد “نہ آئینے میں جلا رہی،نہ پری کی جلوہ گری رہی” یعنی میں بے ہوش ہو گیا۔۔
جب میری آنکھ کھلی تو شاید وہ جہاں دوسرا تھا۔۔ایک خوفناک چہرہ مجھ پر جھکا ہوا تھا اور بھیانک آواز میں کچھ پوچھ پڑتال کر رہا تھا۔۔۔لیجیے! !اب تو مجھے اپنے فوت ہونے کا سو فیصد یقین ہو گیا اور عذاب قبر کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنے لگا۔۔۔خوفناک چہرہ پتا نہیں کیوں مجھے جانا پہچانا لگ رہا تھا۔۔یکدم ٹھنڈے پانی کی پھوار سی مجھ پر پڑی اور حواس واپس آنے لگے۔اب وہ خوفناک چہرہ بیگم کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا اور کچھ دیر کے بعد وہ مکمل طور پر بیگم ہی تھی۔۔۔میں کراہتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کرنے لگا مگر بیگم جھٹ بولیں “لیٹے رہیں ۔۔۔پہلے ہی اتنی مشکل سے ہوش آیا ہے۔۔”میں چائے لے کے آتی ہوں۔باہر نکلتے ہوئے بھی وہ بڑبڑا رہی تھی” جب برداشت نہیں کر سکتے تھے تو چڑھائی ہی کیوں تھی” میں بھونچکا رہ گیا”بیگم کیا سمجھ رہی تھی؟؟کیا میں کوئی افیمچی ہوں “؟؟بیگم رکو۔۔سنو۔۔۔کیا کہہ رہی ہو۔۔”؟؟
اور بیگم نےجو مجھے بتایا وہ سن کر مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا
بیگم کے بقول میں محلے کے نکڑ والے چھپڑ کے پاس اوندھے منہ پڑا تھا اور مجھے وہاں سے پڑے دیکھ کر محلے کے بچوں نے اطلاع دی تھی۔۔ میں نے بیگم کو خود پر گزری واردات کی بابت بتایا۔۔بیگم نے کچھ کچھ مشکوک ہوتے ہوئے داستان غم سنی۔۔لیکن جب اس نے میرے تشدد زدہ جسم کو دیکھنا چاہا تو اس کے ساتھ ساتھ میں بھی چکرا گیا۔۔۔میرے جسم پر ایک بھی خراش یا زخم نہیں تھا۔۔۔حالانکہ درد اس قدر شدید تھا کہ مجھ سے کروٹ بھی بدلی نہیں جا رہی تھی۔۔۔بیگم کو یقین ہو گیا کہ میں نے افیون کی چسکیاں لگانی شروع کر دی ہیں اور ہمارے درمیان تیسری جنگ عظیم ہوتے ہوتے رہ گئی۔ میں سچا ہوتے ہوئے بھی کوئی ثبوت نہ دے سکا۔۔لیکن مجھے قانون کی بالا دستی کا اور انصاف کے بول بالا ہونے کا اشد یقین تھا اس لیے میں نے عزم کیا کہ میں اپنی بے گناہی اور چوہدری کے کرتوت دنیا کو دکھا کر رہوں گا۔۔اور آپ سے کیا پردہ۔۔دل میں کہیں ہرجانے کی رقم دھومیں مچا رہی تھی۔۔۔
میں نے بیگم کی ناراضگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وکیل بھتیجے سے رابطہ کیا۔۔مگر تب میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب بھتیجے نے مجھ سے سوالات کیے اور سوالات یہ تھے۔۔”کیا چوہدری موقع پر موجود تھا؟؟کیا چوہدری نے آپ کو چھوا؟؟ آپ کے پاس اپنے زخموں کا کوئی ثبوت ہے”؟ان سب سوالات کا یک لفظی جواب “نہیں ” تھا۔ وکیل بھتیجے نے میری مدد سے معذوری ظاہر کر دی اور کہا کہ ناکافی شہادتوں کی بنا پر وہ کیس داخل کرنے سے قاصر ہے۔میری عقل سے یہ بات اور طریقہ انصاف باہر تھا کہ دو ہلتے جلتے اور نصف صدی پرانے دانتوں کی شہادت پر مجھے لکھ پتی بننا نصیب ہوا اور اس عظیم سانحے پر صرف تسلی بھی میسر نہ ہوئی۔
میں ناکام و نامراد مایوس لوٹا اور چند دن لنگڑا کر چلنے کے بعد دکان سنبھال لی۔ہرجانے کی کلی کھلنے سے قبل ہی مرجھا گئی تھی۔ لیکن ایک خیال مجھے اندر ہی اندر کھائے جاتا تھا کہ آخر اس رات جو تشدد مجھ پر ہوا اس کی ایک بھی علامت میرے تن خستہ پر ظاہر کیوں نہ ہوئی؟؟یہ راز شاید ہمیشہ راز ہی رہتا کہ ایک شام چوہدری میری دکان پر جلوہ افروز ہوا۔
چوہدری کے ہونٹوں پر کمینگی سے لبریز مسکراہٹ تھی۔وہ آیا اور اکلوتی کرسی پر بیٹھ کر مونچھیں مروڑنے لگا۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد چوہدری نے بات کا آغاز کیا” اور سنا قریشی ۔۔سنا تھا تو پھر مجھ پر کیس ٹھوکنے کی تیاریوں میں تھا۔۔۔کیا بنا ؟؟” وہ فرعونی لہجے میرے زخموں پر نمک پاشی کر رہا تھا۔میں جو انصاف کے حصول سے مایوس ہو چکا تھا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور بول پڑا” دیکھ چوہدری بھلے ہی میں تیرے خلاف کچھ ثابت نہ کر سکا،نہ ہی اب تھانے کچہری میں خجل ہونے کا میرا ارادہ ہے، لیکن اگر تو مجھے اس الجھن سے نکال دے کہ میرا پلپلا بدن اتنی مار دھاڑ کے بعد بھی خراشوں سے محفوظ کیونکر رہا،تو تیرا احسان ہو گا” چوہدری نے بلند و بانگ قہقہہ لگایا اور بولا ” میں نے جن غنڈوں کو تیری دھلائی پر مامور کیا تھا وہ پولیس کی نوکری چھوڑ کر بھاگے تھے اور یہ طریقہ جو تجھ پر آزمایا گیا یہ ان کی ٹریننگ کا منہ بولتا ثبوت تھا۔نہ زخم نہ نشان اور بندے کی جان ہلکان ” بات مکمل کر کے اس نے ایک اور قہقہ لگایا اور میری دکان سے سگریٹ کا پیکٹ اٹھا کر چلتا بنا۔
میں ہکا بکا دیکھتا رہ گیا اور کاٹھ کی اس ہنڈیا کے دوبارہ نہ چڑھ سکنے کا غم غلط کرنے کے لئے ایک ٹافی چبانے لگا۔ جانے کیوں پر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ایک میں ہوں، جو سچائی پر ہونے کے باوجود کاٹھ کی ہنڈیا دوبارہ نہ چڑھا سکا۔۔اور ایک ہمارے حاکم لوگ ہیں جن کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے، مواد اچھلتا ہے مگر پانچ سال بعد وہی ہنڈیا اسی آب و تاب کے ساتھ دوبارہ چڑھ جاتی ہے اور ستم بالائے ستم کہ چڑھانے میں وہی لوگ پیش پیش ہوتے ہیں جو پھوڑنے میں بازی لے جاتے ہیں ۔
خیر یہ تو احمقانہ خیالات تھے، میں نے فوراً جھٹک دیے۔۔اور ہر اچھے شریف پاکستانی کی طرح آئندہ کے لئے انصاف کے حصول کی جدوجہد سے تائب ہوا۔ اور صاحبان!میں اب بودھ کے طریقہ کار اپنائے ہوئے ہوں ۔۔کوئی ایک گال پر چمانٹ مارے تو دوسرا پیش کر دیتا ہوں، ہر ظلم ناانصافی اور جبر کا معاملہ روز حشر کے لیے سنبھال رکھا ہےاور یوں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔۔۔ رہے نام اللہ کا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں