ہوس ہی محبت ہے

رویے ہمیشہ سے ناقابل فہم ہوتے ہیں ،لیکن ان رویوں کو سمجھا جا سکتا ہے ۔کیسے؟ آئیے کچھ تجربے کرتے ہیں ۔
چلیں پہلے اردو نگری کے محبوب موضوع محبوب کی طرف چلتے ہیں ۔۔
محبوب کا رویہ ”
محبوب کا رویہ ہمیشہ سے ایسے رہا ہے کہ عاشق بے چارے کے پاس شکوے کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچتا. کبھی محبوب کی کج ادائی کی کہانی ،تو کبھی رقیب سے دلنوازی کا قصہ، اگر غور کیا جائے تو محبت میں سب سے زیادہ عزت نفس کا کاروبار ہے. کہا جاتا ہے کہ محبت کرنی ہو تو انا کو بھلانا پڑتا ہے. محبوب دن کو رات کہے عاشق کے پاس سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی راہ نا ہو. کوئی بھی ادب اٹھا کر دیکھ لیں۔۔۔ ہمیشہ سے یہی شور رہا ہے کہ محبوب کے رویے پر اف بھی نا کرنا محبت ہے. ہمارے دانشور ہوں یا کسی اور ادب کے سب نے محبت اور ہوس کو الگ کر دیا. ایک کو قابل نفرت بنا کر لوگوں کے ذہن میں اسکے خلاف زہر بھر دیا اور دوسری کو قابل تقلید بنا کر پرستش کے قابل کر دیا. حالانکہ دونوں میں فرق بالکل واضح ہے۔۔ کیسے واضح ہے وہ ہم آگے چل کے دیکھیں گے۔۔
ابھی بات ہورہی ہے انا کی، ۔۔آپ کہتے ہیں محبت میں انا نہیں ہوتی ۔پھر آپ محبوب کے رویے کا شکوہ کرتے ہیں ،اب آپ بتائیے انا کے بغیر بھی شکوہ ممکن ہوا؟ محبوب کی بے اعتنائی تو تب محسوس ہوگی جب آپ میں ہلکی سی انا ہوگی ۔تب ہی اس کے رویوں میں تبدیلی کی خواہش اور رقیب کو دشمن جاں سمجھیں گے۔
اب ایک نظر انا کے بغیر محبت پر ہے ۔
انا ۔نا ہو تو محبت میں کوئی خصوصی توجہ نہیں ہوتی ۔ایک ہی شخص سے محبت کیے جا رہے ہیں کیے جا رہے ہیں۔نا کوئی حرف شکایت نا حرف ملامت بس محبت اور محبت، یہ کوئی قابل فہم یا قابل قبول انسانی رویہ تو نہیں ہے بلکہ ایک مشینی یا “روبوٹک” رویہ ہے ۔انا، حسد، بغض، محبت، نفرت یہ انسانی فطرت کے خاصے ہیں ۔اور یہ فطرتی رویے ہیں ۔جیسے جنس مخالف میں کشش ہوگئی ۔اب اگر محبت کے لیے انا کو بھلانا ضروری ہے تو ان جذبوں آگ لگا دیں ۔کیونکہ پھر تو آپ فطرت کے خلاف جا رہے ہیں۔اب انسان محبت نہیں یک طرفہ فرض سر انجام دے گا ۔ہاں جی اب وہ روبوٹ ہی بن سکتا ہے انسان بننا مشکل ہے ۔کیونکہ انسان کی خمیر میں محبت کے ساتھ نفرت بھی رکھ دی گئی ہے اور نفرت کی اٹھان انا سے ہوتی ہے ۔اور جہاں انسان محبت شروع کرتا ہے وہیں نفرت کا سفر خودبخود شروع ہوجاتا ہے ۔یقین نہیں آرہا ۔نا کہ جس سے محبت کرتے ہیں اس سے اسی وقت نفرت بھی کرتے ہیں ۔چلیں دیکھتے ہیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں تو کیا آپکو اسے کسی اور کے ساتھ التفات کے ساتھ باتیں کرتا اچھا لگتا ہے؟
نہیں نا ،اب آپ محبت کا پرچار کر ہی نہیں سکتے ۔اب آپ کے اندر نفرت کے جذبات پنپنا شروع ہوچکے ہونگے۔ لیکن اعتراض اس بات کا ہوگا کہ یہ نفرت تو اس رقیب کے لیے ہے محبوب کے لیے نہیں ہے ۔چلو مان لیتے ہیں ایسا ہے ۔اب آپ بتائیں آپکو اس شخص (رقیب) سے نفرت پہلے سے تھی ۔یا صرف اپنے محبوب کو اسکے ساتھ بولتا دیکھ کر شروع ہوگئی؟جی ہاں آپکے محبوب کا محبت بھرا رویہ ہی اس کے ساتھ نفرت کا سبب بنا ہوگا ۔تو اس نفرت کا منبع کون ہوا محبوب یا رقیب؟ یقیناً محبوب ہے ۔۔کیونکہ آپ محبوب سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ نفرت کا لاوہ اس کے نیچے دبا رہتا ہے۔اب اس لاوے نے شعلہ تو اگلنا ہوتا ہے ۔اسکے لیے رقیب بے چارے کی ذات بچتی ہے۔
اب تھوڑا موضوع آگے بڑھاتے ہیں ۔کیا کبھی اس انسان سے نفرت ہوئی ہے ،جس سے بے انتہا محبت ہوتی ہے ۔آپکا جوابےشک ہاں میں ہوگا۔ہاں جی نفرت بھی ہوتی ہے اور بلا کی ہوتی ہے ۔پر یہ بلا کی نفرت بہت نرم مزاج ہوتی ہے ۔جہاں محبوب کا ایک دلاسہ ملا جہاں ایک معافی نامہ ملا وہیں یہ نفرت محبت میں بدل جاتی ہے۔پھر اگر کچھ غصہ باقی رہتا بھی ہو تو گلے شکوؤں میں گزر جاتا ہے ۔اب یہ تو ثابت ہوگیا جس سے محبت ہو نفرت بھی اسی سے ہوجاتی ہے ۔لیکن نفرت کے دوران محبت کہاں چلی جاتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ کہیں بھی نہیں تب محبت عالمگیر ہوجاتی ہے ۔تب کائنات کی ہر چیز سے پیار ہوجاتا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ محبوب کی نفرت میں پھر اپنے دشمن میں بھی خوبیاں نظر آتی ہیں ۔یہ کائناتی محبت بہت شدید ہوتی ہے ۔یہ پھر محبوب کی پرچھائیوں کے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے۔پھر جہاں پرچھائی کا ہلکا سا گمان بھی ہوجائے یہ وہیں ڈھے جاتی ہے ۔وہیں ڈیرا ڈال دیتی ہے۔اور اکثر یہ پرچھائی کسی دوسرے انسان میں نظر آہی جاتی ہے ۔اب محبت کا وہی پرانا انداز وہی شدت وہی لہجہ ہوتا ہے.۔ہاں پر محبوب ضرور دوسرا ہوتا ہے اب بات چلی تھی انا سے، تو اب سوچیں اگر انا ہوتی تو کیا انسان دوسری محبت کر پاتا؟ ہاں جی انا کے بغیر کسی دوسرے انسان سے محبت ناممکن ہے ۔
یہ انا ہی ہے جو پہلے محبوب کو ٹھکرانے کا حوصلہ دیتی ہے ۔یہ انا ہی ہے جس نے حضرت انسان کو بتایا کہ جو ٹھکرائے اسے پلٹ کر نا دیکھ ،ہاں محبت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انا کی شدت میں کمی آجاتی ہے ۔حاصل گفتگو کیا ہے وہ آپ بتائیں ہم تھوڑا اور آگے چلتے ہیں ۔یہاں ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ انسان دوسری محبت بھی کر سکتا ہے۔ایک انسان ایک بار دو بار تین چار بار اور لا تعداد بار محبت کر سکتا ہے ۔یہ کوئی ایسی انوکھی بات نہیں کہ اس سے قطع تعلق کیا جائے۔ایک انسان کسی دوسرے انسان کے غیر انسانی رویوں کا بوجھ کب تلک تھامے؟ ہر انسان کو آسرا ہر انسان کو سہارا چاہیے ہوتا ہے ۔یہ جو لوگ ایک انسان سے محبت کر کے سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں وہ بے وقوفی کر رہے ہوتے ہیں ۔یا پھر اس بے وقوفی کو محبت جیسے نازک اور لطیف جذبے میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔انسان کتنا بھی بڑا باغی کیوں نا ہو اپنے معاشرے کی روایت میں جکڑا رہتا ہے ۔بشریت کا اعزاز ایسے نہیں ملتا محبت کرنی پڑتی ہے ۔گناہ کرنے پڑتے ہیں۔بشریت کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب انسان پہلے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے ۔انسان گناہ تو کر بیٹھتا ہے ،اپنے معاشرے کی روایت کو ایک بار تو توڑ بیٹھتا ہے ،لیکن دوبارہ اس میں حوصلہ نہیں رہتا ۔پھر اسے تنہائی اور رسوائی کا ڈر ڈستا رہتا ہے ۔وہ خود کو معاشرے سے بھاگا ہوا فرد سمجھ کر خود کو گناہگار ماننا شروع کر دیتا ہے ۔یہ احساس گناہ ہی اسے دوسری محبت یا محبتوں سے روک لیتا ہے ۔پھر وہ اس بات پر عمر لٹا دیتا ہے کہ محبت صرف ایک بار ہوتی ہے ۔۔
وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس کے پاس دوبارہ محبت کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا ۔ورنہ وہ دلی طور پر جانتا ہوتا ہے کہ وہ غلط بنیاد پر کھڑا ہے ۔لیکن روایت سے انسان منہ موڑتے موڑتے تھک جاتا ہے،اور جہاں تک رہی دوبارہ محبت کرنے کی بات تو محبت ایک کائناتی جذبہ ہے۔اسکے لیے کتنی بار ،کیوں اور کب کا سوال نہیں اٹھایا جا سکتا ۔اسکی تعداد کو نہیں دیکھا جاتا بس اتنا دیکھا جاتا ہے کہ محبت کے لیے محبوب ضروری ہے ۔اب ایک مثال کی طرف چلتے ہیں ۔۔ایک لڑکی نے ایک لڑکے سے اظہار محبت کیا ہے ۔۔وہ دونوں ساتھ گھومنے چلے جاتے ہیں ۔۔اب ایک جگہ لڑکی ایک میمنے کو دیکھتی ہے ،تو چلا کر کہتی ہے کہ کتنا پیارا ہے نا ،محبت کے قابل مجھے تو اس سے پیار ہوگیا ہے ۔اسی دوران لڑکے دل میں بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ کتنا پیارا میمنہ ہے ۔حالانکہ اس وقت تو وہ میمنہ لڑکے کا رقیب ہونا چاہیے ۔لیکن کیا ہوا کہ اس کے دل میں رقابت کی بجائے محبت ابھر آئی؟ چلو ابھی انکو آگے سفر کراتے ہیں ۔وہ دونوں آگے بڑھتے ہیں ۔ایک جگہ چھ سات سال کا بچہ کھیل رہا ہوتا ہے ۔لڑکی پھر وہی باتیں کہتی ہے ۔اسکی خوبصورتی کی تعریف کرتی ہے ۔لڑکا وہی کام دوبارہ کرتا ہے ۔یعنی اس کے دل میں چھوٹے بچے کے لیے کوئی حسد یا رقابت نہیں ہوتی بلکہ پیار ہی امڈتا ہے ۔چلیے اب اس بچے کی جگہ کسی نوجوان اور لڑکی کے ہم عمر لڑکے کو دے دیتے ہیں ۔
اب سوچیں کہ لڑکی نے وہی باتیں دوبارہ دہرائی ہیں ۔اور جس طرح بچے کو گال پر بوس دیا ویسے ہی اس لڑکے کو بوسہ دیتی ہے ۔آگے کیا ہوگا مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔خیر ہم چند ممکنات فرض کر لیتے ہیں ،لڑکی کو بے وفا کہا جائے گا ،لڑکا زیادہ غصے والا ہوا تو لڑکی کو مارپیٹ یا کوئی نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔اگر زیادہ شریف ہوا تو طعنے اور طنزیہ لہجے سے اپنا غصہ ٹھنڈا کرے گا ،ہر صورت میں لڑکی بے وفا کہلائے گی ۔اب ہم یوں کرتے ہیں کہ دونوں کی جگہ تبدیل کر دیتے ہیں ۔یعنی لڑکی کی جگہ لڑکا رکھ لیتے ہیں ،اب حالات پر غور کریں ،حالات ویسے کے ویسے رہیں گےپہلے لڑکی بے وفا بنی تھی اب وہ کہانی لڑکے کے حصے میں آئے گی ۔اب ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ ایک جوان اور بچے میں کیا فرق ہے ۔
اگر آپکو یہ فرق سمجھ آچکا ہے تو ہوس اور محبت کا فرق سمجھ آجائے گا آپکو آگے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے اگر نہیں آیا تو چلیں تھوڑا تجزیہ کرتے ہیں ۔ہوس اور محبت میں عمر کا فرق ہوتا ہے ،ہاں جی محبت بالکل ٹھنڈا کر کے اپنے جسمانی جذبے بجھانے کا نام ہے ۔جبکہ ہوس جلتی ہوئی کھیر کھانے کا نام ہے ۔شاید مثال اتنی واضح نہیں ہے یہ سمجھ لیں وقت کا فرق ہے ،دونوں ہی بستر پر لے جاتی ہیں ۔ہوس چاہتی ہے کہ فی الفور بستر پر پہنچا جائے ۔۔جبکہ محبت تھوڑا للچاتی ہے تھوڑا لبھاتی ہے پر انجام وہی بستر رہتا ہے ۔۔اب یہاں پر سوچیں کے ایک بچے کے وقت بے وفائی کا طعنہ کیوں نہیں دیا گیا جبکہ ایک جوان کے ساتھ اظہار کا وہی جذبہ اختیار کرنے کے بعد بے وفائی کا طعنہ ملنا شروع ہوگیا ۔۔یہاں ایک اور چیز ذہن میں آتی ہے ۔۔”حق ملکیت”
اب یہاں پر دو طرح کی حق ملکیت ذہن میں آتی ہے ،اشتراکی یا مکمل حق ملکیت رکھنا ،یہاں یہ بات ذہن نشین کر لیں انسان کبھی بھی مکمل حق ملکیت کا حق نہیں رکھ سکتا ۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ تم میرے ہو تم میری ہو ۔یہ دکھایا ،یہ جا رہا ہوتا ہے کہ ہم مکمل حق ملکیت رکھتے ہیں ۔لیکن اصل میں یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے ،کہ تمہارے اعضائے مخصوصہ کے ساتھ کھیلنے کا حق صرف میرا ہے ۔۔
اگر آپکو لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے تو آئیے تھوڑا پیچھے چلتے ہیں ،ایک بچہ یا ایک میمنہ کس حد تک لڑکی کے ساتھ حق ملکیت جتا سکتے ہیں ؟یقیناً ایک میمنہ اور بچہ اس حق ملکیت کے لیے فی الوقت کوئی قدرت نہیں رکھتے ۔۔لیکن جب بات آتی ہے نوجوان یعنی بالغ لڑکی یا لڑکے کی تو پھر ایسے لگتا ہے کہ کوئی ہمارا حق ملکیت (اعضائے مخصوصہ پر) چھین لے گا ۔
یہی ہوس اور محبت ہے ۔۔بس ہوس جلدی جلدی اور گرم گرم کھانا کھانے کا نام ہے ۔۔
جبکہ ۔۔۔
محبت ٹھنڈا کرکے اعتماد جیت کے کھانے کا نام ہے ۔۔۔

Facebook Comments

عامر اشفاق
میں نعرہ مستانہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ہوس ہی محبت ہے

  1. بات طریقہ کار کی ہوتی ہے اگر آپ محبت و ہوس کو ایک ہی کہ دیں تو پھر گناہ کبیرہ اور سنت مصطفیﷺمیں فرق کیا رہ جائے گا؟بات بستر تک ہی جاتی ہے مگر ایک طریقے سے اللہ کی لعنت پڑتی ہے اوردوسرے طریقے سے لعنت پڑتی ہے۔ہوس جائز ناجائز طریقہ سے اپنی خواہش پوری کرنے کا نام ہے جبکہ محبت ایک الہامی جذبہ ہےمحبت کرنے والا اللہ کے فضل کے راستے پہ چلتا ہے محبت میں انسان کو تماتر خامیوںاور کوتاہیوں کے ساتھ قبول کرتا ہے۔

Leave a Reply