ہو رہا ہے جہانِ نو پیدا ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

جس دور سے ہمارے اجداد نے اپنی کہانیاں اور رودادِ زندگی کے خاکے غاروں کی دیواروں اور پتھروں پر بنانے شروع کئے، گویا کہ وقت کی سوئی کے ناکے سے تہذیب و فن کا دھاگہ گزارنے کی سعی کر رہے تھے، تب سے قلب یعنی انسان کا دل ہی تمام احساسات، شعور، بہادری، حکمت، آفاقی علوم کی آماجگاہ، مشعلِ راہ اور سوچ بچار کا سرچشمہ تصور ہوتا رہا۔ اس بات پہ اگرچہ بحث جاری ہے کہ یہ تمام خیالات و تصورات کا منبع قدرت کی وہ طاقتیں تھیں جن کے آگے انسان نے بے بس ہوکر ہتھیار ڈال دئیے اور خوف کو بنیاد بنا کر کسی الہامی وجود پر ایمان لے آیا، یا واقعتا کسی آسمانی طاقت نے انسان کے قلب پر نورِ تجلی سے اسے اشرف المخلوقات کا اعزاز بخشتے ہوئے بلند شعور سے نوازا ۔

تمام پرانی تہذیبوں کا فلسفۂ نفس و روح انسان کے قلب کے گرد ہی گھومتا رہا، مصری تہذیب میں انسانی قلب تھا جسے زندگی کی روشنی اور علوم و حکمت کا سرچشمہ مانا جاتا تھا، بین النہرین (Mesopotamia )کی تہذیب میں دل کو روح کا مسکن مانا جاتا تھا جبکہ یونانی مفکرین روح کے علیحدہ وجود کی بجائے قلب ہی کو نور کا منبع مانتے تھے، خداؤں کو قربانی پیش کرنے کی اعلیٰ  ترین رسم میں زندہ انسان کا دھڑکتا قلب ہی پیش کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ تمام آسمانی کتابوں میں قلب یا صدر کو ہی مخاطب کیا جاتا رہا ہے جو آج بھی جاری ہے۔ دوسری طرف ان ادوار میں قلب کی اسی اہمیت نے بے تحاشہ دقیانوسیت ، تویم پرستی اور عجیب و غریب روایات کو بھی جنم دیا کیونکہ خرد کی گرہیں کھولنے میں ابھی مزید وقت درکار تھا۔ یہ دور mysticism کا دور کہلایا جا سکتا ہے۔

سترھویں صدی میں بورژوا کے انقلاب سے پہلے فرانس کے فلسفی رینے ڈیکارٹ نے یہ ثابت کیا کہ عقل و جسم دو مختلف مادّے ہیں جو اپنا اپنا علیحدہ وجود رکھتے ہیں، کائنات کے مرکزی وجود ،انسان، کی بابت ڈیکارٹ کی اس رائے نے لوگوں کو یہ سوچ دی کہ تمام علوم و خیالات کا منبع انسانی ذہن ہے، نتیجتاً دل کی حیثیت ایک پمپ سے زیادہ نہ رہی جو بدن میں خون کو دوڑا رہا ہے۔ دل کے بطور ایک میکانیکی عضو کے تصور نے اس کی بدیہی حکمت و احساسات کے اہم افعال پر پرچھائیاں ڈال دیں، سائنس کی ترقی کے ساتھ دل کی اہمیت کم تر ہوتی گئی، ویسے بھی جدید سائنسی علوم میں میٹافزکس کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ، فلسفہ کا مضمون اب برائے نام موجود ہے جس کا دائرہ سکڑ کر لسانیات و نفسیات تک محدود ہو رہا، نفسیات بھی صرف اس حد تک جہاں تک حواسِ خمسہ کی دسترس ہے کیونکہ سائنس کا بنیادی اصول یہی ہے کہ تحقیق مشاہدات سے مشروط ہے۔ سائنس اور علم کی اس ترقی نے پرانی تہذیبوں کی دقیانوسیت اور توہم پرستی کو کم از کم مغرب میں جڑ سے اکھاڑ پھینکا، یہ جدید سائنسی دور کی ابتداء ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدا کے وجود پر بھی سوال اٹھنے لگے، مغرب اپنے اعتدالی مزاج کی وجہ سے خاردار جھاڑیوں سے بچتے بچاتے معاشرتی ترقی کی کلیاں چننے میں جُتا رہا، بدقسمتی سے مشرق نے دو انتہاؤں پر ڈیرے ڈال لئے، ایک وہ جو دقیانوسیت کو ہی حقیقی میراث گردانتے ہوئے، مذہب کے نام پر، آج بھی انسان کو سماجی مغالطوں اور غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں اور دوسرا گروہ وہ جو انسانیت کی ہر اخلاقیاتی میراث کو مٹانے پر تُلا ہے۔

گزشتہ دہائی میں لیکن یہ تحقیقات سامنے آرہی ہیں کہ نہ صرف فرد کی ذات کے الیکٹرومیگنیٹیگ فیلڈز قلب ہی سے جڑے ہیں بلکہ جذبات و احساسات کا بڑا حصہ انسان کے دل سے وابستہ  ہے۔
دنیا میں فرد کے مقام کا تعین اور زندگی کے اہم ترین فیصلوں میں انسانی قلب ہی حتمی کردار ادا کرتا ہے، یہ بات اب مضبوط نظریے کے طور پر سامنے آئی ہے کہ قلب کی چابی سے لاشعور کے دروازے کھولتے ہوئے زمان و مکان کی حدود سے باہر جھانکا جا سکتا ہے اور مقدر کے بیکراں سمندر سے اپنی پسند کے موتی چنے جا سکتے ہیں۔
کیا کبھی اس بات پہ غور کیا گیا کہ سو سال قبل دل کی بیماریوں سے کتنے افراد لقمۂ اجل بنتے تھے اور آج اس کا تناسب کیا ہے ؟ جب تک قلب پر فرد کی توجہ رہی تب تک وہ مکمل صحتمند رہا جبکہ دماغ کی بیماریوں سے وجۂ اموات کا تناسب وہ نہیں جو دل کی بیماریوں کا ہے۔

یہ بات مستقبل قریب میں ثابت ہوجائے گی بلکہ عملی طور پر مشاہدے میں آ چکی کہ دل اپنی ایک سوچ رکھتا ہے، دل کے کان اور آنکھیں بھی ہیں جن سے یہ دیکھتا ہے، سنتا ہے، محسوس کرتا ہے۔
قدیم وئیدوں میں چاکروں کی بات کی گئی، سات چاکرے بتائے گئے، تین چاکرے انسانی دھڑ میں قلب سے نیچے واقع ہیں اور تین اوپر، درمیانی چاکرہ قلب کا ہے (گاہے اس قلب کو چاکرہ نہیں مانا جاتا بلکہ چاکروں کا مراقب تصور کیا جاتا ہے، ایسی صورت میں چاکرے چھ گنے جائیں گے )، قلب سے نیچے والے چاکروں کو دنیاوی افعال سے منسلک کیا جاتا ہے، یعنی مادے کے ساتھ، جبکہ قلب سے اوپر والے تین کا تعلق روحانیت سے ہے، درمیانی چاکرہ یا مراقب یعنی قلب جس طرف جھکاؤ رکھے گا ، فرد کی شخصیت اسی پہلو کا مظہر ہوگی، ابراہیمی مذاہب بھی نفس اور روح کے درمیان قلب کی اہمیت کو مانتے آئے ہیں اور ان کے نزدیک قلب ہی کے جھکاؤ پر فرد کے نوری یا ناری ہونے کا انحصار ہے۔

عقل اور جذبات جب تک مثبت ہیں، قلب سکون اور ہم آہنگی میں رہتا ہے، نتیجے میں دماغ بہت طاقتور حیاتیاتی انرجی کا اخراج کرتا ہے، دل اور دماغ کی یہ مشترکہ مشق زندگی کے ہر پہلو سے جڑے افعال میں تخلیقیت، کامیابی اور پیداوار کی ضامن ہے، فرد کی پہلی ذمہ داری ہر حال میں مثبت سوچ رکھنا ہے۔

پہلی ذمہ داری ہر حال میں مثبت سوچ رکھنا ہے۔
طبی نکتۂ نظر سے انسان کے اعصابی نظام کا خود مختار حصہ Autonomic nervous system ان تمام افعال کا ذمہ دار ہے جن کا انحصار فرد پر نہیں، مثلا دل کی دھڑکن، نظام انہضام، جنسی تحریک وغیرہ، یہ افعال انسان جسم غیر دانستہ یا لاشعوری طور پر انجام دیتا ہے، اس نظام کے آگے دو حصے ہیں
1.Sympathetic
2. Parasympethetic
پہلے حصے کے متحرک ہونے سے غیر ارادی ردعمل سامنے آتا ہے، جیسے دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا، پسینہ آنا، سانس کا تیز ہونا وغیرہ، یہ ایک دفاعی ردعمل ہے کہ کسی خطرے کی صورت میں انسانی جسم fight یا flight کیلئے تیار ہو جائے، اس حصے کا کام فرد کو بیرونی ماحول سے ہم آہنگ کرنا ہے، جبکہ دوسرے حصے parasympathetic کا کام بالکل متضاد ہے، یہ جسم کو ریلیکس کرتا ہے اور غیر ارادی ردعمل کو حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیتا، اس کا کام انسان کے اندرونی ماحول کو محفوظ رکھنا ہے کیونکہ انسانی جسم اور اس کے اعضاء مستقل محتاط نہیں رہ سکتے۔
اگر آٹو نومک نروس سسٹم کو ایک گاڑی سے تشبیہ دی جائے تو سیمپیتھیٹک حصے کو ریس اور پیرا سیمپیتھیٹیک کو بریک کہا جا سکتا ہے۔

نروس سسٹم کے یہ حصے دل اور دماغ کے درمیان مواصلاتی نظام کا کام دیتے ہیں کیونکہ دماغ کے اعصاب کا سب سے مضبوط تعلق قلب کے ساتھ ہے، دل اور دماغ کی یہی ہم آہنگی آپ کی صحت، آپ کے احساسات ، فوکس، سیکھنے سکھانے کی صلاحیت اور زندگی کی دوڑ میں تمام کامیابیوں کی ضمانت ہے۔
دل اور دماغ کی اس ہم آہنگی میں سب سے بڑی رکاوٹیں وہ سات گناہ ہیں جن کی طرف کتابِ مقدس میں بتایا گیا، یہ سات گناہ تکبر، حسد، لالچ، غصہ، شکم پرستی، شہوت اور مایوسی ہیں، ان خرافات سے بچنا ہر اس فرد کیلئے لازم ہے جو کامل انسان کے رتبے پر پہنچنا چاہتا ہے۔

ہم اس فلسفے کے عادی ہو چکے ہیں کہ انسانی دماغ ہی انسان کی بیالوجی پر حکومت کرتا ہے، یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے، لیکن یہ دریافت دلچسپی سے خالی نہیں کہ قلب کے ردھم کا دماغ پر انحصار نہیں، یہ آٹو پائلٹ پہ چل رہا ہے، دل کے ٹرانسپلانٹیشن کے دوران دل کو نارمل سلائین میں رکھا جاتا ہے اور یہ دماغ کی مداخلت کے بغیر زندہ رہتا ہے، ماں کی کوکھ میں پلتے بچے کا دل حمل کے تیسرے ہفتے اپنا کام شروع کر دیتا ہے جبکہ دماغ کی فعالیت چھٹے یا ساتویں ہفتے جا کے شروع ہوتی ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قلب ہی انسانی شخصیت کا حقیقی مرکز اور انیشیئیٹر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مغرب نے چار صدیاں قبل اپنی ایک رائے سے رجوع کیا، اور آج پھر وہ مڑ کر دیکھنے کو تیار ہے، وہ یہ بات جان چکا کہ سائنسی ترقی یا ایجادات کی حدود ہیں، ان سے آگے جانے کیلئے دماغ کے ساتھ ساتھ قلب پر توجہ دینا بھی اہم ہے ،آج سائنس اور مسٹیسزم کا حسین ملاپ ہونے کو ہے، نتیجتا اگلی دہائیوں میں یہ گوری چمڑی والا محقق کرۂ ارض سے باہر کی دنیا اور اپنے من کی اندرونی دنیا کو کنگھالتے ہوئے ظاہر و باطن پہ گرفت پاتا دکھائی دے گا، جبکہ ان کی ہر تحقیق کا ایک رخ دیکھنے والی ” سانولی تہزیبیں ” ہمیشہ کی طرح دھماچوکڑی تک محدود رہیں گی، کیونکہ مغربی تحقیق اپنی غلطی میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی اور نہ ہی متضاد رائے کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے، آنے والا دور شاید انہی کا ہے جن کے تہذیب بارے ہمیں یہ بتایا گیا کہ وہ اپنے خنجر سے خودکشی کریں گے، جبکہ واقعہ یہ ہے اس کے برعکس کہ کیلا چھیلنے کے مدنی طریقے والی تہذیب ہماری آنکھوں کے سامنے اپنی پھیلائی خرافات میں آخری سانسیں لے رہی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply