آئینہ دیکھ ذرا۔۔تبصرہ/سلیم مرزا

اپنی تحریروں سے لگتا ہے کہ میں ہی وہ طالب علم ہوں جسے صرف مائی بیسٹ فرینڈ والا مضمون یاد ہے ۔کچھ بھی لکھنے بیٹھوں میری تحریر میں کسی نہ کسی دوست کا ذکر ضرور آجا تا ہے ۔ابھی کل ہی کی بات  ہے ۔

“ناصر خاں ناصر کی کتاب “آئینہ دیکھ ذرا”وصول ہوئی یہ کتاب مجھے بابر رشید نے لالہ موسی سے بھیجی ہے ۔لالہ موسی میں بابر کی نائی کی دکان کے ساتھ کتابوں کی دکان ہے ۔بابر رشید ادب نواز بندہ ہے  ۔اس کی تین غیر ادبی تخلیقات مجھے چاچو کہتی ہیں ۔وہاں جو مجھے چاچا نہ کہے یا تو لالے موسے کا نہیں یا بابر رشید کا نہیں ۔

میں شہر سے کتاب وصول کرکے موٹر سائیکل رکشے پہ بیٹھا اور جلدی سے کتاب کھول لی ۔میں اسے دوران سفر پڑھنا چاہتا تھا مگر موٹر سائکل رکشہ اچھلتا اتنا زیادہ  ہے  کہ ساتھ والی سواری کے شاپر سے دودھ گرنے کا ڈر رہتا  ہے ۔بیک وقت شاپر پہ اور کتاب پہ دھیان رکھنا مشکل تھا۔لہذا کتاب گھر آکر پڑھی۔

ناصر صاحب کی کتاب “آئنہ دیکھ ذرا ” ایک ایسے پاکستانی کی کہانی  ہے جس کی دورس نگاہ معاملات کو بالکل اسی طرح دیکھتی  ہے  جس طرح کبھی میں بیگم کو دیکھا کرتا تھا ۔اور آجکل نیلم منیر کو، مصنف چونکہ بیگم سے خوفزدہ  ہے ، لہذا اس نے امریکہ میں رہ کر دنیا کا ویسا ہی تجزیہ کیا  ہے، جیسے گھر میں ہرروز میرا ہوتا  ہے ۔

تیسری دنیا میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور کیپٹلزم کی ریشہ دوانیوں کو انہوں نے اس ساس کی نظر سے دیکھا  ہے، جس کی بہو “چول” نکل آئی ہو۔

ناصر خاں ناصر کی زبان قینچی کی طرح چلتی  ہے اور ایک کالم میں اتنا کچھ لکھ جاتے ہیں کہ دوبارہ سے پڑھنا پڑھتا  ہے، صرف یہ جاننے کیلئے کہ ان حالات میں ہنسنا  ہے کہ کھل کر رونا  ہے ۔کتاب کا اسلوب اور طرز بیان انشائیہ و فکاہیہ  ہے، اتنے سادہ بیان ہیں کہ وہ نائی یاد آجاتا  ہے، جس نے اپنے گاہک سے پوچھا تھا کہ آپ گھر سے لال مفلر پہن کر آئے تھے؟

مجھ جیسے کیلئے تو یہ کتاب موج ای موج ہے ۔لیکن عقل والوں کیلئے اس میں صرف سوچیں ہیں ۔

موصوف امریکہ میں بیٹھ کر پاکستانی انداز میں سوچتے ہیں ۔بالکل اسی طرح جس طرح میں چھپڑ کے کنارے بیٹھ کر میامی کے ساحلوں کے بارے میں سوچتا ہوں ۔ناصر خاں ناصر میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری  ہے، یہی وجہ  ہے  انہیں نیویارک کے ڈاؤن ٹاؤن میں گھومتی کیمروں ڈیاز کو دیکھ کر شا ہد ہ درزن یاد آجاتی  ہے ۔بیچارہ ہر دوسرے کالم میں شاہ عالمی کے پٹھوروں اور برگر کنگ کا تقابل ایسے کرتا  ہے ۔۔کہ پٹھورے اچھے لگنے لگتے ہیں ۔

اس مثال سے اندازہ لگالیں کہ انہوں نے امریکہ اور پاکستان کے سماجی سیاسی معاشی اور عوامی رحجانات کا کس کس طرح پوسٹ مارٹم کیاہوگا ۔

اس کتاب میں اِ ن عظیم ہستیوں کا بھی تذکرہ  ہے، جو مصنف سے ملنے اس کے گھر تک جاپہنچے ۔اور مصنف مہمان نوازی کے چکر میں ورجینیا سے کیلیفورنیا تک ساگ ڈھونڈتا رہا۔غیر سیاسی تحریروں کی منظر نگاری اتنی اعلیٰ   ہے،کہ پوچھنا پڑتا  ہے، کہ “یہ فلم کون لایا تھا “۔

Advertisements
julia rana solicitors

کتاب کے شروع میں بہت بڑے مصنفین اور ناقدین کے تبصرے ہیں ۔جنہوں نے تکنیکی اور فنی اعتبار سے اس کتاب کو پچھلی دہائی میں شائع ہونے والی بہترین کتاب قرار دیا  ہے ۔ زبان وبیان کی شگفتگی اور منٹ منٹ بعد بدلتے بین الاقوامی معاملات پہ ناصر خاں کی گہری نظر ہے ۔گز شتہ دس سالوں سے عالمی سطح پہ جتنی تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں ان کے پاکستان پہ اثرات کوئی ترقی یافتہ معاشرے میں رہنے والا ذہین شخص ہی سمجھ سکتا  ہے۔چونکہ میں اپنے علاوہ کسی کو جینئس نہیں سمجھتا تو مجھے لگتا  ہے، کہ ناصر خاں کو ماضی حال اور مستقبل میں جھانکنے والا جادوئی گولہ مل گیاہے ۔اکثر عاملوں کے پاس شیشے کا ایسا گولہ ہوتاہے ۔جس پہ ہاتھ رکھوا کر کہتے ہیں “آنکھیں بند کرو “۔ناصر خاں نے چالاکی یہ کی  ہے  کہ کتاب ہاتھ میں تھما کر کہا  ہے” بچہ آنکھیں کھول ”
آئینہ دیکھ ذرا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply